وزیر اعظم عمران خان نے سانحہ مری پر انکوائری کروانے کا کہہ دیا ہے۔ اول تو کچھ ہوگا نہیں اور اگر کچھ ہوا بھی تو زیادہ سے زیادہ کسی ایک آدھ افسر کو قربانی کا بکرا بنا کر او ایس ڈی کرکے عہدے سے ہٹا دیا جائے گا اور پھر سانحہ مری بھی قصہ پارینہ بن جائے گا۔ دیکھا جائے تو کیا سیاح پہلی مرتبہ مری میں پھنسے تھے؟ کیا ہر سال سیلاب، محرم، رمضان، عرس اور دیگر کئی ایسے مواقع نہیں آتے جب انتظامیہ پہلے سے ان کے لئے تیاری کرتی ہے اور کوئی بڑ ا سانحہ ہونے سے بچ جاتا ہے۔ غیر متوقع حالات کے لئے انتظامیہ ہنگامی منصوبہ بندی کرتی ہے۔ میں اکثر اس بات کا ذکر کرتا ہوں کہ جونیئر افسران جن کے پاس فیلڈ کا خاطر خواہ تجربہ نہیں انہیں بڑے اہم اضلاع کا ڈپٹی کمشنر لگا دیا جاتا ہے۔ وزیر اعظم کے سابق پی ایس او محمد علی جنہیں فیصل آباد میں بطور ڈپٹی کمشنر تعینات کیاگیا تو بارشوں کے دوران پورا فیصل آباد ڈوب گیا اور شہر میں پورا مہینہ پانی کھڑا رہا۔ ان کی اس زبردست کارکردگی کے انعام میں انہیں ایک اور اہم ترین ضلع راولپنڈی کا ڈپٹی کمشنر لگا دیاگیا۔ انکوائری میں یہ چیک کرنا چاہئے کہ ڈسٹرکٹ ایمرجنسی بورڈ کے مری میں سیاحوں کی آمد اور محکمہ موسمیات کی طرف سے جاری وارننگز کے حوالے سے کتنے اجلاس ہوئے؟ پولیس کا ہنگامی پلان کب جاری ہوا اور کیا اس پر عملدرآمد ہوا۔یہ تو اللہ بھلا کرے سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو بابر حیات تارڑ کا جنہوں نے وسیع انتظامی تجربہ ہونے کی بنیاد پر ہنگامی صورتحال کا اعلان کرتے ہوئے پی ڈی ایم اے کو متحرک کرکے ریلیف آپریشنز شروع کروائے لیکن بدقسمتی سے اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ ضلعی انتظامیہ اور پولیس کو ضلع کی صورتحال کا پتہ ہوتا ہے۔ محرم آنے سے 2ماہ قبل ہی محکمہ داخلہ، خفیہ ادارے ضلعی انتظامیہ اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے میٹنگز کرلیتے ہیں۔ جن علاقوں میں سیلاب آتے ہیں وہاں مارچ کے مہینے میں ہی انتظامات شروع کردیئے جاتے ہیں اور ہنگامی پلان بنائے جاتے ہیں۔ شہباز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب تھے تو مری پلان بنایا گیا تھا۔ کیا اس حکومت نے اس پر عملدرآمد کیا؟ اس پلان کے تحت کلڈنہ اور جھیکا گلی سمیت دیگر مقامات پر تھوڑے تھوڑے فاصلے پر 20سے 25 برف ہٹانے والے (SNOW REMOVER) کھڑے کئے جاتے تھے۔ اس مرتبہ ان علاقوں میں برف ہٹانے کیلئے جو ایک سنو ریموور کھڑا تھا وہ بھی کام نہیں کر رہا تھا کیونکہ ڈرائیور نے کہا کہ اس میں ڈیزل نہیں تو کیسے اس کو چلائوں۔ کتنی شرم کی بات ہے کہ پرائمری سکول کے بچے بھی آج کل موبائل فونز اور کمپیوٹر پر موسم کا حال اور پیش گوئی چیک کرلیتے ہیں لیکن انتظامیہ نے خراب موسم کی وارننگز کے باوجود اس پر کان نہیں دھرے۔ کمشنر راولپنڈی گلزار شاہ اور ڈپٹی کمشنر محمد علی کو اس آفت سے نمٹنے کی تیاری کرنی چاہئے تھی جو نہیں کی گئی، نہ ہی کوئی ایس او پیز بنائے گئے۔ محکمہ موسمیات کی وارننگ کے بعد ضلعی انتظامیہ کی طرف سے سیاحوں کو مری آنے سے روکنا چاہئے تھا۔ انتظامیہ دراصل جگاڑ پر چل رہی ہے۔ ڈپٹی کمشنر نے کوئی (STRUCTURED)قسم کا نوٹیفیکیشن جاری نہیں کیا۔ بس چار سڑکیں کھول اور چار بند کر دو یہی ہوتا رہا۔ عام طور پر ہونے والی برف باری اور ڈیزاسٹر میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ مانسہرہ کے ڈپٹی کمشنر نے ٹائم پر ایکشن لیااور لوگوں کو ان علاقوں میں جانے سے روک دیا لیکن مری کے معاملے میں وقت پر (REACT) نہیں کیا گیا۔ کمال کی بات تو یہ ہے کہ چیف سیکرٹری پنجاب نے اسسٹنٹ کمشنر مری کی ایک ٹوئٹ میں تعریف کی لیکن انہوں نے وضاحت نہیں کی کہ اسسٹنٹ کمشنر مری نے کیا انتظامات کئے جس پر انہیں شاباش دی جا رہی ہے۔ راولپنڈی کے ڈی سی اور کمشنر کسی جگہ واقعہ میں نظر ہی نہیں آ رہے لیکن ایک بات ضرور ہے یہ دونوں جب چاہیں بڑی سے بڑی انتظامی غفلت اور نااہلی کے باوجود ڈی سی اور کمشنر لگ جاتے ہیں۔ سٹرٹیجک پلاننگ نظر نہیں آتی لیکن اس کا الزام اے سی مری پر بھی نہیں لگایا جا سکتا۔ موجودہ حکومت میں سسٹم یہ بن چکا ہے کہ افسران بالا کو دکھانے کے لئے ’’کارگزاریاں‘‘سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرد ی جاتی ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ انتظامی امور چلانے والے انجمن ستائش باہمی بن چکے ہیں۔ 10 افسر اپنی ’’کارگزاریاں‘‘ سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر رہے ہوتے ہیں تو 10 ان کے حق میں سوشل میڈیا پر قصیدے پڑھ رہے ہوتے ہیں۔ بس یہ سمجھیں کہ کارگزاری کلچر آگیا ہے۔ سوشل میڈیا پر اس کلچر کو بند ہونا چاہئے اور عملی اقدامات کرنے چاہئیں۔ جب محکمہ موسمیات نے وارننگ جاری کی تھی کہ 6فٹ تک برف پڑے گی تو کمشنر اور ڈی سی کو ان کے ساتھ بیٹھ کر ایک سٹرٹیجی بنانی چاہئے تھی۔ سب سٹیک ہولڈرز کو بلا کر پلاننگ کرنی چاہئے تھی لیکن یہاں ہر بندہ مال بنانے میں لگا ہوا ہے۔ اصل سروس ڈلیوری، ایس او پیز اور سسٹم نام کی تو کوئی چیز ہے ہی نہیں۔ کمشنر ڈپٹی کمشنر کو ان حالات کے پیش نظر اے سی مری سے پلان مانگنا چاہئے تھا۔ اس اندوہناک سانحہ پر تو جوڈیشل کمیشن بننا چاہئے، لیکن نظر یہ آ رہا ہے کہ کسی افسر کو قربانی کا بکرا بنا کر معاملات رفع دفعہ ہو جائیں گے۔ ویسے پنجاب کا کلچر بھی یہی ہے کہ ایک دو افسروں کو قربانی کا بکرا بنا دو۔ کمشنر اور ڈی سی تو اتنے طاقتور اور بااثر ہیں کہ انہیں کچھ کہتے ہوئے تو شاید وزیر اعظم کو بھی سوچنا پڑے گا۔ راولپنڈی رنگ روڈ سکینڈل میں کمشنر کیپٹن (ر) محمد محمود کو تو پکڑوا دیا گیا لیکن باقی بزنس معمول کے مطابق چل رہا ہے۔ خانیوال کے الیکشن میں ہار کے باوجود وزیر اعلیٰ کے سسرالی گائوں قتال پور کے آستانہ کے متولی ڈپٹی کمشنر شیرازی کو تو کچھ نہیں کہا گیا البتہ ڈی پی او خانیوال کو اس شکست کا ذمہ دار ٹھہرا کر قربانی کا بکرا بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ آخر کار کسی افسر نے تو قربانی کا بکرا بنناہی ہوتا ہے لیکن کمشنر اور ڈی سی جیسے طاقتور افسر بچ بھی جاتے ہیں۔ انسانی المیے سر اٹھاتے رہے ہیں اور آئندہ بھی اٹھاتے رہیں گے لیکن ذمہ داروں کے خلاف کارروائی نہ کی گئی تو اصل میں انسانیت کے ساتھ کھلواڑ ہوگا۔حکومت کو چاہئے کہ اگر اس نے سوشل میڈیا پر افسران کی جانب سے اپ لوڈ کی گئی کارگزاریوں کو دیکھ کر ہی خوش ہونا ہے اور عملی اقدامات کو کوئی اہمیت نہیں دینی تو اسی سوشل میڈیا پر عوام کے غم و غصے کا بھی ادراک کرلیں۔ اگر اب بھی آنکھیں نہ کھولیں تو پھر بہت دیر ہو جائے گی۔