• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مجھے کابل کے ایک پرانے خوبصورت محل میں صدر حامد کرزئی کی دوسری تقریب حلف برداری کا دن یاد ہے جہاں مجھے صدر آصف علی زرداری کے ساتھ بطور مہمان مدعو کیا گیا تھا اور بظاہر صدر حامد کرزئی پاکستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے میں بہت زیادہ دلچسپی رکھتے تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ افغانستان بھارت کے ہاتھ میں چلا گیا اور بھارت افغانستان کا ڈارلنگ (محبوب ) بن گیا۔

اگر ہم پاک افغان تعلقات کو تاریخی تناظر میں دیکھیں تو ہمیں یہ تلخ حقیقت نظر آتی ہے کہ افغان خفیہ ایجنسی نے ہمیشہ پاکستان کے خلاف دشمنی کا مظاہرہ کیا اور افغان قیادت کو پاکستان سے دور رکھا جبکہ بھارت کے زیادہ قریب رہا۔

یہ بات دلچسپ ہے کہ این ڈی ایس نے پہلی طالبان حکومت کا جوڑ توڑ کیا اور اب موجودہ افغان حکومت بھی اس کے چنگل میں پھنس گئی ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس کا پاکستان کے ساتھ دشمنی کا رویہ ہے۔ اس کی وجوہات یہ ہیں کہ این ڈی ایس ہندوستان کے پے رول پر ہے۔ جوڑ توڑ نئی دہلی سے کیا جاتا ہے۔

تاریخی طور پر افغانستان میں آنے والی تمام حکومتوں نے روایتی طور پاکستان مخالف سوچ پاکستان مخالف گروپوں سے لی اور پاکستان مخالف ذہن بنایا ان پاکستان مخالف گروپوں میں افغان نیشنل سیکیورٹی ایجنسی KHAD( خدمت اطلاعاتِ دولت) اور اسٹیٹ انٹیلی جنس ایجنسی WAD(وزارتِ امانت ِدولت) شامل تھیں یہ 1980سے1996تک یہ اہم ملٹری سیکیورٹی ایجنسیاں تھیں۔

1980 کی دہائی کے وسط میں دونوں ایجنسیاں مبینہ طور پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزام میں ملوث رہی ہیں ۔ان الزامات میں تشدد کا استعمال، پہلے سے طے شدہ "شو ٹرائلز" کا استعمال، بڑے پیمانے پر من مانی گرفتاریاں، نظربندی اور بغیر مقدمہ چلائے قیدیوں کو پھانسی دینا شامل تھے ۔محمد نجیب اللہ KHAD کے ڈائریکٹر رہے جب کہ عثمان سلطانی اور محمد فہیم ماضی میں WAD کے ڈائریکٹر تھے۔ ہم سب نے دیکھا کہ کس طرح KHAD نے ہمارے ملک کو جنگی علاقہ بنا دیا۔

افغان سوویت یونین کے تنازع کےبعد khAD نے اپنے تبدیل شدہ نام WAD اور اب NDS کے ساتھ تشدد اور دبائو کا سلسلہ جاری رہا۔ہر افغان حکومت کا ذہن مسلسل پاکستان مخالف رہا اور اس نے کبھی بھی ڈیورنڈ لائن کو بین الاقوامی سرحد کے طور پر قبول نہیں کیا اور اب ہم دیکھ رہے ہیں کہ نئی افغان حکومت نے پاکستان کے خلاف وہی پرانے دعوے شروع کر دیے ہیں۔میں نے بطور وزیر داخلہ بین الاقوامی کوششوں اور دو طرفہ دائرہ کار سے افغانستان کو پاکستان کے قریب لانے کی پوری کوشش کی جو کہ عوامی ریکارڈ کا حصہ ہےیہ تجویز مسٹر رچرڈ ہالبروک (سابق امریکی سفیر برائے اقوام متحدہ) کے ساتھ ایک ملاقات میں پیش کی گئی جنہوں نے افغانستان کے سابق وزیر داخلہ جناب حنیف اتمر اور میرے درمیان ملاقات کی سہولت فراہم کی جہاں مجھے میری حکومت نے مکمل طور پر یہ ذمہ داری دی تھی کہ میں افغانستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے اس کے ساتھ آگے بڑھوں۔ہم سب سے پہلے پاکستان کے دوستوں کی پہل پر ایک کانفرنس میں ملے اور پھر واشنگٹن کے ایک ہوٹل میں ملاقات کی جہاں ہم دونوں نے صبح سویرے ایک قابل عمل مسودہ تیار کرنے کے لیے معاہدے کے مسودے کو حتمی شکل دی۔ ہم دونوں نے معاہدے کا مسودہ اپنی اپنی کابینہ میں لے جانے کا فیصلہ کیا کیونکہ کابینہ کی منظوری کو ترتیب دینا بھی لازمی ہے۔اسی کے مطابق واپسی پر مجھے منظوری مل گئی اور اتمر کو بالترتیب اپنی کابینہ سے منظوری مل گئی اور بالآخر اسلام آباد میں دوبارہ ملاقات ہوئی۔ یہ تقریب دنیا بھر میں ٹیلی ویژن پر دکھائی گئی اور میری درخواست پر ایف بی آئی کے اس وقت کے ڈائریکٹر مسٹر جان مولر نے اسے سرکاری طور پر دیکھا۔دہشت گردوں کے بارے میں معلومات کے تبادلے اور دہشت گردوں کے تبادلے اور وزارتی سطح پر ہاٹ لائن قائم کرنے کے حوالے سے دستخط کیے گئے۔ یہ واقعی تعلقات کی بہتری کے لیے ایک بہت بڑا قدم تھا لیکن ان کے ساتھ وزیر داخلہ کی تبدیلی نے اسے ختم کر دیا کیونکہ نئے وزیر جنرل بسم اللہ بین الاقوامی سرحد کے سخت مخالف تھے۔افغان حکومت نے چمن بارڈر پر امیگریشن اور کسٹم چیک پوسٹ قائم کرنے کی اجازت دینے کے معاہدے کا احترام نہیں کیا۔ میرے چمن کے دورے سے ایک دن پہلے افغان لڑاکا طیارے نے ایک بار پھر ہماری چیک پوسٹ کو تباہ کر دیا۔نیت بالکل واضح تھی کہ افغانستان پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات نہیں چاہتا۔ اس دوران، براہمداغ بگٹی کی قیادت میں ہندوستانی تربیت یافتہ بلوچی لڑکوں کے حملوں نے بلوچستان میں سرگرمیوں میں اضافہ کیا اور میں نے افغان انٹیلی جنس اور را کے ملوث ہونے کے ناقابل تردید ثبوت سیٹلائٹ تصاویر کے ساتھ صدر کرزئی کو ان کے دفتر کابل میں پیش کیے جس میں قندھار میں انڈو افغان ٹریننگ کیمپ کے ویڈیو کلپس اور تصاویر بھی شامل تھیں۔جس نے صدر کرزئی کو وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی، جنرل ظہیر کی موجودگی میں لاجواب کردیا۔تاہم مجھے صدر حامد کرزئی کا احترام کرنا چاہئے کہ انہوں نے تربیتی کیمپوں کی موجودگی کا اعتراف کیا لیکن انہوں نے واضح طور پر کہا کہ یہ ان کے ہاتھ میں نہیں ہے اس لئے پاکستان کو ان کو ختم کرنے کے لئے امریکہ سے بات کرنی چاہئے جبکہ وہ پاکستان کی مدد اسی صورت میں کر سکتا ہے جب پاکستان ملا برادر کو ان کے حوالے کرے۔ جو پاکستان میں قید تھا۔ ایسا نہیں ہوا اور کیمپ چلتے رہے اور یہ اس حقیقت کے باوجود ختم نہیں ہوئے کہ ہم نے کچھ دوست ممالک کی مدد سے براہمداغ بگٹی کی سوئٹزرلینڈ منتقلی کا انتظام کیا۔صدر حامد کرزئی نے بھارت کے قریب جا کر ان کے ساتھ بہت سے معاہدوں پر دستخط کیے جن میں ان کی فوج کی تربیت بھی شامل ہے جس میں تربیت کے لیے پاکستان کی پیشکش کو نظر انداز کیا گیا۔ اس نے اپنی فوج کو ہندوستانی فوج سے تربیت دلوانا شروع کر دیا کیونکہ اس نے ہمارے ٹرینرز پر بھروسہ نہیں کیا۔اسی طرح صدر ڈاکٹر اشرف غنی نے صدر کرزئی کے سابق این ایس اے ہونے کے ناطے بھی پاکستان کو افغانستان سے دور رکھنے کے لیے صدر حامد کرزئی کے اسی SOP پر عمل کیا۔ پاکستان کے خلاف را اور این ڈی ایس کے ناپاک اتحاد کے بارے میں استنبول میں ان کے ساتھ میری سنجیدہ بحث ہوئی۔درحقیقت، میں یہ کہوں کہ ان کی قومی انٹیلی جنس ایجنسی ایک ہی ہے جو مسلسل تین حکومتوں سے آتی ہے اور اپنی پالیسی کے معاملے میں پاکستان کے خلاف ہیں۔

افغان طالبان اب بھی وہی پاکستان مخالف بیوروکریسی اور انٹیلی جنس آپریٹرز کو استعمال کر رہے ہیں اس لیے ہمیں اس بات پر غور نہیں کرنا چاہیے کہ ہم افغانستان کا مائنڈ سیٹ بدل سکتے ہیں جسے بھارت نے برین واش کیا ہے۔ہم سب جانتے ہیں کہ یہ پاکستان ہی تھا جس نے دوحہ معاہدے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی کوششیں کیں اور یہ وہ وقت تھا جب ہندوستانی سیکیورٹی ایجنسی دوحہ میں افغان طالبان کی اعلیٰ قیادت سے علیحدہ علیحدہ ایک ہوٹل میں ملاقات کر رہی تھی تاکہ پاکستان کے خلاف حکمت عملی طے کی جا سکے۔ یہ سمجھا جاتا ہے کہ افغان طالبان نے کابل پر قبضہ کرنے سے بہت پہلے اپنے ورکنگ تعلقات کو مضبوط کر لیا تھا۔موجودہ افغان دشمنی بہت پرانی ہے جس کی عکاسی ہماری باڑ پر افغان فورسز کے حملے سے ہوئی ہے جس کی قیادت این ڈی ایس کے مقامی کمانڈرز کر رہے تھے۔ ہم نئی افغان حکومت کا اصل ارادہ دیکھ سکتے ہیں۔

آئی ٹی سیکٹر میں وزیر اعظم آئی کے کی دوستانہ پیشکش کو قبول کرنے سے افغانستان نے انکار کردیا ہے،اس پیشکش کو افغان طالبان کے سرکاری ترجمان نے دو ٹوک الفاظ میں مسترد کر دیا ہے جو افغان ذہنیت کے ارادے کو مزید واضح کرتاہے۔آئیے ہم ہر افغان حکومت کی طرف سے اس آنکھ مچولی کے ہر پہلو کا تجزیہ کریں جس میں موجودہ غیر تسلیم شدہ افغان کمزور حکومت بھی شامل ہے۔

اگر بین الاقوامی سطح پر غیر تسلیم شدہ حکومت کا رویہ بھی اتنا ہی مخالفانہ ہے تو پاکستان کو اسے تسلیم کرنے کے بعد کیا کرنا چاہیےجب تیزی سے علاقائی صورتحال بدل رہی ہے یوکرین پر متوقع حملے کے نئے عوامل کیا ہوگے، تاجکستان اور کرغزستان میں مقامی بغاوت اور متحدہ عرب امارات پر حالیہ ڈرون حملے کوذہن میںرکھنا ہوگا۔مزید وضاحت اور آگے بڑھنے کے لیے یہاں چند نکات قابل غور ہیں۔

(1) افغانستان سمجھتا ہے کہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنا اس کے مفادات کے مطابق ہے کیونکہ وہ بھارت کو اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت دیتا رہتا ہے جو کہ ہر آنے والی حکومت کو دستیاب تھی اور اب پاکستان کے خلاف مغرب اور بھارت کی جانب سے ایک سنگین ہائبرڈ/پراکسی جنگ جاری ہے۔

(2) یہ اس بات کے مضبوط اشارے ہیں کہ افغان طالبان نے پہلے ہی امریکہ کے ساتھ خاموش مفاہمت پیدا کر رکھی ہے اور بھارت کے ساتھ کھلی پاک مخالف مفاہمت کی ہوئی ہے۔

(3) پاکستان نے اب افغان شہریوں کو ویزا جاری کرنا بند کر دیا ہے لیکن اس سے پہلے ان لوگوں کی مدد کی تھی جنہوں نے جنگ کے دوران امریکہ کی مدد کی تھی۔ پاکستان اور استنبول نے انہیں سہولت فراہم کی اور افغان طالبان کی خواہش کے خلاف افغانستان چھوڑنے میں ان کی مدد کی۔ اب جب کہ ہم نے افغان شہریوں کے لیے ویزہ بند کر دیا ہے، اس سے افغانوں میں شدید غم و غصہ پیدا ہو گیا ہے اور بھارت نے اس کا فائدہ اٹھایا ہے کیونکہ اس نے افغانوں کے لیے آن لائن انڈین ویزا کو فاسٹ ٹریک پر کھول دیا ہے۔کیا حکومت بتا سکتی ہے کہ ہم نے ایسا کرکے کیا حاصل کیا؟

(4) افغان طالبان نے ٹی ٹی پی کے ساتھ مزید مضبوط تعلقات بنائے ہیں کیونکہ افغان طالبان مستقبل قریب میں طالبان کے تاجک، ازبک، ہزارہ اور پنشیری گروپ کے حملے کو روکنے کے لیے پاکستان سے فوج کی توقع نہیں رکھتے۔ اس لیے افغان طالبان اب پاکستان کے مقابلے بھارت پر زیادہ انحصار کریں گے۔

(5) مغرب اور بھارت پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے نئے منصوبے کے ساتھ ٹی ٹی پی کو استعمال کرنا چاہتے ہیں کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ ایک مضبوط پاکستان چین کا ساتھ دے۔

(6) چین، افغانستان اور تاجکستان میں ان گروہوں سے بخوبی واقف ہے جو کچھ افغان گروہوں کے ساتھ مل کر چین کے مسلم صوبوں میں بغاوت کر سکتے ہیں جو کہ امریکہ کی پرانی خواہش ہے۔

(7) متحدہ عرب امارات پر ڈرون حملوں کی طرف متوجہ ہونے کی وجہ سے ابھرتی ہوئی صورت حال میں اس بات کا تعین کرنے کی ضرورت ہے کہ اس کے پیچھے کون تھا اور اس کا مقصد متحدہ عرب امارات کو غیر مستحکم کرنا تھا؟کاش پاکستان نے یو اے ای کو اپنی دفاعی صلاحیتوں کی پیشکش کی ہوتی اور اس وقت یو اے ای کو مدد کی پیشکش کرکے اپنے تعلقات کو بہتر بنانے کا یہ بہت اچھا موقع ہے۔

یہ حملہ بھی عظیم تر ڈیزائن کا حصہ ہے جس میں اسرائیل کو ایک دوست کے طور پر مشرق وسطیٰ میں لانا بھی شامل ہے۔(8) اسی طرح، مستقبل میں یوکرین پر ممکنہ حملہ روس اور امریکہ کو جنگ کے دہانے پر لا سکتا ہے اور عالمی جنگ III کو متحرک کر سکتا ہے۔

(9) طالبان کا ایک گروپ تاجکستان میں پہلے ہی بغاوت کر چکا ہے۔ مجھے تاجکستان کے صدر امام علی رحمان کے وہ الفاظ یاد ہیں جو اپنے وزیر داخلہ اور وزیر خارجہ کی موجودگی میں اپنے دورے کے دوران کہے تھے کہ طالبان تاجکستان میں شورش کی حمایت جاری رکھیں گے اور ان کے الفاظ اب سچ ہو رہے ہیں۔(10) اسی طرح، شواہد ریکارڈ پر موجود ہیں کہ افغان طالبان کا دھڑا پرانے ازبک طالبان کی ازبکستان کو غیر مستحکم کرنے کے اپنے مقاصد حاصل کرنے میں مدد کر رہا ہے جبکہ مغرب تاجک اور ازبک حکومتوں کے درمیان تصادم کا فائدہ اٹھا رہا ہے۔

تاجکستان حقیقی مشکل میں ہے کیونکہ روس وقت کے ساتھ ساتھ تاجکستان پر بھی قبضہ کرنے کے لیے کوشاں ہے کیونکہ یوکرین اور تاجکستان دونوں پر حملہ طویل مدتی اسٹریٹجک دفاع میں ہے۔

روسی صدر پیوٹن نے کہا ہے کہ یوکرین پر جلد سے جلد حملہ کرنا ہوگا۔(11) پاکستان مخالف ممالک بشمول بھارت اور افغانستان ہمارے ملک میں ہمارے سیاسی پولرائزیشن کے بارے میں اچھی طرح جانتے ہیں کیونکہ ہمارے قومی سینئر سیاستدان یا تو ان مسائل کو نہیں سمجھتے یا وہ صرف اقتدار کی خاطر اندرونی سیاسی سودوں کے موضوع پر بات کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے سیاستدان صرف ’’ڈیل‘‘ کی بات کرتے ہیں کیونکہ وہ صرف اس بات میں دلچسپی رکھتے ہیں کہ اگلی حکومت کیسے حاصل کی جائے اور ہماری سیاسی جماعتوں میں شاید ہی کوالٹیٹیو(ماہیتی) تھنک ٹینکس موجود ہوں اور اب صدارتی نظام پر ایک نئی بحث قوم کو مزید تقسیم کردے گی۔

کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ کیا ہو رہا ہے اور پاکستان کے ارد گرد تیزی سے ترقی کرتی ہوئی صورتحال پر ہمارا قومی ردعمل کیا ہو گا؟ کیا حکومت عوام کے علم کے لیے اپنا متوقع سرکاری ردعمل پارلیمنٹ میں لا سکتی ہے؟(12) پارلیمنٹ کو سپریم سمجھا جانا چاہئے اور میں نے غیر منتخب NSA کا بیان دیکھا جس میں کہا گیا تھا کہ پارلیمنٹ کے سامنے قومی سلامتی کا منصوبہ لانے کی ضرورت نہیں ہے۔ کوئی جاننا چاہتا ہے کہ وہ کس اختیار کے تحت پارلیمنٹ کے سپریم باڈی ہونے کے وقار اور حق کو مجروح کر سکتا ہے؟ اگر پارلیمنٹ کو کابینہ کے ارکان نیچا دیکھ رہے ہیں تو اسے بند اور تالا لگا دیا جائے۔

عجیب بات ہے کہ پارلیمنٹ یا سینیٹ یا قومی اسمبلی کی کسی متعلقہ کمیٹی نے ان کے اس بیان کی وضاحت کے لیے کوئی نوٹس جاری نہیں کیا جو جمہوریت کی روح کے خلاف ہے۔برائے مہربانی میرے تمام نکات کو فراموش نہ کریں کیونکہ انہیں قومی ایکشن پلان کا حصہ ہونا چاہیے اور قومی مسائل کے حوالے سے ہمارا بے تکلف رویہ ہمیں بین الاقوامی طور پر تنہا نہ کردے۔میں افغان طالبان سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اس خطے میں امن قائم کرنے کے لیے کام کریں اور پی ایم مودی اور ان کے مسلم مخالف ارادے کو پوری طرح جانتے ہوئے ہندوستان کے ہاتھوں میں نہ کھیلیں۔ میں اپنی توجہ مسٹر سراج الدین حقانی، وزیر داخلہ کی طرف مبذول کرواتا ہوں کہ وہ اس پر غور کریں کیونکہ ہم آپ کے دشمن نہیں ہیں۔

نوٹ: مذکورہ بالا خیالات صرف اور صرف میرے اور قومی مفاد میں ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ میری پارٹی کے خیالات کی نمائندگی کریں۔مصنف پاکستان کے سابق وزیر داخلہ، پانچ کتابوں کے مصنف، سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے سابق چیئرمین اور چیئرمین انسٹی ٹیوٹ آف ریسرچ اینڈ ریفارمز (IRR) اسلام آباد ہیں۔ ان سے رابطہ کیا جا سکتا ہے: rmalik1212@gmail.com، Twitter @Senrehmanmalik

تازہ ترین