نئے سال کی آمد کے ساتھ ہی دنیا بھر کے ماہرین دو نظریات اور دلائل پر توجہ مذکورکئے ہوئے ہیں۔پہلا یہ کہ کوروناوبا کا اگلے 12 مہینوں میں تدارک کیسے کریں۔ دسمبر کے آخر میں کیسوں کی تعداد میں اضافے کے باوجود 2021 بہت سے حوالوں سے 2020 سے مختلف تھا - ہمارے پاس کم از کم ریاست ہائے متحدہ میں کافی ویکسین موجود ہیں، اور ایسا لگتا ہے کہ ایک ایسے سال کا تصور کرنا ممکن ہے جس کی تعریف زیادہ تر وائرس اور اس سے وابستہ سیاسی اور پالیسی چیلنجز سے نہیں کی جائے گی۔ سوال تو یہ ہے کہ کیا 2022 ایسا ہی ہوگا؟ موجودہ حالات کے پیش نظر ماہرین، تجزیہ نگاروں سے رائے مانگی جارہی ہے کہ وہ خیالات اور دلائل سے آگاہ کریں کہ اگلے 12 مہینے کیسے گزریں گے کیونکہ وبائی مرض کا تیسرا سال پہلے دو کی طرح غیر متوقع ہوسکتا ہے۔
دنیا کے تیسرے سال کورونا وائرس سے لڑنے کا کیا مطلب ہے؟ اگر ماہرین (اور نامہ نگاروں) نے کچھ سیکھا ہے، تو یہ کہ کبھی وائرس کے بارے میں پیش گوئیاں نہیں کرنی یا اسے کم نہیں سمجھنا ۔ وقت کے ساتھ ساتھ، اس نے دنیا کے سرکردہ سائنسدانوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے اور لوگوں کو متاثر کرنے کے نئے طریقے ڈھونڈے ہیں۔ دنیا کے بڑے ممالک کے حکمران اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی کوشش اور خواہش کہ صرف ویکسین ہی اس وبائی مرض کو قابو میں لائے گی، مگر بعض ملکوں نے ویکسین لینے سے انکار کر دیا ہے، بلکہ اس سے بچنے کےلیے لاکھوں جھوٹے سرٹیفکیٹ بنا لیے ہیں، فرانس جیسے ترقی یافتہ اور 97 فیصد شرح خواندگی کے ملک میں لاکھوں جعلی سرٹیفکیٹ پکڑے گئے حالانکہ ویکسی نیشن بلا معاوضہ اور آسانی سے دستیاب ہے۔ اومیکرون نے بہت سے ایسے لوگوں کو بھی متاثر کیا ہے جنہیں ویکسین لگائی گئی ہے۔ 100 سے زیادہ ملازمین والے تمام کاروباری اداروں کے لیے انتظامیہ کے ویکسین کے مینڈیٹ کو کئی قانونی چیلنجوں کا سامنا ہے اور وہ عدالتوں سے بچ نہیں سکتے۔ یہ معاملہ جنوری میں سپریم کورٹ جائے گا۔ حکام بوسٹر ڈوز لگوانے پر زیادہ زور دے رہے ہیں جو Omicron کے مختلف قسم کے شدید اثرات سے بچائےگئی جبکہ اس وبائی مرض سے نمٹنے کے لیے دیگر ٹولز میں زیادہ وقت اور پیسہ لگایا ہے، بشمول تیز رفتار ٹیسٹ اور اینٹی وائرل، کیونکہ دنیا کو اگلے چند ہفتوں میں دونوں محاذوں پر چیلنجز کا سامنا ہے۔ اینٹی وائرلز ان لوگوں کے علاج میں اہم ہوں گے جو انفیکشن کا شکار ہو جاتے ہیں، لیکن اومیکرون موجودہ چند موثر ترین طریقہ ہائے علاج سے بچ سکتا ہے۔ دو نئی آسان استعمال کی گولیوں کو حال ہی میں FDA کی طرف سے اختیار کیا گیا تھا، لیکن ان میں سے سب سے زیادہ مؤثر گولیوں کی آنے والے چند ہفتوں میں بہت کم فراہمی متوقع ہے۔ تیز رفتار ٹیسٹ وبا کو قابو سے باہر ہونے سے روکنے میں مدد کر سکتے ہیں، لوگوں کو اپنی روزمرہ کی سرگرمیاںماسک کے استعمال کے ساتھ زیادہ محفوظ طریقے سے دوبارہ شروع کرنے کی اجازت دینا ہوگی۔
ماہرین کی رائے ہے کہ کورونا وائرس ختم نہیں ہو رہا اور شاید کبھی نہیں ہوگا۔ اچھی خبر یہ بھی ہے کہ ہم نے 2020 کے بعد بہت طویل فاصلہ طے کیا ہے۔ نئی قسموں کے باوجود بھی ویکسین نے ہماری حفاظت کی ہے۔ تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ماسک ایک دوسرے کی حفاظت میں ہماری مدد کرتے ہیں۔ ہمیں سب سے پہلے اومیکرون لہر سے گزرنا ہوگا، لیکن اکثر ممالک کی حکومتیں اور ماہرین یہ امید کرتے ہیں کہ ان تمام ٹولز کو استعمال کرکے، ہم جلد ہی کیسز کو نیچے لا سکتے ہیں اور اپنے نئے معمول کے مطابق زندگی گزارنا سیکھ سکتے ہیں۔دوسرا بڑا چیلنج دنیا بھر کی معیشت، مہنگائی کا ہے جس کےلیے ماہرین سر جوڑ کر غور کرنے میں مصروف ہیں، اب تک کی سوچ بچار کے مطابق قدرتی ذخائر سے مالا مال ممالک، ان کے حکمران اور سب سے بڑی وجہ چین کی تیزرفتار ترقی اور اس کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کے علاوہ رابطوں کے پھیلائو کو بعض طاقتیں اپنے لیے خطرہ محسوس کرتی ہیں اور یہ ایک مسلمہ حقیقت بھی ہے، دنیا کی بڑی طاقتیں رواں ہفتے ایک اہم اجلاس کرنے جارہی تھیں جو کہ بعض وجوہات کی بنا پر ملتوی ہو گیا اس کی جو وجہ نظر آرہی ہے، وہ یورپی یونین اور روس کے درمیان تنائو، امریکہ کی متنازعہ حکمت عملی جس پر یورپی یونین خصوصی طور پر فرانس کو تحفظات ہیں کیونکہ امریکہ نے بعض معاہدے خود کر لیے جس کے مقابلے میں فرانس کی بعض دیگر معاہدوں میں عجلت دیکھتے ہوئے کم منافع کے ساتھ معاہدے کرکے امریکہ کو نیچا دکھانا پڑا بہرحال یہ بین الاقوامی پالیسیاں، حکمت عملیاں اور مفادات کی جنگ ہے۔
عالمی حالات کے تناظر میں وطن عزیز پاکستان کو کیا کرنا چاہئے ؟ ملک اس وقت معاشی، اقتصادی اور دفاعی چیلنجوں سے گزر رہا ہے، زرمبادلہ کا کوئی ٹھوس ذریعہ نہیں ہے۔ اس ساری صورتحال کو دیکھتے ہوئے فرانس بزنس فورم میں شامل بعض پاکستانی نژاد بزنس مین اہم کردار سرانجام دے سکتے ہیں۔ اس لیےسب سے پہلے تو وطنِ عزیز میں غیر متنازعہ اقتصادی تھنک ٹینک قائم کرنا ہوگا جس پر بیرونِ ممالک مقیم پاکستانی بزنس مین مکمل اعتماد کر سکیں۔ ملک کواگر قرضوں کے بوجھ سے نکلنا ہے تو ملک کے مقتدر اداروں کو مضبوط تھنک ٹینک تشکیل دینا ہوگا۔ یقین سے کہا جا سکتا ہےکہ ملک کو برسوں میں نہیں مہینوں میں غیر ملکی قرضوں سے نجات دلائی جا سکتی ہے۔