اسلام آباد ہائی کورٹ نے سانحۂ مری کی تحقیقات اور ذمے داروں کے خلاف کارروائی کے لیے دائر درخواست کی سماعت کے دوران سانحۂ مری کا ذمے دار این ڈی ایم اے کو قرار دے دیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے درخواست کی سماعت کی۔
درخواست گزار مری کے رہائشی حماد عباسی نے دانش اشراق عباسی ایڈووکیٹ کے ذریعے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کر رکھی ہے۔
درخواست گزار حماد عباسی کے وکیل دانش اشراق عباسی ایڈووکیٹ نے بتایا کہ مفادِ عامہ میں پٹیشن فائل کی گئی ہے، پٹشنر 7 جنوری کو مری گیا، جب ٹول پلازہ سے سیاح مری جا رہے تھے تو کسی نے ان کو نہیں روکا، نہ خدشے سے آگاہ کیا۔
چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ سیاح تو ہر سال اسی طرح مری جاتے ہیں۔
عدالت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل سید طیب شاہ کو روسٹرم پر بلا لیا اور انہیں این ڈی ایم اے سے متعلقہ قوانین پڑھنے کی ہدایت کی۔
عدالت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ بتائیں کہ اگر اس ڈسٹرکٹ کے لیے کوئی مینجمنٹ پلان نہیں تھا تو کیوں نہیں تھا؟ یہ اتنی بڑی باڈی میں سارے متعلقہ لوگ موجود ہیں، اپوزیشن بھی ہے، کیا اتنی بڑی باڈی کی کبھی بھی کوئی میٹنگ ہوئی ہے؟
ڈپٹی اٹارنی جنرل سید طیب شاہ نے عدالت کو بتایا کہ میں اس حوالے سے ہدایات لے کر ہی عدالت کو آگاہ کر سکتا ہوں۔
چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے سوال کیا کہ کیا این ڈی ایم اے کی اس حوالے سے کبھی میٹنگ ہوئی ہے، اس حوالے سے تو باقاعدہ مینجمنٹ پلان ہونا چاہیے تھا، اگر کمیشن کی میٹنگ نہیں ہوئی تو کیوں نہیں ہوئی؟
اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر این ڈی ایم اے حکام پیش ہوئے، جن سے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللّٰہ نے سوال کیا کہ قانون میں این ڈی ایم اے کسی سانحے سے نمٹنے کی تیاری اور رسپانس کا ذمے دار ہے؟ کل کو خدا نخواستہ زلزلہ آئے تو آپ نے کہنا ہے کہ ہماری ذمے داری نہیں، ان 22 لوگوں کی اموات کا ذمے دار کون ہے؟ پارلیمنٹ نے 2010ء میں ایک قانون بنایا ہے، اس پر عمل درآمد ہونا تھا۔
عدالت نے اس موقع پر ڈیزاسٹر مینجمنٹ قانون کی متعلقہ شقیں پڑھنے کی ہدایت کی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ درخواست گزار کی شکایت ہے کہ کوئی تیاری نہیں تھی ورنہ 22 افراد کی جانیں نہ جاتیں، آپ ناکام ہوئے ہیں، آپ کی ذمے داری تھی کہ میٹنگ بلاتے، اس علاقے کے لیے نیشنل مینجمنٹ پلان دیتے، آپ سمجھ نہیں رہے، آپ کی اتھارٹی نے قانون پر عمل کرانا تھا، کسی اور پر الزام نہ لگائیں۔
عدالت نے این ڈی ایم اے ممبر پر اظہارِ برہمی کرتے ہوئے استفسار کیا کہ آپ نے کوئی نیشنل پلان بنایا؟ اتنا زبردست قانون ہے جو ہر ضلع کے ذمے داروں تک پر ذمے داری ڈالتا ہے، آپ کی ذمے داری ہے کہ اس باڈی کی میٹنگز ہوں اور قانون پر عمل درآمد ہو۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے استفسار کیا کہ صوبائی باڈیز کی کبھی میٹنگز ہوئی ہیں؟ اگر اس قانون پر عمل ہوا ہوتا تو ایک شہری کی بھی ہلاکت نہ ہوتی، کیا ڈسٹرکٹ راولپنڈی کے لیے مری کے حوالے سے 2010ء سے کوئی ڈسٹرکٹ پلان ہے؟ 2010ء میں قانون بنا، آپ 2022ء میں عدالت کو بتا رہے ہیں کہ ہمیں چیک کرنا ہے، اس کیس میں تو کوئی انکوائری کی ضرورت ہی نہیں، اس قانون پر این ڈی ایم اے نے عمل کرانا تھا۔
چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ اگر ڈسٹرکٹ پلان ہوتا تو یہ نہ ہوتا جو کچھ ہوا، اس میں تو انکوائری کی ضرورت نہیں، باہر جا کر تقریریں سب کرتے ہیں، قانون پر عمل درآمد کوئی نہیں کرتا، سب لگے ہوئے ہیں کہ مری کے لوگ اچھے نہیں، ان کا کیا قصور ہے؟ بلاوجہ سب مری کے لوگوں کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں، ان اموات کے آپ ذمے دار ہیں۔
چیف جسٹس نے این ڈی ایم اے کے ممبر سے کہا کہ آپ چاہتے ہیں کہ عدالت اس پر فیصلہ دے، اس قانون میں جتنے لوگ ہیں وہ سب اور پوری ریاست ذمے دار ہے، اگر نیشنل کمیشن کی میٹنگ 2018ء کے بعد نہیں ہوئی تو ذمے داری آپ پر ہی عائد ہوتی ہے، این ڈی ایم اے کمیشن ذمے داروں کا تعین کر کے رپورٹ عدالت میں جمع کرائے، یہ بہت اہم معاملہ ہے، آئندہ جمعے تک رپورٹ جمع کرائیں، جو 9 بچے جاں بحق ہوئے ان کا کیا قصور تھا؟
اسلام آباد ہائی کورٹ نے آئندہ ہفتے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ کمیشن کا اجلاس بلانے کا حکم دے دیا اور کہا کہ وزیرِ اعظم اجلاس بلا کر ذمے داروں کا تعین کریں۔
عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی زیادہ وقت دینے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ انتہائی اہم اور فوری نوعیت کا معاملہ ہے، اس دوران کوئی اور سانحہ ہو گیا تو ذمے دار کون ہو گا؟
چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے این ڈی ایم اے کے ممبر سے کہا کہ اموات کے آپ ذمے دار ہیں، کیس میں تو کوئی انکوائری کی ضرورت ہی نہیں، قانون پر این ڈی ایم اے نے عمل کرانا تھا، اس قانون میں جتنے لوگ ہیں وہ سب اور پوری ریاست اس سانحے کی ذمے دار ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ وزیرِ اعظم اجلاس بلا کر ذمے داروں کا تعین کریں، اگر ڈسٹرکٹ پلان ہوتا تو یہ نہ ہوتا جو کچھ ہوا۔
عدالت نے آئندہ ہفتے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ کمیشن کا اجلاس بلانے کا حکم دے دیا، آئندہ جمعے تک رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کر دی اور کہا کہ ذمے داروں کا تعین کر کے عدالت کو آگاہ کریں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے کیس کی سماعت آئندہ جمعے تک ملتوی کر دی۔