سیاست کی لیلا کے رنگ نیارے ہیں۔ ایک جملہ مولانا ابو الکلام آزاد غفرلہ سے منسوب کیا جاتا ہے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ مولانا علم اور بصیرت سے متصف تھے۔ سستی جملے بازی کی بجائے اپنی فہم کے راست اظہار میں یقین رکھتے تھے۔ گمان غالب ہے کہ اپنے براہ راست مشاہدے کی روشنی میں چوگان سیاست میں احساس، ہم دلی اور اثبات علویت کی نفی کا اشارہ دیتے ہوئے مولانا جیسے وضع دار اور راست گو انسان پر قیامت گزر گئی ہو گی۔ بڑے آدمی کی ایک پہچان یہ بھی ہے کہ اپنی اقدار ترک نہیں کرتا اور حقائق سے انکار نہیں کرتا۔ دل کے ہر کھیل میں ہوتا ہے بہت جاں کا زیاں۔ شاید آپ کو خیال آئے کہ عنوان میں تو شہباز شریف کا ذکر تھا اور یہاں محی الدین ابوالکلام آزاد کی مدح ہو رہی ہے۔ کہیں شہباز شریف کے مدارج بلند کرنے کا ارادہ تو نہیں باندھ لیا۔ خاطر جمع رکھیے۔ درویش کی افتاد میں طبع شہباز کو بار نہیں۔ مجھے تو اقتدار کی حرکیات کے بارے میں انسانی تجربے کی پیچیدگی اور تاریخ کے جبر پر کچھ معروضات پیش کرنا ہیں۔ حالیہ تاریخ سے ایک مثال لیتے ہیں۔
امریکا کا شہر نیویارک بیسویں صدی کے آغاز میں دنیا کا سب سے بڑا شہر بن رہا تھا۔ جنوب میں بحریہ اوقیانوس کے ساحل پر آباد گنجان بستیوں کے اس کلبلاتے صنعتی اور تجارتی مسکن کی آبادی 1920 میں 56لاکھ تک پہنچ گئی تھی۔ 1898 میں بروکلین، نیویارک، رچمنڈ اور کوئینز کو یکجا کر کے جدید نیویارک کی بنیاد رکھی گئی تھی لیکن آبی راستوں اور جھیلوں میں بٹے زمینی ٹکڑوں کا یہ مجموعہ نئے آباد کاروں بالخصوص افریقی باشندوں کی آمد کے باعث شہری انتظامیہ کے لئے ایک سر درد بن رہا تھا۔ شہری سہولتوں کا فقدان تھا، صنعتی شورش اور نسلی فسادات کا سلسلہ ختم نہیں ہوتا تھا۔ بے ہنگم تعمیرات کے باعث آتش زدگی کے واقعات عام تھے۔ نیویارک امریکا کی چکا چوند ترقی کا اشتہار بھی تھا اور سیاسی بدعنوانی، چور بازاری اور جرائم پیشہ گروہوں کا گڑھ بھی۔ ایسے میں 1930کی کساد بازاری کے عین بیچ نیویارک کو ایک انتظامی رہنما مل گیا جس کا نام رابرٹ موزیز تھا۔
1888 میں نیویارک کے ایک یہودی گھرانے میں پیدا ہونے والے رابرٹ موزیز نے کولمبیا یونیورسٹی سے پولیٹکل سائنس میں پی ایچ ڈی کی ڈگری لی لیکن وہ کبھی کسی منتخب عہدے پر نہیں پہنچ سکا۔ 1934 میں موزیز نے نیو یارک کے گورنر کا انتخاب لڑا تھا اور بری طرح ناکام ہوا۔ تاہم اسے ریاست کا نامزد سیکرٹری مقرر کیا گیا تھا اور وہ بیک وقت نیویارک کے 12 مختلف شعبوں اور محکموں کا سربراہ تھا۔ 1924 سے 1968 تک موزیز نے نیویارک میں درجنوں پل، سرنگیں، سڑکیں، پارک، ساحلی مقامات اور رہائشی منصوبے تعمیر کیے۔ موزیز کا نظریہ یہ تھا کہ پبلک ٹرانسپورٹ کی بجائے سڑکیں، پل اور گزرگاہیں تعمیر کی جائیں تا کہ شہری پھیلائو کے لئے گنجائش پیدا کی جا سکے۔ مالی وسائل کے لئے موزیز ریاستی وسائل پر کلی انحصار کی بجائے مختلف منصوبوں کے لئے فنڈ قائم کر کے شہریوں کو شراکت دار بناتا تھا۔ تاہم موزیز نے فرینکلن روز ویلٹ کی نیو ڈیل میں دستیاب مالی وسائل سے بھی بھرپور فائدہ اٹھایا۔ شہری ترقی اور اصلاحات کے لئے بے پناہ انتظامی صلاحیت اور بصیرت کی بنا پر رابرٹ موزیز کو جدید نیویارک کا بانی سمجھا جاتا تھا لیکن اس کے طریقہ کار پر بہت سے الزامات تھے۔ مثلاً اسے غریب دشمن اور نسل پرست سمجھا جاتا تھا۔ اس کے بیشتر تعمیراتی منصوبے غریب بالخصوص نسلی اقلیتوں کی آبادیوں کے لئے تباہ کن تھے۔ سرکاری اہل کاروں کے ساتھ گالی گلوچ اس کا شعار تھا۔ اس کے مالی طور طریقے غیرشفاف تھے۔ طبقاتی برتری کا گہرا احساس تکبر کو چھوتا تھا۔ اس کے ہم عصر اسے ناقابل برداشت حد تک قابل نفرت سمجھتے تھے لیکن اسے رائے عامہ کی کوئی پروا نہیں تھی۔ وہ ماتحت عملے کے ساتھ کسی داروغے کی طرح پیش آتا تھا۔ 1974 میں The Power Broker کے عنوان سے رابرٹ موزیز کی سوانح لکھنے والے رابرٹ کارو (Robert Caro) نے موزیز کی غیر معمولی انتظامی صلاحیت کے باوجود اس کے پرخچے اڑا کر رکھ دیے۔ کیا رابرٹ موزیز کی بے مثل کارکردگی اور قابل اعتراض ذاتی رویوں میں کوئی تعلق دریافت کیا جا سکتا ہے۔ عوام دوست خیالات کے حامل سیاسی رہنما بار بار سیاسی اقتدار کا کھیل کیوں ہار جاتے ہیں جب کہ بدعنوانی، جنگ جوئی، تفرقے اور نا انصافی کی سیاست کرنے والے تادیر مقبول رہتے ہیں۔
اس سوال کا جواب 2004 میں نیو یارک یونیورسٹی کے دو اساتذہ Bruce Bueno De Mesquita اور Alastair Smith نے اپنی کتاب The Logic of Political Survival (سیاسی بقا کی منطق) میں دیا۔ تاریخ سے ان گنت مثالوں کی روشنی میں مصنفین نے اقتدار تک پہنچانے والے عوامل کو Selectorate کی اصطلاح بخش کر تین حصوں میں تقسیم کیا۔ ( 1 ) عام رائے دہندہ جس کا لیڈر کے انتخاب میں معمولی حصہ ہوتا ہے۔ ( 2 ) با اثر افراد اور گروہ۔ جو اپنے طبقاتی اور گروہی مفاد کے تحت قیادت چنتے ہیں مثلاً بڑے کاروباری ادارے ( 3 ) فیصلہ کن ٹولہ جو اقتدار بخشنے اور اور اسے برقرار رکھنے کا حتمی فیصلہ کرتا ہے۔ جمہوری بندوبست میں عام رائے دہندہ (تعداد بہت زیادہ) کا عمل دخل زیادہ ہوتا ہے جب کہ تحکمانہ بندوبست میں رہنما کو تھوڑے سے با اثر افراد کو خوش رکھنا ہوتا ہے۔ سیاسی بقا کی منطق یہ ہے کہ اقتدار پسند رہنما پانچ نکات کا خیال رکھتا ہے۔ با اثر افراد اور گروہوں کی تعداد کم سے کم رکھی جائے۔ بے چہرہ عوام کی تعداد زیادہ ہو تاکہ انہیں کسی بھی نعرے میں پھنسا کر ٹیکس نچوڑا جا سکے۔ محصولات پر کنٹرول رکھا جائے تاکہ موثر سیاسی وفاداریاں خریدی جا سکیں۔ اہم حامیوں کو صرف اتنی جگہ دی جائے کہ وہ ادھر ادھر کھسکنے سے باز رہیں۔ حتمی فیصلہ سازوں کی جیب میں ہاتھ ڈال کر عوام کی بہتری کا خیال سیاسی خودکشی ہے۔ صاحبو، اقتدار کا یہ نسخہ تو کچھ ایسا مشکل نہیں تو پھر ہمارے شاعر محمد انور خالد کو یہ کیوں لکھنا پڑتا ہے، ’سو وہ ایسے گیا جیسے زمیں سے گھاس جاتی ہے‘۔