• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ دنوں مری میں پیش آنے والے دردناک واقعہ نے قوم کے ہر فرد کو سوگوار کردیا ہے اور ہر آنکھ اشکبار ہے۔ اس سانحہ نے حکومت اور انتظامیہ کی نااہلی اور بدانتظامی کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے جس نے 23 قیمتی جانوں جن میں معصوم بچے بھی شامل تھے، کو خون جمادینے برف باری میں بے آسرا اور بے یار و مددگار مرنے کیلئے چھوڑ دیا اور وہ مدد کے انتظار میں دنیا سے رخصت ہوگئے جبکہ حکام اپنے گرم کمروں میں خوابِ خرگوش کے مزے لیتے رہے۔ گزشتہ دنوں قومی اسمبلی میں اپنی تقریر میں مسلم لیگ (ن) کے صدر اور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کا کہنا تھا کہ سانحہ کے وقت ایک نیرو اسلام آباد میں سویا ہوا تھا جبکہ دوسرا نیرو پنجاب میں بلدیاتی الیکشن میں دھاندلی کی منصوبہ بندی میں مصروف تھا۔ انہوں نے سانحہ مری کا ذمہ دار وزیراعظم کو ٹھہراتے ہوئے مستعفی ہونے اور جوڈیشل کمیشن کے قیام کا مطالبہ کیا جبکہ دیگر اپوزیشن جماعتوں نے بھی حکومت سے اسی نوعیت کے مطالبے کئے ہیں۔

یہ بات حیران کن ہے کہ سانحہ سے قبل وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری نے ٹوئٹر پر مری میں ایک لاکھ سے زیادہ گاڑیوں کے داخلے کو عام آدمی کی خوشحالی اور آمدنی میں اضافے سے تعبیر کیا۔ انہوں نے یہ بھی نہ سوچا کہ مری میں صرف 4 ہزار گاڑیوں کی پارکنگ اور ہوٹلوں میں بمشکل 10 ہزار لوگوں کی گنجائش ہے اور جب اتنی بڑی تعداد میں گاڑیاں اور لوگ برفانی موسم میں مری آئیں گے تو کوئی بھی سانحہ جنم لے سکتا ہے۔ اگر سیاحوں اور گاڑیوں کی بڑھتی تعداد کو بروقت روکا جاتا، سڑکوں پر ہیوی مشینری اور عملہ تعینات کیا جاتا تو یہ دلخراش واقعہ پیش ہی نہ آتا۔ واقعہ کے بعد وزیراعظم عمران خان کا سنگدلانہ ٹوئٹ لوگوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف تھا جس میں انہوں نے سانحہ کا ذمہ دار مری کا رُخ کرنے والے سیاحوں کو قرار دے ڈالا۔ انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ کسی سیاح کو یہ علم نہیں ہوتا کہ مری میں کتنی گاڑیاں داخل ہوچکی ہیں اور وہاں کتنے لوگوں کے قیام کی گنجائش ہے بلکہ یہ حکومت، مقامی انتظامیہ اور ٹریفک پولیس کی ذمہ داری تھی کہ وہ ایسی صورتحال پیدا ہی نہ ہونے دیتی۔انتظامیہ اگرہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنے کے بجائے لوگوں کو ریسکیو کرنے کیلئے کوئی قدم اٹھاتی یا انہیں ریڈیو یا موبائل فون میسجز پر خبردار کیا جاتا تو شاید کچھ قیمتی جانیں بچ سکتی تھیں۔

دنیا کے ہر ترقی یافتہ ملک میں موسمی حالات اور قدرتی آفات سے نمٹنے کیلئے ایس او پیز تیار کیے جاتے ہیں۔ وزیراعظم ماضی میں سیاحت میں اضافے کے بلند آہنگ دعوے کرتے رہے ہیں مگر افسوس کہ انہوں نے سیاحتی علاقوں میں موسمی حالات اور قدرتی آفات سے نمٹنے کیلئے ایس او پیز پر تیار کرنے پر کوئی توجہ نہ دی جس کے باعث مری جیسا سانحہجرونما ہوا ۔ دوسری طرف ہوٹل مالکان کی سفاکیت اور سنگدلانہ سلوک کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے جنہوں نے سیاحوں کی بے بسی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک رات کمرے میں ٹھہرنے کا کرایہ 20 سے 60 ہزار روپے وصول کیا جس پر مری انتظامیہ خاموش تماشائی بنی رہی اور موسم کی سختی میں سنگ دلی کا مظاہرہ کرتی رہی۔ ایسے میں بیشتر خاندانوں نے شدید برف باری میں ٹھٹھرتے ہوئے رات گزاری جبکہ کچھ خواتین نے اپنے زیور ہوٹل میں رکھواکر پناہ حاصل کی۔

عمران خان برسراقتدار آنے سے قبل یہ کہا کرتے تھے کہ یورپ میں اگر ایک کشتی بھی ڈوب جاتی ہے تو ملک کا وزیراعظم استعفیٰ دے دیتا ہے۔ ان کے دورِ حکومت میں کئی ٹرین اور فضائی حادثے ہوئے جن میں متعدد افراد جان کی بازی ہار گئے مگر وزیراعظم سمیت کسی حکومتی وزیر نے ذمہ داری قبول کرتے ہوئے مستعفی ہونا گوارا نہیں کیا کیونکہ ہم نے صرف مری ہی نہیں بلکہ پورے ملک کو اللہ کے سہارے چھوڑا ہوا ہے اور یہ ملک صرف دعائوں پر چل رہا ہے۔ ملک میں ایک کے بعد دوسرا سانحہ جنم لے رہا ہے۔ کچھ دنوں بعد ہم سانحہ مری کو بھلا دیں گے اور پھر کوئی اور سانحہ رونما ہو جائے۔ ایسا لگتا ہے کہ وزیراعظم نے پنجاب حکومت کی تحقیقاتی کمیٹی کو 7 دن میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کرکے اپنی ذمہ داری پوری کردی ہے لیکن عموماً یہ دیکھا گیا ہے کہ اس طرح کی تحقیقات جانبدارانہ ہوتی ہیں اور جو سفارشات پیش کی جاتی ہیں، وہ محض عوام کو مطمئن کرنے کیلئے ہوتی ہیں جن پر کبھی عملدرآمد نہیں کیا جاتا۔

سانحہ مری سے پاکستان کا تشخص دنیا بھر میں مجروح ہوا ہے۔ اس سانحہ سے غیر ملکی سیاحوں میں یہ تاثر ابھرا ہے کہ پاکستان سیاحت کیلئے محفوظ ملک نہیں اور قدرتی سانحات سے نمٹنے کیلئے حکومت میں کوئی صلاحیت نہیں۔ دوسری طرف ہوٹل مالکان کے سفاکانہ رویے نے بھی پاکستان کی سیاحت پر ایک سوالیہ نشان کھڑا کردیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ واقعہ کی شفا ف اور غیر جانبدارانہ انکوائری کیلئے جوڈیشل کمیشن قائم کیا جائے اور مجرمانہ غفلت کے مرتکب افراد کو برطرف کرکے مستقبل میں ایسے اقدامات کئے جائیں تاکہ آئندہ ایسے واقعات رونما نہ ہی نہ ہوں۔ ساتھ ہی مری میں ان ہوٹلوں کے لائسنس منسوخ کئے جائیں جنہوں نے سفاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے من مانے کرائے وصول کئے اور لوگوں کو موسم کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ مری میں قائماگر 2 گورنر ہائوس، ایک وزیراعلیٰ ہائوس، ہوٹلز اور 20سرکاری ریسٹ ہائوسز کے دروازے سیاحوں کیلئے کھول دیے جاتے تو شاید کچھ قیمتی جانیں بچائی جاسکتی تھیں۔

تازہ ترین