چند روز قبل سالِ گزشتہ کا سورج اپنی آنکھیں موندکرماضی کا حصہ بن گیااوراعداد کی ترتیب پرمشتمل نئے سورج نے سالِ نو کا نور ہویدا کر دیا، ہر نئے سال کی آمد پر امیدوں، خواہشوں،توقعات اورخوابوں کا ایک سیلِ رواں امڈپڑتاہے،یہی انسانی افتادِ طبع ہے‘فطرت کا کرشمہ بھی یہی ہے، سالِ کہن اورسالِ نوکی عددی تفریق شبانہ روزکی گردش لیل ونہارکاتسلسل ہی توہے ،فطرت سے کشید کیے گئے خیالات جلیلہ نے ہرنئے ابھرتے سورج سے ازسرنومنازل کا تعین کیا ،روشنی کوامیدوں کا مرکز قرار دیاہے ،شب کوتاریکی اوراندھیروں سے منسوب کیا اور سحرامیدِ نوقرارپائی ‘ہر ابھرتا سورج نئی امید یںبانٹتا ہوا طلوع ہوتاہے یا بالفاظِ دیگراس سے امیدیں وابستہ کرلی جاتی ہیں، درماندہ و خستہ حال انسانیت طلوعِ سحرکیساتھ رختِ سفر باندھتی ہے اور امیدوں کی نئی چادر تان کر بیابانوں کو عبور کرنے اورسنگلاخ چٹانوں کا سینہ چیرنے کیلئے نکل پڑتی ہے‘ہم شہری زندگی کے لوگ بھی ہرصبح تیار ہو کر دفاتر،کاروباری مراکزاورہمارے بچے درس گاہوں کارخ کرتے ہیں‘طلوع ہوتے سورج کی اٹھان اور چمک دمک دیکھی نہیںجاتی ‘چاردانگ عالم میں پھیلی روشنی کی اٹھان ورطۂ حیرت میںڈال دیتی ہے ،کوئی اس میں آنکھیں ڈالنے کی جرأت نہیں کرسکتا،خیرہ کردینے والی روشنی قوت بصارت گویا سلب ہی کرلے‘اگرچہ یہ رازہرکسی پہ اس کے ذوقِ طبع اوروسعت قلب سلیم کے مطابق منکشف ہوتاہے‘ اس کا اظہار شہروں، میدانوں، کھیتوں کھلیانوں اورچٹانوں پرمختلف محسوس ہوتا ہے‘ دن بھی مختلف النوع انسانوں پرمختلف کیفیتیں بکھیرتے ہیں، ایک ہی دن کسی کیلئے خوشیوں کی سوغات لاتا ہے اورکسی کیلئے غم وآلام کا انبوہ کثیر۔ کسی پہ دن کا ایک ایک لمحہ بھاری پڑتاہے اورکسی کادن پلک جھپکنے میں گزرجاتاہے ،کئی لوگوں کے مہد سے لحد تک ایک ہی جیسے دن رہتے ہیں ‘پھرتے ہی نہیں اورپلک جھپکتے ہی گدا سے شاہ اورشاہ سے گداگربن جاتے ہیںبس چکرصرف الٹ پھیرکا ہے بہرحال ہرطلوع کا مقدرغروب ہے لیکن ہرغروب ایک جیسانہیں ، غروب ہونے کے بعد نصف النہارپردمکتے آفتاب کاحسن ،جوبن اورطاقت خوبصورت داستان توبن سکتی ہے ،موجودات کاحصہ نہیں رہتی ،تاریخ کہلاتی ہے،ماضی بنتی ہے ،یہ بھی فطرت انسانی کی عجیب کرشمہ سازی ہے کہ اکثروہ اپنے حال پرخوش نہیں ہوتالیکن ماضی پر اتراتاہے وہی حال جووقت کی بھٹی میںجل کرماضی بنتاہے بہرحال غروبِ آفتاب کارقت آمیزمنظرلحظہ بھرقبل دمکتے سورج کوجوں ہی آغوش میں لیتا ہے وقت اعلان کرتاہے کہ تیارہوجائواندھیراچھانے کوہے یہ پھرایسا وقت ہوتا ہے جب فطرت کی ہرچیزبے چین ہوکراپنے لمحۂ موجود سے بے نیازہوجاتی ہے اپنے اندرونی اضطراب کے زیراثرجگہ بدلتی ہے ،پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ ہوں یا انسانوں کاجم غفیراپنے گھونسلوں اورگھروں کی طرف عازمِ سفردکھائی دیتے ہیں اورجوگھروں اورگھونسلوں میں مقیم ہوتے ہیں، ناچارباہرکا رخ کرتے ہیں،جیسے فطرت اپنی آغوش سے انہیں اٹھا کرباہراچھال دے،فطرت کے ودیعت کردہ اس اضطراب اوراندھیرے کا چولی دامن کاساتھ ہے ،یہ آرام کرنے ،ریاضت کرنے اورسوچ بچارکرنے کا وقت ہوتا ہے شاہ سے گداتک ہرکسی کیلئے۔روشنی ،طاقت اوراقتدارکے لمحوں میں کیا کیا،کیا کھویا، کیا پایا ،یہ اپنے محاسبے کا وقت ہوتا ہے ،سوچ بچارکا وقت ،اپنی غلطیوں کے ادر اک کا وقت، بعض لوگ اپنے دکھوں پہ کڑھتے ہیں اوربعض دوسروں کے،کسی کوجب ٹیلی ویژن سے بے کس،بے سہارااورروندی ومسلی ہوئی انسانیت کے کرب سے آگہی ہوتی ہے توان کادل چیخ اٹھتاہے کہ یہ کیا ہورہاہے؟ پھران کوان کی’’ بیوی بتاتی ہے تم وزیراعظم ہو،یہ مسائل حل کرناتمہاری ذمہ داری ہے‘‘اورکسی کوآڈیواورویڈیولیکس پرسوچ بچارکرناہوتی ہے ،کس کس کی کیسی کیسی نئی نئی ویڈیوبنوانی ہے کسی کواپنی ظاہرہونے والی آڈیوپرقلق ہوتاہے کسی کواس پہ ندامت ہوتی ہے کسی کوبالکل نہیں ہوتی ،کچھ لوگوں کی نجی زندگیوں میں نئی گھات لگانے کے نئے نئے طریقے تراشتے ہیں،کچھ سچ کی صلیب پہ لٹکے ہوتے ہیں اورکچھ نئے جھوٹ تراشتے ہیں،کچھ لوگوں کی زندگیوں میں رنگ ونوربکھیرنے کے لیے ،فلاحِ عامہ اورانسانیت کی خدمت کیلئے غلطاں وپیچاں ہوتے ہیں لیکن اس تمام ترسوچ بچارکے دوران سب کواگلی صبح کا انتظارہوتاہے ،کسی پرشب کے اندھیرے طویل ہوتے ہیں اورکسی کیلئے بانگِ مر غ جلدبلند ہوجاتی ہے بہرحال سحرِنوسے استفادہ وہی کرپاتے ہیں جوشب کے کچھ نہ کچھ لمحات تفکروتدبرمیں گزارتے ہیں اوراگلی صبح ان کے قول وفعل سے وہ فہم وفراست جھلکتی ہے جووہ شب کی تاریکی سے کشید کرتے ہیںلیکن جویہ تکلف روانہیں رکھتے اورگدھے بیچ کرصرف سوتے ہیں ان کی تقدیرپرگدھوں جیسا بارِگراں مسلط ہوجاتاہے ،ان کی تقدیرپاکستان کے بدقسمت عوام کی طرح سوئی ہی رہتی ہے حالانکہ سوچتے یہ بھی ہیں لیکن ان کے سوچنے کودیدہ ورکڑھنا قراردیتے ہیں۔بہرحال سحرسے غروبِ آفتاب تک اور غروب آفتاب سے تاریک رات کاسینہ چیرکراگلی سحرتک کی داستاں بہت طویل ہے ۔احمد ندیم قاسمی نے کہا تھا ,
رات جل اٹھتی ہے جب شدت ظلمت سے ندیمؔ
لوگ اس وقفۂ ماتم کوسحرکہتے ہیں
تقریباً سوا تین سال قبل پاکستان کے سیاسی افق پر کئی دہائیوں تک چمکنے والی سیاسی جماعتوں کاسورج ‘جب عین نصف النہار پر تھا ‘غروب ہوگیا۔ یہ حسنِ اتفاق تھا یاحسنِ اہتمام ‘بہرحال گردش دوراں نے دیکھا کہ 22برس تک ملک کی ناگفتہ بہ صورت حال پہ کوئی شخص مضطرب دکھائی دیتا ہے، اسکے صوتی اثرات سے عام پاکستانی کا کرب ہویدا ہے، وہ بہ تکرارمادر وطن کی مقدس سرزمین کو بدعنوانی کی نجاست سے پاک کرنے کاعہد کرتاہے،اس کا دعویٰ ہے کہ پون صدی کے دکھوں کا مداوا عنان اقتدار‘ اسے دیئے جانے کی صورت میں چند دنوں کی مارہے ،طلوع سحرکی منتظرمظلوم پاکستانی قوم اعتبارکربیٹھی ، سحر تو درکنار مہنگائی نے پہلے ہر منڈیر پر کوے کی طرف کائیں کائیں کی اوراب ہرآنگن میں ڈیرے ڈال کے بیٹھ گئی ،قوم تواس کے نورتنوں کے لطائف سے بھی محظوظ ہونے کی بصیرت کھو بیٹھی لیکن کیا کیجئے ہررات کے بعد صبح اورہرشب کے بعد سحرہے ۔یہی اصولِ فطرت ہے ۔