• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ امر مسلمہ ہے کہ جب تک ہم نیک نیتی اور قومی جذبے سے آبی ذخائر تعمیر نہیں کرتےیا بجلی بنانے کے جدید ترین متبادل ذرائع استعمال میں نہیں لاتے،ہمارے ہاں توانائی کا مسئلہ حل نہیں ہو پائے گا بلکہ نتائج اس کے بر عکس نکلیں گے ۔جیسا اس وقت ہو رہا ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط پر عوام کو مختلف مدات میں دی جانیوالی سبسڈیز ختم کئے جانے سےیوٹیلیٹی بلزکی رقم اتنی زیادہ ہوچکی ہے کہ عوام کی آمدنی کا قابل ذکر حصہ یہ بلز جمع کرانے میں صرف ہو جاتا ہے ، جن میں سرِ فہرست بجلی کا بل ہے۔’’مرے پہ سو درے‘‘ کے مصداق اب نیپرانے نومبر 2021 کی ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بجلی 4 روپے 30 پیسے فی یونٹ مزید مہنگی کر دی ہے جس کا اطلاق کے۔الیکٹرک کے صارفین پر نہیں ہوگا، اضافی وصولی جنوری 2022 کے بلوں میں کی جائے گی اور بلوں میں اس اضافے کو الگ ظاہر کیا جائے گا۔پیٹرولیم مصنوعات، بجلی اور دیگر سروسز پر سبسڈی ختم کرنے کے نتائج بےاماں گرانی کی شکل میں سب پر عیاں ہیں۔یہ بھی عجیب منطق ہے کہ بجلی کی قیمت میں اضافہ پچھلی تاریخوں میں کیا جاتا ہے مثلاً بجلی کی قیمت میں اضافہ گزشتہ نومبر سے کیا جا رہا ہے۔ہمارے ہاں اول تو بجلی کی پیداوار اور تقسیم کا عمل ہی الجھا دینے والا ہے، تاہم اس کا صرف ایک پہلوہماری سنجیدگی ظاہر کرنے کو کافی ہے کہ ہم ابھی تک فرنس آئل سے بجلی بنارہے ہیں، جس کے فرسودہ اور مہنگے ہونے کے باعث دنیا کا شاید ہی کوئی ملک یہ طریقہ استعمال کرتا ہو، یوں جب بھی پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھتی ہیں لا محالہ بجلی کی قیمت میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے جسے فیول ایڈجسٹمنٹ کہتے ہیں۔ بدترین مہنگائی کے مارے عوام کیلئے بجلی کی قیمت مزید بڑھنے کا بھی اندیشہ ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی بھی اطلاعات ہیں۔ حکومت عوام کو مہنگائی سے نجات دلانے کیلئے سبسڈیز دے کر یہ تاثر زائل کرے کہ اس نے ملک آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھ دیا ہے۔

تازہ ترین