• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وفاقی سول سروس کے افسران کا مائی باپ ایک لحاظ سے سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن ہوتا ہے۔ گویا اس کے پاس ہر قسم کا انتظامی و اخلاقی اختیار ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی افسر کے مستقبل کاجو چاہے فیصلہ کردے۔ جیسے ملک پاکستان میں آئین کی حیثیت ہے کہ یہ سپریم کورٹ ہے، اسی طرح سول سروس کے معاملات نمٹانے کیلئے ایسٹا کوڈ (ESTA CODE) کا سہارا لیا جاتا ہے۔ جس میں افسران کی تعیناتی سے لے کر ان کی ریٹائرمنٹ تک کے تمام معاملات کو طے کرنے کے حوالے سے قوانین درج ہیں۔ حال ہی میں گریڈ 17 کے جونیئر افسران کی گریڈ 18 میں ترقیوں کے لئے بورڈ منعقد ہوا۔ میرے چند مہربانوں نے بتایا کہ اس بورڈ میں وفاقی حکومت کے ایسے تمام افسران جو ڈیپوٹیشن پر ہیں اور دوسرے صوبوں میں کام کر رہے ہیں کی ترقیاں روکنے کی تجویز دی گئی۔ اب یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ ایسا کونسا قانون ہے جو اس بنیاد پر کہ کوئی ڈیپوٹیشن پر ہے کی ترقیاں روکنے کی اجازت دیتا ہے۔ ڈیپوٹیشن کوٹے کا اعلان تو اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے خود کر رکھا ہے۔ گریڈ 17 اور 16 کے 120 جونیئر افسر صوبوں میں ڈیپوٹیشن پر بھیجے جاتے ہیں۔ افضل لطیف، جو کہ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن ہیں نے جب چارج سنبھالا تو وفاقی حکومت کے کم و بیش 156 جونیئر افسران مختلف صوبوں میں ڈیپوٹیشن پر کام کر رہے تھے۔ یعنی اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی پالیسی کے مطابق 36 افسران مختلف صوبوں میں زائد تعینات تھے۔ ان میں چو نکہ پنجاب کا شیئرزیادہ ہے اس لئے 70 سے 80 افسران یہاں تعینات تھے جن میں سے اکثر اب ڈیپوٹیشن پوری کرکے واپس اسلام آباد رپورٹ کر چکے ہیں اور کچھ جانے والے ہیں۔ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کا خیال ہے کہ ایسے تمام افسران جو ڈیپوٹیشن پوری کرنے کے بعد واپس رپورٹ بھی کرچکے ہیں کو فی الحال ترقی نہ دی جائے کیونکہ اگر انہیں اگلے گریڈوں میں ترقی مل گئی تو یہ پھر واپس صوبوں میں بھاگ جائیں گے۔ اب بے چارے ان جونیئر افسران کی سنو تو وہ یہ کہتے ہیں کہ صوبوں میں بعض گریڈ 20 کے افسران نے 15 سے 20 سال اور بعض نے تو پوری زندگی وہاں گزاردی لیکن اس کے باوجود انہیں گریڈ 21 دے دیا گیا تو ہمارا کیا قصور ہے، ہم تو زیاہ سے زیادہ 5سال ڈیپوٹیشن پر رہے ہیں۔ یہ کیسا قانون ہے جس میں مرضی سے لوگوں کو پروموٹ کر دیا جاتا ہے اور مرضی سے ان کی ترقیاں روک دی جاتی ہیں۔ اگر قوانین کی بات کی جائے تو روٹیشن پالیسی کی بنیاد پر یا اسے وجہ بناکر سینئر افسران میں سے تو کسی کی پروموشن نہیں روکی گئی۔ پنجاب میں گریڈ 21 کی سیٹیں خالی تھیں لیکن اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے گریڈ 21 میں ترقی پانے والے پاکستان ایڈمنسٹرٹیو سروس کے حسن اقبال کو تو سندھ بھیج دیا لیکن کیپٹن (ر) اسد اللہ اور فواد ہاشم ربانی کو پنجاب میں ہی رہنے دیا۔ جہاں تک مجھے علم ہے حسن اقبال گریڈ 20 میں 2012ء سے 2015ء تک بلوچستان میں تعینات رہے اور انہیں پنجاب میں 10 سال نہیں ہوئے۔ انہیں اگرپنجاب سے نکالنا مقصود تھا تو انہیں اسلام آباد بھجوایا جاسکتا تھا لیکن سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن ، جیسا کہ میں نے آغاز میں کہا کہ ایک لحاظ سے سول سرونٹس کے مائی باپ ہیں ، جس کیساتھ جو چاہیں کر سکتے ہیں لیکن پھر انصاف صحیح معنوں میں ہوتا ہوا نظر آنا چاہئے۔پنجاب سے جن افسران کو روٹیشن پالیسی کے تحت سندھ بھیجا گیا ان میںسے پاکستان ایڈمنسٹرٹیو سروس کے افسران کو تو نہیں البتہ پولیس سروس کے افسران کو جوائننگ میں کچھ مشکلات درپیش ہیں۔ اب دوبارہ جونیئر افسران پر بات کریں تو قانون میں واضح لکھا ہے کہ ایسے تمام مرد یا خواتین افسران جو میاں بیوی دونوںسروس میں ہیں کو ان کے گھروں کے نزدیک تعینات کیا جائے گا حتیٰ کہ 5سال گزر جانے کے بعد بھی حکومت مجاز نہیں کہ انہیں واپس اسلام آباد بلوا لے یا ان کی ترقیاں روک لے۔ اس طرح کا کوئی بھی اقدام ان افسران کے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ ایسے جونیئر افسران، جو ڈیپوٹیشن پر ہیں اور ویڈ لاک پالیسی میں آتے ہیں، کی ترقیاں روکنا ان کے بنیادی انسانی حقوق کی پامالی ہے جس پر وہ انصاف کے لئے عدالتوں سے رجوع بھی کرسکتے ہیں۔ ویسے یہ اچانک جونیئر افسران کی ترقیاں روکنے کا خیال آیا کیسے؟ آپ کسی خاتون یا مرد افسر کو جو دونوں نوکری کر رہے ہوں کو اسلام آباد لا کر بٹھا دیں گے اور انہیں ہاسٹل کے ایک کمرے میں بچوں کے ساتھ رہنے پر مجبور کر دیں گے تو پرفارمنس تو دور کی بات وقت گزارنا ہی مشکل ہو جائےگا۔ موجود ہ حکومت نے سول سرونٹس کے حوالے سے قانون پاس کئے ۔ اس میں سے ایک یہ تھا کہ جو افسر 2مرتبہ سپرسیڈ ہوگا تو اسے جبری ریٹائر کر دیا جائے گا۔ کیا حکومت نے جب یہ نوکری دی تھی تب یہ قانون تھا؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن جس افسر سے ناراض ہو، دو بورڈ کرے اور اسے جبری ریٹائر کردے۔ اب حالیہ پروموشن بورڈ میں گریڈ 20 کے کئی ایسے افسران جن کی اے سی آرز (OUTSTANDING)تھیں ان کو بھی ڈیفر کردیا گیا یعنی ان کی ترقی موخر کردی گئی۔ ان سے کہا گیا کہ وہ فیلڈ میں پرفارمنس نہیں دکھا سکے۔ بھائی اگر ان کو آپ نے کھڈے لائن لگا رکھا ہے اور وہ فیلڈ میں تعینات ہی نہیں تو کس بنیاد پر ان کی ترقیاں روکی گئیں اور اس حوالے سے کیا کوئی قانون پہلے سے موجود تھا۔ آپ نوکریوں کو (INCENTIVE) کی بجائے جبری مشقت کا نام دینا چاہتے ہیں تو یہ آپ کی مرضی ہے۔ موجودہ حکومت اس افسر کو وفا دار سمجھتی ہے جو پی ٹی آئی کا ہو کر رہے یا پھر جبری مشقت کیلئے تیار ہو جائے۔ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کی بہت سی پالیسیاں بہترہوں گی ۔

تازہ ترین