ماہ اگست 2021میں افغانستان میں آنیوالی تبدیلی کے بعد پاکستان نے پوری دنیا کیلئے جو کردار ادا کیا وہ روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ لاکھوں غیر ملکیوں کا افغانستان سے انخلا ء پاکستان کے تعاون سے ہی ممکن ہوا جس کا پوری دنیا اعتراف کر رہی ہے۔
پاکستان کا سن 2002سے مؤقف یہ رہا کہ افغان مسئلے کا حل مذاکرات سے ممکن ہے جنگ سے نہیں، اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کیلئے ہر ممکن کردار ادا کیااور پاکستان کی کوششوں سے امریکہ اور افغان طالبان کے مذاکرات ہوئے اور ان مذاکرات کے نتیجے میں افغانستان سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی افواج چلی گئیں۔
پاکستان اس بات پہ یقین رکھتا ہے کہ افغانستان کا امن پاکستان کا امن ہے اور اگر افغانستان میں بد امنی پیدا ہو گی تو اس سے نہ صرف خطے کے ممالک بلکہ پوری دنیا متاثر ہوگی، اسی بات کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان ، چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ، قومی سلامتی کے مشیر ڈاکٹر معید یوسف، افغانستان کیلئے خصوصی نمائندے صادق خان اور دیگر ذمہ داران نے ہر فورم پر اس بات کو واضح کیا کہ دنیا کو افغان عبوری حکومت کے ساتھ بات چیت کرنی چاہیے۔
دنیا افغان عبوری حکومت کے سامنے اپنے تحفظات کو رکھے اور مذاکرات سے مسائل کو حل کرے ۔
اگر دنیا افغان طالبان اور افغان عبوری حکومت سے بات چیت نہیں کرتی تو اس کے نقصانات پوری دنیا کو پہنچ سکتے ہیں ۔پاکستان نے اپنی اسی پالیسی کے تحت امریکہ ، چین ، روس ، اسلامی تعاون تنظیم ، یورپی یونین اور دیگر ممالک کو قائل کیا اور آج پوری دنیا افغان عبوری حکومت کے ساتھ بات چیت کر رہی ہے ۔
پاکستان کی انہی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ جب وزیر اعظم عمران خان سعودی عرب تشریف لے گئے تو انہوں نے سعودی عرب کے ولی عہد امیر محمد بن سلمان سے اس صورتحال پر بات چیت کی اور سعودی عرب کے ولی عہد امیر محمد بن سلمان سے مشاورت کے بعد اسلامی تعاون تنظیم میں شامل ممالک کے وزراء خارجہ کا ہنگامی اجلاس اسلام آباد میں بلانے کا فیصلہ کیا گیا۔ یاد رہے کہ سعودی عرب اس وقت اسلامی تعاون تنظیم کا سربراہ ہے۔
پاکستان نے سعودی عرب اور دیگر اسلامی ممالک کے تعاون کے ساتھ اسلام آباد میں نہ صرف 57 اسلامی ممالک کے وزراء خارجہ اور نمائندوں کو جمع کیا بلکہ روس، امریکہ ، اقوام متحدہ ، چین ، یورپی یونین سمیت 94 کے قریب وفود کو بھی اس کانفرنس میں شریک کیااور افغانستان کی حقیقی صورتحال کو دنیا کے سامنے رکھا۔
افغانستان کے عبوری وزیر خارجہ امیر خان متقی بھی اس کانفرنس میں موجود تھے اور اس دوران دنیا کے بہت سے ممالک کے وفود کو ان کے ساتھ ملاقات کا اور تبادلہ خیال کا موقع بھی ملا۔
اس کانفرنس کے نتیجے میں افغانستان کیلئے بہت سے ممالک اور اداروں نے امداد کا اعلان بھی کیا۔جس سے یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ موجودہ حالات میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کس قدر واضح اور مؤثر ہے ۔
موجودہ حالات میں یہ بات واضح طور پر کہی جا سکتی ہے کہ پاکستان کا مؤقف افغانستان کے مسئلے پر پوری دنیا نے تسلیم کیا ہے اور اسی طرح اسلامک فوبیا ، انتہا پسندی ، دہشت گردی اور ناموس رسالت ؐ کے معاملے پر پاکستان کو اسلامی تعاون تنظیم کے تمام ممالک کی تائید حاصل ہے۔
وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان عمران خان نے اسلامی تعاون تنظیم کے وزراء خارجہ کے ہنگامی اجلاس میں بھی کشمیر ، فلسطین کے ساتھ ساتھ مندرجہ بالا امور کی طرف مسلم امہ اور عالمی دنیا کی توجہ دلائی ہے۔
پاکستان اپنی خارجہ پالیسی کے حوالے سے پہلی مرتبہ آزادانہ فیصلے کرتا نظر آ رہا ہے۔
پاکستان کا کسی بھی عالمی طاقت کے زیر اثر ہونے کی بجائے اپنے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلے کرنا جہاں بہت ساری مشکلات کا سبب بن رہا ہے وہاں پر یہ اطمینان بخش بات بھی ہے کہ پاکستان کسی کے زیر اثر کرائے کے سپاہی کا کردار ادا نہیں کر رہا ۔
حقیقت حال یہ ہے کہ پاکستان کی طرف اس وقت پورے عالم اسلام کی توجہ ہے اور اس کی مثال گزشتہ دنوں خلیج تعاون کونسل کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر نایف فلاح مبارک الحجراف کا اپنے وفد کے ساتھ دورہ ہے جس میں انہوں نے تجارت ، معیشت ، اقتصاد یات، ذرائع ابلاغ سمیت تمام شعبوں میں پاکستان کے ساتھ تعاون کو عملی شکل دینے اور فوری اقدامات اٹھانے کا اعلان کیا ہے۔
حقیقت حال یہ ہے کہ پاکستان کے تاجروں کیلئے عرب اسلامی ممالک بہت بڑی تجارت کا سبب ہیں اور مزید بن سکتے ہیں اور پاکستانیوں کے روزگار کیلئے بھی، جس طرح اس وقت 46 لاکھ کے قریب پاکستانی خلیجی ممالک میں روزگار کے سلسلہ میں موجود ہیں اس میں بھی بہت بڑا اضافہ ہو سکتا ہے۔
اس صورتحال سے اور ان تعلقات سے استفادہ کیلئے پاکستان کو جس مؤثر انداز سے قدم بڑھانا ہے موجودہ حکومت اسی سمت آگے بڑھ رہی ہے اور ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ شعبے بھی اس بات کا احساس اور ادراک کریں۔الحمدللہ موجودہ حکومت کے دور میں کویت ، عراق ، مصر ، بحرین ، اردن کے ساتھ تعلقات میں بہت بہتری آئی ہے ۔
شام کے ساتھ بھی تعلقات میں مضبوطی پیدا ہو رہی ہے اور اس صورتحال میں عرب ممالک کے بزنس مین پاکستان اور پاکستانی بزنس مین عرب ممالک سے استفادہ کر سکتے ہیں۔اور آخر میں پاکستان مارچ میں ایک بار پھر اسلامی تعاون تنظیم کے وزراء خارجہ کے اجلاس کا میزبان ہو گا اور 22 مارچ کو ہونے والے اجلاس کے مہمان حضرات 75 ویں یوم پاکستان پر ہونے والی پریڈ میں بھی بطور مہمان موجود ہوں گے جو پاکستان کے عظیم مقام کا اظہار ہوگا۔
بہت سے اسلامی ممالک اور عرب ممالک کا یہ خیال ہے کہ اس اجلاس سے قبل پاکستان کے ساتھ مختلف شعبوں میں تعاون کو مزید مضبوط اور مؤثر بنایا جائے۔