بین کروں یا گریہ زاری، سینہ کوبی کروں یا ماتم کا جھنڈا لہرائوں، یہ خونِ دل سے لکھا نوحہ ہے کہ ایسے ظالموں سے واسطہ پڑا ہے جنہیں غیرمتوقع موت کے منہ میں جانیوالوں کے پیاروں کی اذیت کا نہ ذرہ بھر اندازہ ہے اور نہ ہی کوئی دکھ۔ سانحہ مری پاکستان کی تاریخ کا وہ خوفناک ترین سانحہ ہے جو سراسر انسانی نااہلی کا نتیجہ ہے۔ اتنا کچھ ہو جانے کے بعد بھی پھکڑ بیانات سے عوام کے زخموں پر نمک چھڑکا گیا۔ مری میں چار ہزار گاڑی کی گنجائش پوری ہونے پر ریڈ الرٹ جاری کرنے کی بجائے نااہل وزیر ایک لاکھ گاڑیوں کا ڈھول پیٹ رہے تھے، کوئی لمحہ ایسا نہیں آیا جب کوئی نہ کوئی انسانی پیدا کردہ عفریت ملک پر وارد نہ ہوئی ہو، سانحہ والی سڑک کو صاف رکھنا انتظامیہ کی ذمہ داری تھی، افسوس انتظامیہ مشینری سمیت غائب رہی، بتایا گیا ہے کہ علاقے کی سڑکوں کی مرمت کا کام بھی پچھلے دو سال سے نہیں ہوا۔
2022میں بیلچوں سے برف ہٹانے پر یاد آیا کہ نواز شریف دور میں خریدی گئیں اسنو ریموور مشینیں کہاں گئیں؟ اِس بار ایک بھی اسنو ریموور مشین کام کرتی دکھائی نہ دی، کھڑی مشین کے آپریٹر سے پوچھا کہ آپ برف کیوں نہیں ہٹا رہے ہو؟ اس نے کہا میرے پاس ڈیزل ہی نہیں ہے، کنٹینر پر کھڑے ہوکر ڈیزل ڈیزل پکارنے والے کے لاڈلے اسنو ریموور مشینوں کا ڈیزل ہی پی گئے، میں تو کہتی ہوں اس کا الزام بھی نواز شریف پر ڈال دیں، افسوس میڈیا مری میں غیرمتوقع اموات پر چیخ رہا تھا جبکہ جہلمی وزیر شہباز شریف کو جیل بھیجنے کا اعلان کررہا تھا، یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ انتظامیہ نے مدد کیلئے فوج اور پولیس کو بروقت کیوں طلب نہیں کیا؟ مری کو آفت زدہ قرار دے کر اور سانحہ مری پر انکوائری کمیٹی بنا کر مت سمجھا جائے کہ معاملہ ٹل جائے گا، اُن 22جانوں کو کیا پتہ تھا کہ مری سیر پر نہیں سفر آخرت پر جارہے ہیں، عوام کیسے یہ تسلیم کریں گے کہ ان کی موت طبی تھی، وہ تو اپنی اپنی گاڑیوں میں راستہ کھلنے کے انتظار میں راہی عدم ہو گئے۔
ان کے ورثا برملا کہہ رہے ہیں کہ ہمارے عزیز فرات کنارے پڑے بھوکے کتے تو ہرگز نہ تھے کہ اس قدر تکلیف دہ موت ان کا مقدر بنا دی جاتی، وہ تو ریاستِ مدینہ کے باسی تھے اور اپنے خرچ پر سیر کرنے گئے تھے، نہ مری نے ان کو مارا، نہ برف باری نے ان کو مارا، یہ تو شدید ترین لیول کی انتظامی نااہلی تھی۔ خوابِ خرگوش دیکھتی حکومتِ پنجاب نے جاگتے ہی حاتم طائی کی قبر پر لات مارتے ہوئے مرنے والوں کے لواحقین کو 8لاکھ روپے فی کس دینے کا اعلان کیا ہے جو امید ہے اُس کے منہ پر مار دیے جائیں گے۔
عمل سے ثابت ہو گیا ہے کہ ریسکیو کا مطلب ہے صرف اشرافیہ اور امرا کی جان بچانا، جس کیلئے ہمہ وقت ہیلی کاپٹر یا دوسری مدد کا انتظام ہو جاتا ہے جبکہ عوام کے ریسکیو آپریشن کا مطلب ہے صرف لاشیں اٹھانا، کس قدر خوفناک ہوگا جب کوئی ایک نہیں دو نہیں تین تین پیاروں کے جنازے اکٹھے اٹھائے جائیں گے۔
چھلنی جگر، اشکوں بھری آنکھیں لیے رندھی آواز میں لواحقین سانحہ مری دعا گو ہیں کہ اے ہمارے پیارے اللہ میاں ہم پر سراسر ظلم ہوا ہے، ہم اس کا معاملہ تیرے سپرد کرتے ہیں اور بےشک تیرے انصاف میں کوئی جھول نہیں ہے۔ سانحہ مری کے بعد ہر طرف سے ایک ہی آواز مسلسل ابھر رہی ہے، ہمارے نواز شہباز واپس کرو، پرانا پاکستان لوٹا دو۔