• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محبت اور وفا کی علامت، کونج معدومیت کے خطرے سے دوچار

ماحولیاتی تبدیلی اور بے رحمانہ شکار کے باعث یہ مسافر پرندے معدومیت کے خطرے سے دوچار ہورہے ہیں۔
ماحولیاتی تبدیلی اور بے رحمانہ شکار کے باعث یہ مسافر پرندے معدومیت کے خطرے سے دوچار ہورہے ہیں۔

سائبیریا اور وسطی ایشیائی ریاستوں سے انتہائی سرد موسم کی وجہ سے بہت سے پرندے معتدل موسم کی تلاش میں بلوچستان کے راستے پاکستان اور یہاں سے بھارت نقل مکانی کرتے ہیں۔

ان پرندوں میں کونج نمایاں ہیں، تاہم ماحولیاتی تبدیلی اور بے رحمانہ شکار کے باعث یہ مسافر پرندے معدومیت کے خطرے سے دوچار ہورہے ہیں۔

آج کل کونج کے غول بلوچستان کے شمالی ضلع ژوب اور ملحقہ علاقوں کے افق پر دیکھے جاسکتے ہیں، یہ مہمان پرندے کم و بیش ساڑھے 4 ہزار کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے وسطی ایشیائی ریاستوں سے پہاڑوں، دریاؤں، میدانوں اور صحراوں سے ہوتے ہوئے لمبی اڑانیں بھر کر ژوب پہنچے۔

ماہرین جنگلی حیات کے مطابق بلوچستان ان پرندوں کا گیٹ وے یعنی گزرگاہ ہے۔ ان کی منزل بھارت کے گرم علاقے ہیں۔ جہاں یہ معتدل موسم کے دو سے تین ماہ گزار کر واپس اپنے دیس چلے جاتے ہیں۔

محکمہ جنگلی حیات کے چیف کنزر ویٹر شریف الدین بلوچ کے مطابق کونج کی دو اقسام کامن کرین اور ڈیموزل کرین ہر سال بلوچستان کے راستے بھارت نقل مکانی کرتی ہیں، یہ سلسلہ زمانہ قدیم سے چلا آرہا ہے، بھارت سے ان مسافر پرندوں کی واپسی وہاں موسم گرم ہوجانے پر فروری اور مارچ میں ہوتی ہے۔

ماہرین جنگلی حیات کے مطابق بلوچستان ان پرندوں کا گیٹ وے یعنی گزرگاہ ہے۔
ماہرین جنگلی حیات کے مطابق بلوچستان ان پرندوں کا گیٹ وے یعنی گزرگاہ ہے۔

شریف الدین بلوچ کا کہنا تھا کہ بلوچستان سے گزرتے ہوئے یہ مہمان پرندے مختلف مقامات پر رکتے ہیں اور وہاں سے پھر اپنی اڑان بھر کر بھارت کا رخ کرتے ہیں، زیادہ تر یہ پرندے آبی ذخائر، ڈیموں کے کیچ منٹ ایریاز سمیت مختلف مقامات پر قیام کرنا پسند کرتے ہیں۔

بلوچستان سے گزرنے والے کامن کرین کی قسم چاغی، نوشکی، خاران، واشک، خضدار، لسبیلہ اور سونمیانی سے ہوتے ہوئے بھارت جاتی ہے جبکہ ڈیموزل کرین کی قسم ژوب ڈویژن کے راستے بھارت کا رخ کرتے ہیں اور اسی طرح سے ان کی وہاں سے واپسی ہوتی ہے۔

تاہم محکمہ جنگلی حیات کے چیف کنزر ویٹر کا کہنا تھا کہ گذشتہ چند سالوں کے دوران موسمیاتی تبدیلی، قدرتی آبی اور دیگر مسکنوں کے متاثر ہونے اور بے رحمانہ شکار سمیت مختلف وجوہات کی بناء پر ان مہمان پرندوں کی تعداد اور آمدورفت میں کمی دیکھی گئی ہے۔

شریف الدین بلوچ نے بتایا کہ رپورٹس ہیں کہ ہر سال جس طرح یہ پرندے پہلے آتے تھے اس میں ہر سال کمی محسوس ہورہی ہے اس کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں ایک تو یہاں موسمی تبدیلی اور دوسرا ان کے مسکن کی زبوں حالی اور تیسرا ان کا بے رحمانہ شکار ہے۔ ان وجوہات کی بناء پر ان پرندوں کی معدومیت کا خطرہ ہے۔

محکمہ جنگلی حیات کے حکام کا کہنا تھا کہ کونج ایک دن میں تقریباً 200 کلومیٹر تک کا سفر کرتی ہیں۔ اس طرح سے انہیں سائبیریا اور وسطی ایشیائی ریاستوں سے بھارت پہنچے میں تقریباً ایک ماہ تک کا عرصہ لگ جاتا ہے۔

اس دوران وہ بلوچستان سمیت ملک کے مختلف علاقوں میں قیام کرتی ہیں۔ اس طویل سفر کے دوران مختلف علاقوں میں شکاری ان مہمان پرندوں کے گزرنے کے دوران ان کو مختلف طریقوں سے ٹریپ کرکے بے رحمانہ شکار کرتے ہیں۔ جو کہ وائلڈ لائف ایکٹ کی سریحاً خلاف ورزی ہے۔ 

اس کےعلاوہ پاکستان نے اقوام متحدہ کے کنونشن آن کنزرویشن آف مائیگریٹری اسپیشیز آف وائلڈ اینیمل پر دستخط بھی کئے ہوئے ہیں جس کے تحت پاکستان ان پرندوں کو اپنی حدود میں مکمل تحفظ دینے کا پابند ہے۔

جنگلی حیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ کونج کو محبت اور وفا کاپرندہ کہا جاتا ہے کہ اگر یہ شکار یا کسی اور وجہ سےیہ اپنا ساتھی کھو دے تو اپنی نسل کے لئے دوسرا ساتھی نہیں بناتا جو کہ ان پرندوں کی معدومی کی ایک بڑی وجہ ہے۔

خاص رپورٹ سے مزید