پاکستان کی معیشت کی موجودہ صورتحال تشویشناک ہوچکی ہے جس پر اگر فوری طور پر قابو نہ پایا گیا تو معیشت میں موجودہ غیر یقینی کی صورتحال کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔
افراط زر
پی ٹی آئی حکومت کے دعوئوں کے برعکس دسمبر 2021ء کے اعداد وشمار کے مطابق ہیڈلائن افراط زر میں ایک نئی بلندی آئی ہے جو نومبر 2021ء میں 11.5 فیصد اور دسمبر 2020ء میں 8؍ فیصد کے مقابلے میں 12.3 فیصد ریکارڈ کی گئی ہے۔ فروری 2020ء کے بعد سے یہ ہیڈلائن افراط زر کی بلند ترین سطح ریکارڈ کی گئی ہے۔
اسی طرح دسمبر 2021ء میں حساس قیمت کا اشاریہ (SPI) بھی 20.9 فیصد کی بلند ترین سطح اور تھوک قیمت کا اشاریہ (WPI) بھی 26.2 فیصد کی بلندی پر پہنچ گیا ہے۔
حکومتی اہلکاروں نے اشیائے خوردونوش کی ماہانہ وار بنیادپر قیمتوں میں کمی کو نمایاں کرتے کرتے نظام میں تیزی سے بڑھتی بنیادی مہنگائی کومکمل طور پر نظرانداز کردیا ہے۔
شہری اور دیہی بنیادی افراط زر میں ماہ بہ ماہ 1.1 فیصد اضافہ ہواہے اور یہ اضافہ 8.3 فیصد اور 8.9 فیصد ریکارڈ کیا گیا ہے۔ قیمتوں میں یہ ہوشربا اضافہ جلد غائب ہونے والا نہیں۔
پیسے کی فراہمی /سپلائی
پی ٹی آئی حکومت کے دور (اگست 2018ء تا دسمبر 2021ء) میں مستقل بڑھتی ہوئی مہنگائی کی شرح بہت حیران کن امر اس لئے بھی نہیں کیونکہ اس دور میں پسے کی فراہمی /سپلائی میں بڑے پیمانے پراضافہ ہوا جو کہ مالی سال 2020س میں 17.4 فیصد اور مالی سال 2021ء میں 16.2 فیصد ریکارڈ کیا گیا۔
چونکہ پی ٹی آئی کے پورے دور میں GDP گروتھ کی شرح منفی یا پھر بالکل معمولی رہی تو پیسے کی سپلائی میں غیر معمولی اضافہ یقینی طور پر ناقابل برداشت مہنگائی کا موجب بننا تھاجسے آج پوری قوم بھگت رہی ہے۔
کرنٹ اکائونٹ خسارہ
ایک تعجب انگیز خیز پیش رفت میں، اس توسیعی پالیسی کو اپناتے ہوئے پی ٹی آئی حکومت نے اپنی ہی کرنٹ اکائونٹ خسارہ کے حوالے سے پالیسی کے برعکس کام کیا۔ یاد رہے کہ اس حکومت نے کرنٹ اکائونٹ خسارے کو وراثت میں ملنے و الی بدترین خرابی قرار دیا تھا۔
اس پالیسی سے پیدا شدہ غلطیوں کا ادراک کرنے کے لئے بیرونی کھاتوں کا جائزہ لینا ضروری ہے، (جوذیل میں ز یر بحث ہے) جسے تیزی سے بڑھتے ہوئے کرنٹ اکائونٹ خسارے کا سامنا ہے جو رواں سال میں عملی طور پر اس سطح تک بڑھ چکا ہے جس سطح پر پی ایم ایل این کی حکومت اپنے پانچویں مالی سال میں پہنچی تھی۔
یاددہانی کےلئے بتانا ضروری ہے کہ پی ایم ایل این کے پہلے تین مالی سالوں 2013ء تا 2016ء) میں سالانہ کرنٹ اکائونٹ خسارہ چار بلین امریکی ڈالر کی حد میں تھا اور حکومت کے آخری دو سالوں 2017ء اور 2018ء میں بالترتیب کرنٹ اکائونٹ خسارہ بڑھ کر 12؍ بلین ڈالر اور 19؍ بلین ڈالر ہوا جس کے بڑھنے کی بنیادی وجہ 18؍ گھنٹے اوسطاً یومیہ لوڈشیڈنگ ختم کرنے کےلئے مشینری کی درآمدات، سیکورٹی سے متعلق ادائیگیاں، کیپٹل گڈز اور پلانٹ اور مشینری کی درآمدات تھیں۔
کیا پی ٹی آئی حکومت اپنے تین سالہ دور 2018ء تا 2021ء میں عوامی قرضوںمیں غیر معمولی اضافے کےباوجود کسی با معنی میگا ڈیولپمنٹ پروجیکٹ کا حوالہ دے سکتی ہے جو اس نے شروع کیا اور اس پر غیر معمولی قرض میں لیا پیسہ خرچ کیا؟
دسمبر 2021ء کے آخر میں کرنٹ اکائونٹ خسارے کے اعداد وشمار ابھی تک عوام کےلئے دستیاب نہیں ہیں تاہم نومبر 2021ء کے آخر میں موجودہ مالی سال کے پہلے پانچ مہینوں کےلئے کرنٹ اکائونٹ کا خسارہ 7.1 بلین ڈالر یا اوسطاً 1.4 بلین ڈالر ماہانہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
اس طرح سے اس مالی سال میں کرنٹ اکائونٹ خسارہ 17؍ بلین ڈالر کے قریب ہوگا جوکہ پی ایم ایل این حکومت کے آخری مالی سال 2018ء کے 19؍ بلین ڈالر کے قریب بنتا ہے۔
منی بجٹ
مہنگائی کامزید سونامی حال ہی میں متعارف کردہ منی بجٹ سے آنے والا ہے جس میں 144؍ مستثنیٰ اشیاء پر جی ایس ٹی لگانے یا جہاں بھی جی ایس ٹی 17؍ فیصد سے کم ہو اس کی شرح میں اضافہ کرنے کی تجویز ہے۔ اس کا مطلب ہوگا سیلز ٹیکس کی مد میں اضافی 343 ارب روپے، انکم ٹیکس کی مد میں اضافی 7؍ ارب روپے اور موٹر وہیکلز سے منسلک اضافی 23؍ سے 25؍ ارب روپے عوام سے لئے جائیں گے۔
مزید برآں درآمدات پر اضافی کسٹمز ڈیوٹی اور ریگولیٹری ڈیوٹی کی نئی لیوی لگائی جارہی ہے۔ یہی نہیں پی ٹی آئی حکومت پٹرولیم لیوی میں 4؍ روپے ماہانہ اضافہ کرنے کا ارادہ بھی رکھتی ہے جب تک کہ یہ 30؍ روپے فی لٹر تک نہ پہنچ جائے جو کہ زیادہ سے زیادہ قانونی حد ہے۔
یہ وہی لیوی ہے جس پر عمران خان اپنی تقاریر میں شدید تنقید کرتے تھے اور اسے غیر منصفانہ/غنڈہ ٹیکس کہتےتھے۔
پی ٹی آئی کے وزراء نے غیر ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے کہا ہے کہ عام آدمی پر منی بجٹ کے ذریعے لگائےگئے مذکورہ ٹیکس اقدامات کا بوجھ صرف 2؍ ارب روپے ہوگا یہ ان لوگوں کے زخموںپرنمک چھڑکنے کے مترادف ہے جوپہلے ہی ناقابل برداشت مہنگائی تلے دبے ہوئے ہیں۔
تجزیہ نگار اور صنعتوں کے نمائندگان جو ان نئے اقدامات سے متاثر ہوں گے انہوںنے خبردار کیا ہے کہ ان اضافی ٹیکسوں کے نتیجے میں ملک میں مہنگائی کی ایک نئی لہرآئے گی۔ لہٰذا بادی النظر میں مہنگائی/ قیمتوں میں جلد کمی ہونا تاحد نظر دکھائی نہیںدے رہا۔
مالیاتی خسارہ
پی ٹی آئی دور حکومت کی موجودہ توسیعی پالیسی، مالیاتی خسارے کی شکل میں نظر آتی ہے۔
پی ٹی آئی کے تین مالی سالوں میں سالانہ مالیاتی خسارہ 8؍فیصد سے زیادہ ریکارڈ کیا گیا جبکہ پی ایم ایل این کے پانچ مالی سالوںمیں سالانہ مالیاتی خسارہ اوسطاً 5.5 فیصد تھا۔
تجارتی کھاتے کا خسارہ
رواں مالی سال کی پہلی ششماہی میں تجارتی کھاتے کا خسارہ25.5بلین ڈالر ریکارڈ کیا گیا ہے جو ملکی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔ یہ ماہانہ اوسطاً 4.25 بلین ڈالر بنتے ہیں جو کہ بے حد تشویشناک ہے۔ تجارتی خسارہ گزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے13.2بلین ڈالر کے مقابلے میں تقریباً100فیصد زیادہ رہا ہے۔
اس حیران کن نمبر کی وجہ درآمدات ہیں جو 40.6بلین ڈالریا اوسطاً6.8بلین ڈالر ماہانہ پر جا پہنچی ہیں۔ یہ بھی درآمدات کی ایک بے مثال سطح ہے جو ماضی میں بہ مشکل ایک آدھ مہینے میں کبھی 5؍ بلین ڈالر سے تجاوز کیا کرتا تھا۔ سب سے زیادہ خطرناک یہ ہے کہ دو مہینوں (نومبر تا دسمبر2021ء) میں درآمدات بالترتیب 7.9بلین ڈالر اور 7.6بلین ڈالر رجسٹر کی گئیں۔ یہ درآمدات میں بے گناہ اضافے کا سبب ہے جس کیوجہ طلب میں بڑے پیمانے پر اضافہ جوکہ وسیع خسارے اور منی سپلائی (Money Supply) میں بے پناہ اضافے کی طرف اشارہ کررہا ہے۔
بیرونی عوامی قرضہ
بیرونی کھاتوں کی موجودہ نازک صورتحال کا اثر ملک کے غیر ملکی زرمبادلہ ذخائر، شرح مبادلہ اور غیر ملکی (بیرونی) عوامی قرضوں پر پڑتا ہے۔ پی ٹی آئی کے اقتدار میں آکر سابقہ حکومتوں کے غیر ملکی قرضوں کو اتارنے کے بارے میں مستقل بیانیہ کے برعکس، حقائق ایک بالکل مختلف تصویر پیش کررہے ہیں۔
30؍ جون 2018ء تک بیرونی عوامی قرضہ 70؍ بلین ڈالر تھا جو 30؍ ستمبر 2021ء تک بڑھ کر 100؍ بلین ڈالر ہوگیا یعنی کہ پی ٹی آئی حکومت کے دوران 30؍ بلین ڈالر کا اضافہ ہوا۔ دوسری طرف 30؍ جون 2018ء کی سطح کے مقابلے میں اسی مدت میں اسٹیٹ بینک کے ذخائر میں صرف 9؍ بلین ڈالر کا اضافہ ہوا ہے، بقیہ 21؍ بلین ڈالر رقم ادائیگیوں کے توازن (BOP) یا بجٹ کی سپورٹ میں چلی گئی ہے۔
بیرونی قرضوں میں اس اضافے میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر سے موصول ہونے والے 5.5 بلین ڈالر کے ذخائر شامل نہیں ہیں جو بیرونی قرضوں کے حقیقی اعداد وشمار کو دبانے کے لئے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی بیلنس شیٹ میں براہ راست شامل کئے گئے ہیں۔
سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کے 39؍ مہینوں میں30؍ ارب ڈالر کے بیرونی سرکاری قرضوں میں خالص اضافہ ہوا ہے جو کہ سابقہ حکومتوں کے بیرونی قرضوں کو اتارنے کے مضحکہ خیزدعوئوں کے بالکل برعکس ہے۔
زرمبادلہ کی شرح /فاریکس ریزرو
شرح مبادلہ، مئی 2021ء میں 152؍ روپے فی ڈالر تھا جب اسٹیٹ بینک کے ذخائر تقریباً 15؍ بلین ڈالر تھے۔
تاہم، اگست 2021ء میں غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ کر 20؍ بلین ڈالر ہوگئے مگر اس کے باوجود ڈالر کی شرح مبادلہ بڑھ کر 178ء روپے ہوگئی۔
فاریکس ماریکٹ نے عمران خان کے اس بیان پر کوئی توجہ نہیں دی (جو 7؍ دسمبر 2021ء کے بزنس ریکارڈر میں رپورٹ کیا گیا) کہ پاکستانی روپےکی حقیقی قدر(متبادل شرح)163روپے فی ڈالر ہے۔
فاریکس مارکیٹ نے روپے کی حد 178 روپے سے نیچے آنے سے انکار کردیا ہے اور تجارتی اور کرنٹ اکائونٹ خسارے کی موجودہ صورتحال (اوپر زیر بحث) کے پیش نظر ڈالر اسی ریٹ پر رہ سکتا ہے یا مزید مہنگا ہوسکتا ہے۔ لہٰذا، یہ مہنگائی / قیمتوں پر مزید دبائو ڈال سکتا ہے۔
نتیجہ
مذکورہ بالا تفصیل سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ قیمتوں میں اضافے (مہنگائی) کا دبائو جلد کم ہوتا دکھائی نہیں دے رہا اور اس وجہ سے روپے کی قدر بھی کمزور رہنے کا امکان ہے تاوقتیکہ مہنگائی کا سبب بننے والے مذکورہ بالا زیر بحث عوامل کو روکنے کے لئے فعال مالی اور مالیاتی اصلاحی اقدامات نہ کئے جائیں۔
ایسے نہ کیا گیا تو معاشی حالات بدستور بدتر ہوتے جائیںگے اور عام آدمی کی قوت خرید ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید کم ہوتی جائے گی۔
کروڑوں لوگ جو پہلے ہی آسمان کو چھوتی مہنگائی کی زد میں ہیں ان کے لئے اپنے خاندانوں کو دو وقت کی روٹی فراہم کرنا بھی خدانخواستہ ناممکن ہوجائے گا۔