مری میں برف باری کوئی انوکھی بات نہیں۔ ہمارے وزیراعظم تو ساری دنیا گھومے ہوئے ہیں جیسا کہ وہ خود بار بار بتاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہر شام جو تقریر کرتے ہیں، اس میں بھی دو موضوع ہمیشہ اہمیت اختیار کرتے ہیں۔ ایک ریاستِ مدینہ اور دوسرا سیاحت کا فروغ۔ مجھ اور نصرت جاوید جیسے بڑے جہاندیدہ یاد کراتے رہے ہیں کہ سیاحت کے لیے نہ صرف رقم بلکہ وہ بنیادی سہولتیں چاہئیں جن سے لوگوں کو ترغیب ہو کہ وہ غریب ہوتے ہوئے بھی پہاڑی علاقوں کی سیاحت کا شوق پورا کرسکیں۔ بنیادی سہولتوں میں کم اور زیادہ درجے کے ہوٹلوں میں غسل خانے اور پانی کے انتظام کے علاوہ بجلی یا جنریٹر ہونا، کمروں میں پرانے زمانے کی انگیٹھیاں اور بستر کم از کم صاف ہوں، یہ بنیادی شرط لے کر آپ پورے شمالی علاقوں میں جائزہ لینے نکل جائیں۔ یہ سہولتیں 5فیصد بھی نہیں ملیں گی۔ خدا نہ کرے کہ برف یا ریت کا طوفان آئے جیسا کہ مغربی ممالک کا معمول ہے۔ وہاں نہ ہوٹل والے ماتھے پہ آنکھیں رکھ کر ایک رات میں کمانے کی خواہش رکھتے ہیں اور نہ لوگ اندھا دھند کسی دوسرے شہر کی طرف نکل پڑتے ہیں۔ یہ سب پڑھے لکھے جاہل تھے جن کے پاس خرچ کرنے کو پیسے تھے مگر اس میں وہ بھی تھے جو صرف صبح کو مری دیکھ کر شام کو واپس آنے کی استطاعت رکھتے تھے۔ جن کے پاس دوپہر کو چکن کڑاھی کھانے کے پیسے تھے۔ برف باری میں حکومتی نمائندوں نے ایسا کوئی تقابل کیا نہ کوئی انتظام جو پچھلی حکومتیں کرتی آئی تھیں۔ شہباز یا نواز کا حوالہ تو گناہ ہے۔ مگر مری کی سڑکوں کی مرمت، سال میں دو دفعہ ہوتی تھی اور اب گزشتہ دو سال سے اِدھر توجہ کی ضرورت اس لیے نہیں سمجھی گئی کہ حاکم اعلیٰ چاہے وہ بزدار ہوں، ہیلی کاپٹر پہ روزانہ آنا جانا ہوتا تھا مگر داد دینی چاہئے جو بچے اپنی مائوں سے پراٹھے بنوا کر اور قہوہ لیے اس برف پر چلتے، پھنسے ہوئے لوگوں کی مدد کر رہے تھے۔
دنیا بھر میں برف یا سمندر کے طوفان کی اطلاع سارے میڈیا کے ذریعے بلکہ اب تو فون پر بھی موسم کا حال بتا دیا جاتا ہے۔ ہمارے موسمیات کے دفتر نے تو اپنا کام کیا۔ مگر باقی… گر گئے سجدے میں جب وقتِ قیام آیا۔ ہمارے عقلمند وزرا جن میں شفقت کو بھی شامل کرتی ہوں کہ اِدھر طوفان کی خبریں دنیا بھر میں پہنچ چکی ہیں اور وہ ڈھائی گھنٹے تک بلدیاتی امیدواروں کو ڈھونڈتے رہے۔ اس پر نمک پاشی ہمارے وزیر اطلاعات نے کی کہ لوگوں کے پاس اتنی خوش حالی آگئی ہے کہ سینکڑوں نہیں ایک لاکھ گاڑیاں مری میں سیر کرنے والوں کی آگئی ہیں۔ اس پر کہتے ہیں ’’کسی کا گھر جلے، کوئی ہاتھ تاپے‘‘۔ اب ساری دنیا میں جو ہماری بھدکی جارہی ہے وہ بالکل ٹھیک ہے اور ہم جیسے لوگ جنہوں نے وزیراعظم کی طرح پورا یورپ اور پورا امریکہ اور کینیڈا دیکھا ہوا ہے۔ ہمارے بچے بھی وہاں ہیں۔ وہ روزانہ کا موسم دیکھ کر گھر سے نکلتے ہیں۔ کوئی گاڑی کہیں پھنس جائے یا خدا نہ کرے حادثے کا شکار ہو جائے تو منٹوں میں مدد کے لیے ایمبولینس یا ٹریفک کنٹرولر آجاتا ہے۔ وہ ہماری طرح برف باری رکنے کا انتظار نہیں کرتے۔ ان کو بھی فوراً آپریٹ نہیں کیا گیا۔ وہ مقامی پولیس بے چاری گاڑی والوں کو ٹوکتی رہی اور ہم طرم خان کب ان سپاہیوں کی سنتے ہیں۔ پھر وہی ہوا جو زلزلے، سیلاب یا کسی اور آفت کی صورت میں فوجوں کو کرنا پڑتا ہے۔ باجوہ صاحب نے رات کو ہی فوج کو وارننگ دیدی تھی اور باقی حکومت گرم بستروں میں آرام کے بعد، جب سب کچھ ہو چکا تو فوج کو کام کرتے ہوئے، گاڑیوں میں پھنسے لوگوں کو پناہ گاہوں میں جاتے، بزدار صاحب کو اگلے دن صبح، افسران کا لائو لشکر لے کر ہیلی کاپٹر سے باہر نکلنے کے بعد چند لمحوں کے لیے برف پر چلتے ہوئے دیکھا۔ وزیراعظم کی کتنی مضبوط اور حوصلہ مند کابینہ ہے، ابھی دو مہینے برف باری کے ہیں۔ دیر اور چترال میں برف باری پر تو کبھی توجہ ہی نہ دی گئی، اب پوری قوم نے ایک دفعہ تو برف پڑتی دیکھی۔ شکریہ حکومت پاکستان !