• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بچے قوم کا مستقبل اور سرمایہ ہیں۔ ان کی عمدہ تعلیم ، تربیت، اچھی پرورش ، سلیقہ مندانہ نگہداشت اور دیکھ بھال والدین اور اساتذہ کی بنیادی ذمہ داری ہے کیونکہ اس سے وہ ایک ایسے مہذب شہری بن سکتے ہیں، جس کے ذریعے قوم کی ترقی کی امید کی جاسکتی ہے۔ بچوں کی طرح بچوں کا ادب بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے ، دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم ملزوم ہیں۔ ادب الاطفال کے اثرات ہمہ گیر ہیں، یہ نہ صرف بچوں کی خوشیوں میں اضافہ کرتے بلکہ ان کے اعمال و اقدار پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں، ان کے کردار کے تخلیق میں ادب اہم رول ادا کرتا ہے، مستقبل کی راہ استوار کرنے، منزل کا سراغ لگانے ، زندگی کا لائحہ عمل طے کرنے اور مصائب و مسائل کا نبرد آزما ہونے کے لئے بے پایاں عظام عطا کرتا ہے، اس لئے جہاں بڑوں کے ادب کی اہمیت ہے ،وہاں بچوں کے ادب کی ترویج و اشاعت بھی ضروری ہے۔ ہم اس کی عظمت اور ہمہ گیری سے انحراف نہیں کرسکتے۔ یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ کہانی کہنے اور سننے کا شوق انسان کی عین فطرت رہا ہے۔ 

قدیم دور میں جب لکھنے پڑھنے کا رواج نہیں تھا لوگ ایک جگہ بیٹھ کر روزمرہ کے واقعات کا اظہار نہایت دلکش انداز میں کیا کرتے تھے، ایسا کرنے میں انہیں خوشی حاصل ہوتی تھی۔دادی اماں ، نانی اماں اور امی جان کی بچوں کو سلاتے ہوئے کہانی سنانے کا سلسلہ ایک طویل تاریخ رکھتا ہے، کہانی سنانے کی روایات ، محلات سے لے کر جھونپڑیوں تک امیر سے لے کر غریب تک ایک جیسی ہی نظر آتی ہے، کہانی اور نظمیں بیان کرنے اور سننے کا یہ سلسلہ چلتا رہا ، بچے اسے سنتے اور اپنے سینے میں محفوظ رکھتے ہوئے، بڑے ہوئے اور پھر یاد کی ہوئی کہانیاں اور نظمیں اپنے بچوں کو سنایا کرتے تھے، اس طرح ماضی کی گراں مایہ میراث سینہ بہ سینہ منتقل ہو کر بچوں کو مستفیض کرتی رہی۔ 

بچوں کے ادب کا آغاز دراصل انہی عوامی کہانیوں کے پس منظر میں ہوتا ہے مختصر یہ کہ عوامی قصے ، کہانیاں، تمام سرحدیں عبور کرکے بچوں کا ادب اب ایک ایسی منزل پر پہنچ گیا ہے، جہاں نت نئے موضوعات سمٹ آئے ہیں جہاں بچوں کے جذبات اور احساسات کی ترجمانی ہے اور انہیں اپنی پسند کی ہر چیز پڑھنے کو میسر ہے۔ بچوں کے مشہور ادیب الیاس احمد مجیبی نے کیا خوب بات کہی ہے کہ ’’بچوں کے لئے لکھنا ، بچوں کا کھیل نہیں ہے، یہ تو بڑا ہی کھٹن اور دشوار کام ہے ، ہم اسے جتنا آسان اور ہلکا پلکا تصور کرتے ہیں یہ اتنا ہی دشوار اور محنت طلب ہے۔‘‘ادب الاطفال کے اپنے تقاضے اور مقاصد ہوتے ہیں۔ لکھنے کے ساتھ ساتھ اب بچوں کے ادب کے حوالے سے سیمینار، مذاکرے، کانفرنسز ، ورکشاپس بھی منعقد ہونے لگی ہیں، اخبارات میں بچوں کے صفحات ، بچوں کے رسائل، ریڈیو اور ٹی وی چینلز سے بچوں کے پروگرام اس حوالے سے مثبت اقدامات ہیں، گو کہ 2021ء کم و بیش کوویڈ۔19 کے زیر اثر رہا۔ 

سال کے ابتدائی آٹھ ماہ میں کوویڈ کے باعث ہر قسم کی تقریبات پر پابندیوں نے زندگی کے تمام شعبوں پر ہی اثرات مرتب کئے، اسی طرح بچوں کے ادب کو بھی کوویڈ کی وباء نے بری طرح متاثر کیا۔ بچوں کی کتابوں کی اشاعت میں بھی نمایاں کمی واقع ہوئی، بچوں کے کئی رسائل اپنی اشاعت برقرار نہیں رکھ سکے اوربچے ابتدائی آٹھ ماہ تک اپنی تعلیم کا سلسلہ بھی بھرپور انداز میں جاری نہیں رکھ سکے ،تاہم جس قدر بھی مواقع میسر آئے بچوں کے ادب کے حوالے سے کچھ نہ کچھ ہوتا رہا۔ 2021ء میں بچوں کے ادب کی صورتحال کیا رہی؟ ملک بھر میں بچوں کے ادب کے حوالے سے کیا ہوتا رہا اور اُن بچوں کے لئے کتنی کتابیں اشاعت کے مراحل طے کرسکیں۔زیرِ نظر مضمون میں ملاحظہ کریں۔

٭……٭……٭

مقابلہ کتب برائے اطفال

وزرات مذہبی امور حکومت پاکستان نے ہر سال طرح اس سال بھی سیرت النبی ؐ کے حوالے سے مقابلہ کتب منعقد کیا، حسبِ روایت ایک مقابلہ کتب بچوں کے لئے سیرت النبی ؐ کے حوالے سے لکھی ہوئی کتابوں کا بھی شامل ہوتا ہےجس میں سال کی بہترین کتابوں کو صدارتی انعام اور اسناد دی جاتی ہیں، اس سال بچوں کے ادب کے حوالے سے لکھی گئی عبدالوارث ساجد کی کتاب ’’رسول اللہ ؐ کا بچپن‘‘کو اول ، مشتاق کلوٹا کی کتاب ’’پیارے نبیؐ کا پیارا بچپن‘‘ کو دوئم صدارتی انعام دیا گیا، انعامات دینے کی تقریب ہر سال بارہ ربیع الاول کو اسلام آباد میں منعقد ہوتی ہے، جس میں صدر پاکستان کے دست مبارک سے یہ انعامات تقسیم کئے جاتے ہیں۔ اس سال یہ تقریب بارہ ربیع الاول بمطابق 19 اکتوبر 2021 ء کو اسلام آباد میں منعقد ہوئی جس میں صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی، وفاقی وزیر برائے مذہبی امور پیر نور الحق قادری نے انعامات تقسیم کئے۔

اطفال ادب پر ایم فل اور پی ایچ ڈی

ادب اطفال میں گزشتہ کچھ عرصے سے تحقیق کا رجحان بھی عام ہو رہا ہے۔ سال 2021 میں کئی جامعات میں ادب اطفال کے حوالے سے مقالات تحریر یا تفویض ہوئے۔گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد میں ''ادب اطفال کے فروغ میں نوشاد عادل کا کردار'' اور ''احمد عدنان طارق اور بچوں کا ادب'' کے عنوان سے مقالات تحریر ہوئے۔ اس سے قبل بچوں کے ادب میں کسی رسالے پر پی ایچ ڈی اردو کے مقالے کی روایت نہیں تھی۔

ڈاکٹر افضل حمید کی نگرانی میں اسکالر مبشر سعید نے '' فروغ ادب اطفال میں ماہنامہ انوکھی کہانیاں کا کردار'' کے موضوع پر مقالہ تحریر کرکے نئی تاریخ رقم کی۔اس سال پنجاب یونیورسٹی سے مزمل صدیقی نے نمائندہ افسانہ نگاروں، غلام عباس، کرشن چندر اورعصمت چغتائی کے لکھے ہوئے ادب اطفال کے حوالے سے تحقیق کی اور ایم فل کا مقالہ تحریر کیا۔ 

اس مقالے کے نگراں ڈاکٹر زاہد منیر عامر اور ڈاکٹر نعیم ورک تھے، کاشف بشیر کاشف نے ادب اطفال کے نثری رجحانات پر یونیورسٹی آف اوکاڑہ سے مقالہ تحریر کیا۔ محمد فیصل نے جامعہ کراچی سے ادب اطفال میں نظم نگاری کے موضوع پر پی ایچ ڈی کے مقالہ کے عنوان کی منظوری لی۔ ڈاکٹر محمد افضل حمید جو متعدد شخصی مقالہ جات جیسے عبدالرشید فاروقی اور بچوں کا ادب، یا علی اکمل تصور اور بچوں کا ادب جیسے مقالہ جات تحریر کرچکے ہیں، اس سال گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد سے ایم فل اردو سطح کے تین موضوعات کی منظوری میں کامیاب رہے،ان میں فروغ ادب اطفال میں دعوۃ اکیڈمی اسلام آباد کا کردار، پاکستان رائٹرز پوائنٹ فیصل آباد کی ادبی خدمات اور ادب اطفال میں نعت گوئی کی روایت شامل ہیں۔

کانفرنسیں، سیمینارز اور پروگرام

سال 2021 ء میں ملک کے مختلف شہروں میں بچوں کے ادب کی ترویج و اشاعت کے لئے مختلف پروگرام اور کانفرنسیں منعقد ہوئیں، دائرہ علم و ادب پاکستان کے زیر اہتمام دوسری کل پاکستان اہل قلم کانفرنس پنجاب کے تاریخی شہر پھالیہ میں 6اور 7 نومبر 2021ء کو منعقد ہوئی جس میں ملک کے مختلف شہروں سے ادیبوں اور شاعروں کی بڑی تعداد نے شرکت کی، 7 نومبر کو بچوں کے ادب پر ایک سیشن ’’ادب اطفال اور عصری تقاضے ‘‘کے عنوان سے منعقد ہوا ،اس سیشن کی صدارت بچوں کے معروف ادیب اور محقق ڈاکٹر افتخار کھوکھر نے کی جبکہ مقررین میں ڈاکٹر افضل حمید، اشفاق احمد خان اور محمد افضل رائید شامل تھے ، یہ کانفرنس اس سال کی بڑی کانفرنسوں میں سے ایک تھی۔

اسی طرح کراچی میں تعلم کے زیر اہتمام محکمہ نوجوانان سندھ کے تعاون سے کہانی نویسی پر ورکشاپ منعقد کی گئی ،جس میں بچوں اور نوجوانوں کی بڑی تعداد شریک ہوئی ، ورکشاپ میں صدارتی انعام یافتہ ادیبہ راحت عائشہ نے کہانی لکھنے سے متعلق اہم پہلوئوں پر بحث کی ، خاص طور پر نو آموز لکھاریوں کو وہ مہارتیں بتائیں، جنہیں جان کر وہ اپنی تحریروں میں دلچسپی پیدا کرسکتے ہیں ، راحت عائشہ نے بتایا کہ لکھنے والے کہانی کا آغاز کیسے کریں؟ اسے نقطہ تضاد اور نقطہ انجام تک لے جانے کے لئے کون سی باتیں تحریر کو منفرد اور دلکش بناتی ہیں، وغیرہ ورکشاپ میں شرکاء نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ، کہانی لکھنا ایک فن ہے اور کہانی لکھنے کی پہلی شرط مطالعہ کرنا ہے، مطالعہ کے بغیر ایک اچھی کہانی نہیں لکھی جاسکتی، بچوں کے لئے کہانی لکھنا انتہائی مشکل ہے، کیونکہ آپ کو بچوں کی سطح پر آکر لکھنا ہوتا ہے بچوں کے احساسات اور جذبات کو سمجھنے کے لئے خود بھی بچہ بننا پڑتا ہے۔

علامہ ناصر مدنی نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ، کتاب سے دوری نے ہمیں حقائق سے دور کردیا،کتاب دوستی زندہ دلی ہے، صاحب کتاب اور صاحب مطالعہ روشن دماغ اور عالی مرتبت ہوتے ہیں۔ قلم کی حرمت روزاول سے ہے۔ قلم کار معاشرے کا اثاثہ ہیں۔ تحریریں زندہ رہتی ہیں، اس لیے مثبت اور تعمیری کام تحریر اور تخلیق کیا جائے۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر محمد افتخار کھوکھر ،ضیغم مغیرہ کا کہنا تھا کہ ادب اطفال ایک مکمل تربیتی عمل ہے جودراصل ملک وقوم کے مستقبل کو سنوارنے کا نام ہے۔

بچوں کےلئے ادب تخلیق کرنے کےلئے اسی سطح پر جاکر لکھنا چاہیے۔ ممتاز سیاسی سماجی علمی ادبی شخصیت ارشد اقبال آرش بھٹہ اور زاہد بلال قریشی نے کہا کہ، وبا اور گھٹن کے دور میں قومی سطح پر بچوں کی ادبی کانفرنس ہوا کا ایک خوشگوار جھونکا ہے ملتان ادبی و ثقافتی اعتبار سے زرخیز خطہ ہے۔ میزبان تقریب غلام زادہ نعمان صابری اور صدارتی انعام یافتہ ادیب علی عمران ممتاز نے کہا کہ، ادب اطفال ہماری زندگی کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ ہم اس کی ترویج واشاعت کیلئے کوشاں رہیں گے‘‘۔ادب اطفال سے وابستہ لوگوں کی مکمل حوصلہ افزائی معاونت کرتے رہیں گے۔

آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام چودہویں عالمی اردو کانفرنس میں ’’بچوں کا ادب اور نئی دنیا‘‘ سیشن کا انعقاد پہلی بار کیا گیا ، جس کی صدارت معروف صحافی، ادیب اور شاعر محمود شام نے کی، مقررین میں علی حسن ساجد، سلیم مغل، رومانہ حسین شامل تھے، اس کی میزبانی کے فرائض معروف صحافی شمع زیدی نے انجام دیئے، ماضی کے مقابلے میں اس مرتبہ بچوں کے ادب کے سیشن کو خاص اہمیت حاصل رہی اور سامعین کی ایک بڑی تعداد نے اس نشست میں شرکت کی، ممتاز شخصیات میں ڈاکٹر یوسف خشک،ڈاکٹر رؤف پاریکھ، ڈاکٹر سید جعفر، خرم سہیل، ڈاکٹر اوج کمال اور بچوں کے قلم کاروں نے خصوصی طور پر شرکت کی۔ 

پروگرام’’آؤبچو، کتاب پڑھیں‘‘کے مہمانِ خصوصی محمود شا م کے ساتھ شرکاء کا گروپ فوٹو
پروگرام’’آؤبچو، کتاب پڑھیں‘‘کے مہمانِ خصوصی محمود شا م کے ساتھ شرکاء کا گروپ فوٹو

مقررین نے بچوں کے ادب کو انتہائی اہم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ دیگر لکھنے والوں کی طرح بچوں کے ادب پر کام کرنے والے قلم کاروں کو بھی اہمیت دی جائے، بڑے ادیبوں کو کچھ وقت بچوں کے ادب کو دینا ہوگا، حکومتی سطح پر بھی بچوں کے ادب کو اہمیت دی جانی چاہیے، جس طرح دیگر شعبہ جات سے وابستہ افراد میں سول ایوارڈ پیش کیے جاتے ہیں اسی طرح بچوں کے ادب پر کام کرنے والے افراد کو بھی اس فہرست میں شامل کیا جانا چاہیے، اس موقع پر وجیہہ وارثی کی کتاب ’’جنگلستان‘‘ کی رونمائی بھی کی گئی۔ 

تقریب کے صدر محمود شام نے اپنے خطاب میں کہا کہ،’’ یہ بات بہت خوش آئند ہے کہ چودھویں عالمی اردو کانفرنس میں بچوں کے ادب کو آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی نے اہمیت دی ہے۔ بچوں کا ادب صرف رنگ بھرنے یا پہلیاں بوجھنے تک محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس سےآگے کی طرف جانا چاہیے، یہ بہت ضروری ہے کہ پرائمری تعلیم ہی سے تربیت پر زیادہ توجہ دی جائے، دنیا بھر میں دکانوں پر بچوں کی کتابوں کا ایک گوشہ مخصوص ہوتا ہے، کیونکہ وہاں کی دنیا میں یہ بات بخوبی سمجھی جاتی ہے کہ بچپن ہی میں قوم کی کامیابی یا ناکامی کی بنیاد رکھی جاتی ہے، وہاں ریاست ماں بھی ہے اور باپ بھی، والدین اگر اولاد کی تربیت میں کوتاہی یا غفلت برتتے ہیں تو ریاست بچے کی بہتر پرورش کے لیے اپنی تحویل میں لے لیتی ہے‘‘۔ 

علی حسن ساجد نے کہاکہ جب تک بچے ہیں تب تک بچوں کا ادب بھی زندہ رہے گا، ادیبوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ بچوں کی نفسیات سے واقف ہوں تاکہ وہ ان کے لیے درست اشیاء کا انتخاب کرسکیں، 17ویں صدی میں ایسی تخلیقات شائع ہوئیں، جو بڑوں کے علاوہ بچوں کوبھی متاثر کرتی تھیں، حکومتی سطح پر بچوں کے ادب کو اہمیت دینے کی ضرورت ہے، اس وقت تقریباً 30سے 35بچوں کے رسالے شائع ہوتے ہیں، مگر دکھ کی بات یہ ہے کہ آج تک کسی بھی قومی کانفرنس میں بچوں کے ادیبوں کو نہیں بلایا گیا اور نہ ہی بچوں کے ادب پر کام کرنے کے لیے انہیں حکومتی سطح پر کوئی ایورڈ دیا گیا۔ 

عالمی اردو کانفرنس میں بچوں کا ادب اور نئی دنیا کے سیشن میں علی حسن ساجد، شمع زیدی اور رومانہ حسین
عالمی اردو کانفرنس میں بچوں کا ادب اور نئی دنیا کے سیشن میں علی حسن ساجد، شمع زیدی اور رومانہ حسین

سلیم مغل نے کہا کہ، بچوں کا ادب ہماری ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہے، جبکہ بچے اور ان کا ادب ہماری ترجیح ہونی چاہیے۔ کہانیاں کتنی اہم ہوتی ہیں اس بات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب ذرائع نقل و حمل موجود نہیں تھے تو اس وقت بستی بستی کی کہانی ایک دوسرے کے علاقوں میں سنائی جایا کرتی تھی، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ فطرت نے کہانی سنانے کے عمل کو بچے کی تربیت کے لیے پہلے ہی سے شامل کردیا ہے، رومانہ حسین نے کہاکہ بچوں کو نصیحت کرنے کے لیے ٹیکسٹ بک بہت ہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ اچھی باتوں کو دلچسپ پیرائے میں اس طرح بیان کیا جائے کہ وہ بچے کو نصیحت نہ لگے بلکہ بچے کے لیے اس میں کچھ سوچنے کی گنجائش چھوڑ دی جائے۔عالمی اردو کانفرنس کے اختتام پر آرٹس کونسل کے صدر احمد شاہ نے قرارداد پیش کی کہ،’’ بچوں کے ادب کو قومی دھارے میں شامل کیا جائے۔‘‘ جسے حاضرین نے منظور کرلیا۔

آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں ہی ادارہ تعلیم و آگہی کے تحت تین روزہ چلڈرن لرننگ فیسٹول 14 تا 16 دسمبر 2021 منعقد کیا گیا،فیسٹول کا مقصد بچوں کے ہاتھوں میں نصابی کتب کے علاوہ کوئی کتاب دیکھنا، اوروں کو سکھانا اور پڑھانا تھا، افتتاحی تقریب کے مہمان خصوصی وزیر اطلاعات سندھ سعید غنی تھے، فیسٹول کے دوران سندھی زبان میں ترجمہ کی گئیں بچوں کی 28 کتابوں کی رونمائی بھی کی گئی ،جبکہ دیگر کتابوں میں نیپالی ادیب، یوناایلاپن کی تحریر کردہ کتاب ’’ امبر اور کاشف کا کھیل ‘‘ اور رومانہ حسین کی گرافک اسٹوری بک ’’صادقین ‘‘ اور ’’ کھو۔کھو۔کھو کھانستا شیر‘‘ اور امین علوی کی کتاب ’’ایک سبق سیکھا‘’ بھی شامل تھی۔

اس موقع پر کہانیوں کی مختلف کتابوں سے کہانیاں بھی پڑھ کر سنائی گئیں اور ان پر گفت و شنید ہوئی جن میں فوزیہ من اللہ کی کتاب ’’ امائی اور شبنم‘‘ بھی شامل تھی۔ فیسٹول میں پانچ سے بارہ سال تک کی عمر کے بچوں کے لئے ’’ کتاب سازی‘‘ کا سیشن، مرکزی آڈیٹوریم کے باہر’’ فہمیدہ ریاض کی بیٹھک‘‘ میں منعقد ہوا، بچوں کے لئے ایک سائنس شو کا اہتمام بھی کیا گیا جبکہ بچوں کے لئے آرٹس اینڈ کرافٹس ورکشاپ کا انعقاد بھی کیا گیا تھا، شیما کرمانی کے تحریک نسواں تھیٹر گروپ کی طرف سے بچوں کے لئے ایک خصوصی کھیل ’’ جنگل جنگل زندہ باد‘‘ پیش کیا گیا یہ کھیل ایک ہاتھی اور شیر کی کہانی پر مشتمل تھا ۔

فیسٹول کے مختلف سیشن میں اس بات پر زوردیا گیا کہ، ادب و آداب کے بغیر تعلیم بے کار ہے، اس حوالے سے زہرہ نگاہ، ڈاکٹر عارفہ سیدہ زہرا اور مہتاب اکبر راشدی کے درمیان ’’ زبان و ادب اور آداب‘‘ پر نہایت پر مغز گفتگو ہوئی ۔ ان مشہور شخصیات نے اپنے بچپن کے دنوں کی یادیں بچوں سے تازہ کیں اور اُنہیں بتایا کہ ،کتابیں انسان کی بہترین دوست ہیں۔ ہزاروں بچوں نے اس فیسٹیول میں شرکت کرکے اسے کامیاب بنایا۔

دسمبر 2021ء میں ہی پروگرام ’’آؤ بچوں کتاب پڑھیں‘‘ کے حوالے سے تقریب منعقد ہوئی جس کے مہما ن خصوصی محمود شام اور مہمان اعزازی سلیم مغل تھے، مقررین میں ذکیہ صدیقی، مہک راشد، عروج فاطمہ، اونیزہ ممتاز برنی، آصف الیاس اور دیگر شامل تھے، انہوں نے بچوں کو کتاب کی افادیت اور اہمیت کے بارے میں بتایا، اس موقع پر بچوں میں مفت کتابیں اور رسالے بھی تقسیم کئے گئے۔ یہ تقریب اسکائوٹس دفتر گلشن اقبال میں آفتاب فاروقی نے منعقد کر کے ایک اچھی روایت کا آغاز کیا۔

ملتان میں اطفالِ ادب کانفرنس کے موقع پر علی عمران ممتاز معروف شاعر حاطب احمد صدیقی کو گلدستہ پیش کر رہے ہیں
ملتان میں اطفالِ ادب کانفرنس کے موقع پر علی عمران ممتاز معروف شاعر حاطب احمد صدیقی کو گلدستہ پیش کر رہے ہیں

2021 ء میں بچوں کے لئے شائع ہونے والی کتب 

2021ء کوویڈ کے اثرات کے شدید دبائو کے باوجود بچوں کے لئے کتابیں شائع کرنے والے اداروں نے ہمت نہیں ہاری ، کتابیں شائع کرکے بچوں کے ادب میں گرانقدر اضافہ کیا جو کتابیں 2021 ء میں شائع ہوئیں ان میں احمد عدنان طارق فیصل آباد کی چار کتابیں بھوتنوں کے جنگل میں، خالو خامخاں کے کارنامے، بادلوں میں قلعہ، داستان امیر حمزہ شائع ہوئیں، ندیم اختر (لیہ )کی تین کتابیں تابوت کے قیدی، نیلے کنواں کا آخری بونا ، اسی سال شائع ہوئیں۔ اطہر اقبال کی کتاب ایک محاورہ ایک کہانی بھی منظر عام پر آئی، کاوش صدیقی کی کہانیوں کا مجموعہ ہمت نہ ہارنا، سرمد اور سرمد کی واپسی کے چار چار حصے شائع ہوئے، راحت عائشہ کی کتاب کیچوا جن ، وجیہہ وارثی کی کتاب جنگلستان بھی اسی سال منظر عام آئیں۔ 

محبوب الٰہی مقبول اور نوشاد عادل کی مرتب کردہ کتاب بچوں کے ادیبوں کی آپ بیتوں کا دوسرا حصہ جو 700 صفحات پر مشتمل ہے اس سال منظر عام پر آیا جس میں محمود شام، نذیر انبالوی، نوشاد عادل، ڈاکٹر افضل حمید اور نسیم حجازی سمیت تیس ادیبوں کی آبیتیاں شامل کی گئی ہیں، اس سے قبل اس کتاب کا پہلا حصہ شائع ہوا تھا جس میں بچوں کے 14 مقبول ادیبوں کی آبیتاں شامل تھیں۔ اس سلسلے کو پاکستان اور انڈیا سمیت دنیا کے مختلف ممالک کے اخبارات میں سراہاگیا۔

بچوں کا کتاب گھر نے ندیم اختر کی کتاب۔’’ ہیٹ والا لڑکا‘‘، امجد جاوید کی کتاب’’باکسر بھیا‘‘، سائرہ شاہد کی کتاب ’’ رانی محل‘‘، غزالہ عزیز کی کتاب’’ خوشیاں‘‘، مریم شہزاد کی کتاب،’’ نانو دادو اور ہم‘‘، فہیم زیدی کی کتاب ’’مٹھو اور بنٹی‘‘، محمد رضا انصاری کی کتاب’’ خلائی دوست‘‘، سلمان یوسف سمیجہ کی کتاب، ’’ کہانیوں والی چڑیا‘‘اور دانیال حسن چغتائی کی کتاب’’ سیرت رحمت عالم شائع کیں۔

ملتان سے 2021 ء میں جو کتابیں شائع کیں ان میں فدا شاہین بھٹی کی کتاب،’’سونیکا محل‘‘، خواجہ مظہر صدیقی کی،’’ نبی کے امتی‘‘، غلام زادہ نعمان صابری کی’’ اندر کا آدمی‘‘، عروج جہانگیر کی ’’بلبل‘‘، رضوان شہزاد کی ’’محبوب عالم‘‘ ، انجینئر محسن بھٹی کی ’’دوسری آزادی‘‘، سحرش ناز کی ’’قائد اعظم سالگرہ مبارک‘‘، واعظ ابن خالد کی ’’ڈراپ باکس‘‘، فریدہ گوہر کی کتاب’’ سنو اور سنائو‘‘ وغیرہ شامل تھیں۔

بچوں کے رسائل اور اخبارات میں بچوں کے صفحات 

پاکستان سے کم و بیش بچوں کے تیس سے پینتیس رسالے شائع ہوتے ہیں جبکہ دو رسالے انگلش میں بھی نکالے جاتے ہیں، ان رسالوں میں چار رسالوں مالی طور پر مستحکم ادارے شائع کرتے ہیں جن میں ہمدرد فاؤنڈیشن کا رسالہ ’’ہمدرد نونہال ‘‘کراچی، فیروز سنز کا رسالہ ’’تعلیم و تربیت ‘‘ لاہور ، ’’ماہ نامہ پھول لاہور‘‘ اور ’’ماہ نامہ ساتھی‘‘ شامل ہیں جبکہ اکیڈمی ادبیات اسلام آباد سے سہ ماہی رسالہ ’’ادبیات اطفال‘‘شائع ہوتا ہے جسے اکیڈمی ادبیات کے سربراہ یوسف خشک کی سربراہی میں اختر رضا سلیمی اور ریاض عادل تیار کرتے ہیں، باقی رسائل اپنی مدد آپ کے تحت مختلف ادیب اور شاعر شائع کرتے ہیں۔ 

نمایاں بچوں کے رسالوں میں ماہ نامہ ذوق شوق ، انوکھی کہانیاں، جنگل منگل، جگمگ تارے، بچوں کی دنیا، بچوں کا باغ، جگنو،کرن کرن روشنی ملتان، ماہ نامہ فکشن، ماہ نامہ اقراء، ماہ نامہ پیغام ڈائجسٹ، ماہ نامہ بزم قرآن کراچی اور دیگر شامل ہیں۔اسی طرح اخبارات بچوں کی تفریح و طبع کے لئے مختلف دنوں میں بچوں کا صفحہ شائع کرتے ہیں ، روزنامہ جنگ ہفتے کے روز بچوں کا جنگ شائع کرتا ہے جو بچوں میں بے انتہا مقبول ہے۔اس سال جنگ کراچی نے بچوں کے مقبول ناول نگار ابن آس کا ناول ’’خالو بھالو‘‘ قسط وار شائع کیا جو بچوں میں بہت مقبول ہوا۔

(لے آئوٹ آرٹسٹ شاہدحسین) 

تازہ ترین