• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس انحطاط کو بیان کرنے کے لئے الفاظ بھی نئے ہی ایجاد کرنا ہوں گے، ذلت اور غلاظت کی کوئی تو حد ہوتی ہو گی۔ ہر بار جب بھی کسی انتہائی ناخوشگوار اور بدبودار نئی حرکت کا انکشاف ہوتا ہے تو میں سوچتا ہوں… بس یہ تو ”The End“ ہو گیا اور اب اس سے آگے اور کچھ نہیں ہو سکتا لیکن چند ہی ہفتوں کے اندر اندر کوئی ایسی نئی نجاست سامنے آتی ہے کہ پچھلی نجاستیں پھولوں کا گلدستہ محسوس ہونے لگتی ہیں۔
ہم کن ڈرون حملوں اور دہشت گردیوں کو روتے رہتے ہیں کہ رونے کے تو اصل مقامات ہی کچھ اور ہیں۔ پورا معاشرہ دیوار گریہ میں تبدیل ہو چکا ہے۔ ہر طرف گلاؤ سڑاؤ کا بھیانک عمل جاری ہے جس کا نوٹس لینے والا کوئی نہیں، کوئی توجہ دلائے بھی تو کہتے ہیں، مایوسی پھیلا رہا ہے۔
کیا کوئی تصور بھی کر سکتا ہے کہ کسی انسانی معاشرہ میں ایسا کوکنگ آئل بکتا ہو گا جیسے مردہ جانوروں کی انتڑیوں اور دیگر آلائشوں سے تیار کیا جاتا ہے۔ الامان الحفیظ کہ اسلامی کیا اسے تو انسانی معاشرہ کہنا بھی غیر انسانی حرکت محسوس ہونے لگی ہے۔ جعلی دودھ کی خیر ہے، تیزاب میں ڈال کر پھیلا گیا لہسن بھی ٹھیک ہے، کیمیکل میں ڈبو کر ادرک کا وزن اور اس کی چمک بڑھانا بھی درست ہے، مین ہول چوری کر کے فونڈریوں کو بیچنا بھی صحیح ہے، مسجد کی ٹوٹیاں، فون و بجلی کی تاریں چرانا بھی سمجھ آتا ہے، ارب پتیوں کا گیس، بجلی، ٹیکس پر ڈاکہ بھی قابل فہم ہے۔ سبیلوں پر زنجیروں سے بندھے ہوئے دھاتی گلاس بھی قبول ہیں، ہسپتالوں کی ویسٹ Waste کی نیلامی بھی ہضم کر لی، ذبح کئے گئے بکرے میں پریشر سے پانی انجیکٹ کر کے اس کا وزن بڑھانا بھی کوئی زریں تجارتی اصول ہو گا لیکن مرداروں کی انتڑیوں سے تیار کیا گیا کوکنگ آئل؟ میں نے ایک نجی ٹی وی پر اس کوکنگ آئل کی فیکٹری دیکھ کر جو محسوس کیا، اسے لفظوں میں بیان کرنا ممکن ہی نہیں… اس ملک کے فکری، سیاسی، مذہبی رہنما کدھر ٹامک ٹوئیاں اور جھکیں مارتے پھر رہے ہیں کہ اصل میں تو المیہ ہی کوئی اور ہے۔
کوئی فحاشی کو رو رہا ہے
کیسی کو ساورنٹی کا مروڑ اٹھ رہا ہے
کوئی امریکہ سے پنجہ آزمائی کا شوقین ہے
کسی کو مصر کی فکر کھا رہی ہے ،کوئی شام پہنچا ہوا ہے
کوئی کہتا ہے میرے سنگ …انڈیا سے جنگ
کسی کو جمہوریت کا غم کھائے جا رہا ہے
کوئی مغرب کی ”بے راہ روی اور بے حیائی“ کو ایکسپوز کرنے پر تلا ہوا ہے، حالانکہ انہیں ان الفظوں کی Defination ہی معلوم نہیں لیکن خود کش بمباروں کے بارے فکر مند نہیں جانتے کہ پورا معاشرہ انتہائی تیزی سے خود کش بمبار بنتا جا رہا ہے اور وہ وقت دور نہیں جب ہمیں کوئی بیرونی دشمن درکار نہ ہو گا، مکمل تباہی کیلئے ہم مکمل طور پر خود کفیل ہوں گے۔
مجھے نام نہاد سیاسی و مذہبی لیڈرز سے کوئی شکوہ شکایت نہیں کہ ان کی تو دنیا اور ترجیحات ہی اور ہیں۔ سیاستدان انتخاب سے آگے نہیں دیکھتا، مولوی ثواب کے علاوہ کچھ نہیں جانتا اور یہ جانکاری بھی اتنی ادھوری کہ کچھ نہ پوچھیں، حقوق العباد پر برابر کا فوکس رکھا ہوتا تو آج انسان انسان کو اس طرح نہ نوچ رہا ہوتا کہ ارب پتی بزنس مین سے لے کر گاؤں کے قصائی تک، ہر کوئی لوٹ مار میں مگن، انسانی زندگیوں سے کھلواڑ میں مصروف ہے۔ مجھے تو شکوہ اہل فکر و قلم سے ہے جو ان موضوعات کو ڈسکس کرنے کے قابل ہی نہیں سمجھتے۔ اس حوالہ سے میں خود کو اتنا تنہا محسوس کرتا ہوں کہ بیان نہیں کر سکتا، کیا یہ سارا سیاپا صرف میرے ذمے ہے یا کہیں ایسا تو نہیں کہ سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے اور میں ہی ابنارمل ہونے کے سبب چیزوں کو ”میگنی فائی“ کر کے دیکھتا ہے؟
فرد کی تہذیب کے تین مرحلے، تین مقام، تین درجے، تین حصے اور تین خانے ہوتے ہیں۔ اول جسم، دوم دماغ، سوم روح۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ معاشرہ صرف اور صرف ”جسم“ رہ گیا ہے اور وہ بھی مفلوج، معذور اور مختلف امراض میں جکڑا ہوا جسے نہ کوئی ڈاکٹر میسر ہے نہ دوا بلکہ کبھی کبھی تو سوچتا ہوں کہ شاید اس ”جسم“ میں صحت مندی کی خواہش بھی باقی نہیں بچی۔ اسے کسی ڈاکٹر دوا یا علاج سے دلچسپی ہی نہیں۔ Death Wish یعنی خواہش مرگ میں مبتلا ”جسم“ ہے جبکہ صرف جسم تو جانور کیا جراثیم کا بھی ہوتا ہے۔ انسان فقط ”جان دار، جانور“ سے انسان تب تبدیل ہوتا ہے جب اس کا دماغ متحرک ہو جو بتدریج روح کے تحرک تک جا پہنچے اور یہی وہ مقام ہے جہاں بڑا ادب، آرٹ اور ایجاد جنم لیتے ہیں۔
جس معاشرہ میں صرف جسم کو پالنے میں ہی زندگی گزر جائے، اس استحصالی معاشرہ میں انسان جسموں سے آگے بڑھنے ہی نہیں پاتا۔ جہاں مقصد حیات ہی صرف دو وقت کی روٹی رہ جائے، وہاں خوبصورتی، حسن، لطافت، پاکیزگی، خوشبو، تربیت، تنظیم، تعمیر، تخلیق، توازن کا کیا کام؟
آؤ مردہ مرغی یا پانی ملے حلال ”گوشت میں تیزاب ملا لہسن، کیمیکل زدہ ادرک، ملاوٹ والی مرچیں، گندے پانی سے سیراب کی گئی سبزی ڈال کر اسے مردار جانوروں کی انتڑیوں سے تیار کئے گئے کوکنگ آئل میں پکائیں اور اخلاقیات کا ختم دلا کر ثواب دارین حاصل کریں کہ مردہ اخلاقیات والی… ہم زندہ قوم ہیں!
تازہ ترین