• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کئی مبصرین نے دلیل دی ہے کہ پاکستان کے مالیاتی خسارے کی وجہ اس کے بے جا سرکاری اخراجات ہیں ۔ کہاجاتا ہے کہ جب تک ان اخراجات میں زبردست کمی نہ کی جائے ، صحت مند مالی توازن حاصل کرنا مشکل ہے۔

اس تجزیہ پر غور کرنے سے پہلے سرکاری اخراجات کے مقاصد بیان کرنا ضروری ہے۔ کسی بھی ملک میں سرکاری اخراجات کا مقصد سرمایہ کاری اور ترقی کے لیے وسائل کو مؤثر طریقے سے مختص کرنا، آمدنی کی تقسیم کو بہتر بنانا اور معیشت کو مستحکم کرنا ہوتا ہے۔ یہ اہداف اشیا اور خدمات کی براہ راست فراہمی، آمدنی کی منتقلی اور سماجی تحفظ اور جب معیشت غیر مستحکم ہو تو جچی تلی مداخلت کے ذریعے حاصل کیے جاتے ہیں ۔

پاکستان میں، حکومت کے تین درجے ہیں : وفاقی، صوبائی اور مقامی ۔ لیکن تیسرا درجہ جہاں ایک عام شہری اور حکومت کے درمیان زیادہ تر تعامل ہوتا ہے گزشتہ دہائی سے تقریباً غیر فعال رہا ہے۔ 18ویں ترمیم کے تحت صوبائی حکومتوں کواختیارات کی منتقلی سے صوبائی حکومتیں مضبوط ہوئیں لیکن اس کے بعد اختیارات مقامی حکومتوں کی طرف منتقل نہیں کیے گئے۔ 2002-07ء کے دوران ملنے والے ٹھوس شواہد سے پتہ چلتا ہے مقامی حکومتوں کے قیام کی وجہ سے نہ صرف سروسز اور سہولیات کی فراہمی بہتر ہوئی بلکہ عوام کی منتخب شدہ نمائندوں کے ذریعے سرکاری ملازمین تک رسائی آسان ہوگئی۔

مرکز کے نیچے صرف ایک درجے کو تمام مرکزیت دے دینا مسئلے کا حل نہیں۔ ساتویں این ایف سی ایوارڈ نے صوبوں کو قابل تقسیم پول کا 57.7فیصد دیا لیکن اس کا کوئی حصہ مقامی حکومتوں کے لیے مختص نہیں کیا۔ ایک مختصر تصویر ظاہر کرتی کہ 2020-21ء میں کل سرکاری اخراجات 10.4 ٹریلین روپے یا جی ڈی پی کا 21فیصد تھے۔ قیمتوں کے تعین، ریگولیٹری اضافی بوجھ، قانونی اور عدالتی مداخلتوں، معائنے اور این او سی کی شکل میں حکومت کی مداخلت کا دائرہ ابھی بھی بہت وسیع ہے۔ پائیڈکا تخمینہ کچھ مفروضوں کی بنیاد پر اسے 67فیصد پر رکھتا ہے۔ وفاقی حکومت کے اخراجات 6.8 ٹریلین روپے یا 65 فیصد تھے اور صوبائی اخراجات 3.6ٹریلین روپے یا کل کا 35 فیصد تھے۔

یہاں یہ ذکر برمحل ہوگا کہ ملک کی کل آمدنی میں صوبوں کا اپنے ذرائع سے حصہ صرف 10 فیصد ہے۔ ان کے اخراجات کا بڑا حصہ قابل تقسیم پول اور وفاق سے حاصل کیا جاتا ہے۔جب سے صوبوںنے خدمات پر جی ایس ٹی جمع کرنا شروع کیا ہے، ان کی کارکردگی میں بہتری آئی ہے ۔ لیکن اس نے کاروباری مالکان کے لیے مشکلات پیدا کر دی ہیں جنہیں ٹیکس کی مختلف شرحوں کے ساتھ پانچ ٹیکس ریٹرن فائل کرنے ہوتے ہیں۔ سامان اور خدمات پر جی ایس ٹی کی ہم آہنگی کاروبار کرنے میں آسانی کے ساتھ ساتھ اسے زیادہ موثر بھی بناسکتی ہے۔

صوبے زرعی آمدنی پر ٹیکس لگانے، لینڈ ریونیو یا آبیانہ کے اخراجات جمع کرنے اور شہری علاقوں کیلئے پراپرٹی ٹیکس کی بنیاد کو اپ گریڈ کرنے سے گریز کرتے رہے ہیں۔ پنجاب زراعت کی پیداوار کا سب سے بڑا خطہ ہے۔ یہ زراعت اور لینڈ ریونیو سے صوبائی ٹیکس کا صرف 8 فیصد اور شہری پراپرٹی ٹیکس سے صرف 6 فیصد وصول کرتا ہے۔ صوبے مل کر جی ڈی پی کا 1.1 فیصد ٹیکس اور نان ٹیکس ریونیو کی شکل میں دیتے ہیں، جب کہ ہندوستان میں جی ایس ٹی کی ہم آہنگی تک ریاستیں اپنے ذرائع سے جی ڈی پی کا 8-10 فیصد اکٹھا کرتی تھیں۔

صوبائی بجٹ میں دیکھی جانے والی ایک اور کمزوری یہ ہے کہ ترقیاتی اخراجات کل اخراجات کا صرف 20 فیصد بنتے ہیں۔ توقع تھی کہ 18ویں ترمیم اور 7ویں این ایف سی ایوارڈ کے بعد ترقیاتی اخراجات میں تیزی آئے گی۔ اس کے برعکس غیر ترقیاتی اخراجات بالخصوص تنخواہ اور الاؤنسز میں نسبتاً تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔

وفاقی حکومت کو ایک نازک مالیاتی صورتحال کا سامنا ہے ۔ اسے 3529ارب روپے خالص محصولات کے طور پر موصول ہوئے ۔ سود، دفاع اور پنشن کی ادائیگی کے بعد یہ 538 ارب روپے کے خسارے میں چلی گئی۔ ترقیاتی بجٹ اور دیگر اخراجات کیلئے اسے اندرونی اور بیرونی ذرائع سے 3370 ارب روپے کا قرضہ لینا پڑا۔اس کی وجہ سے اندرون ملک نجی سرمایہ کاری کو موقع نہ ملا۔ چوںکہ حکومت ترقیاتی اخراجات آٹھ فیصد سے کم رکھنے کی پابند تھی ، اس لیے پیداواری گنجائش کو بھی نہ بڑھاپائی۔

ہم اخراجات کو دو اقسام میں تقسیم کرتے ہیں۔ پہلا پیچیدہ ، جہاں بجٹ بنانے والوں کے پاس ہتھکنڈوں کی کوئی گنجائش نہیں کیونکہ یہ معاہدہ اور ضروری اشیاکی فراہمی سے متعلق جن کی ادائیگی ہر حال میں کرنی پڑتی ہے۔ دفاعی اخراجات، اگرچہ معمولی طور پر منجمد ہیں اور پچھلے چند سالوں میں حقیقی معنوں میں کم کیے گئے ہیں، (مالی سال 22 میں یہ جی ڈی پی کا 2.3فیصد ہوگا) کو بیرونی خطرات کا جواب دینے کے لیے کم از کم حد تک رکھنا ضروری ہے۔ دوسرا صوابدیدی اخراجات ، جہاں کٹوتیاں اور بچتیں متاثر ہو سکتی ہیں۔

غیر لچکدار اخراجات ، جیسا کہ سود کی ادائیگی (26.5فیصد)، دفاع (12.7فیصد) اور پنشن (9.3فیصد) مجموعی طور پر مجموعی اخراجات کا 54 فیصد پیش کرتے ہیں۔ سود کی ادائیگی کا انحصاراسٹیٹ بینک کے پالیسی ریٹ پر ہوتا ہے لیکن یہ وزارت خزانہ کے کنٹرول سے باہر ہے جس کو لازمی طور پر ادائیگیاں کرنی پڑتی ہیں ۔ (جاری ہے)

تازہ ترین