پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین جناب بلاول بھٹو زرداری نے 10 مئی باغ آزاد جموں کشمیر میں عوام کے ایک بڑے احتجاج سے خطاب کیا ان کا انداز بھٹو خون کا روایتی اور جارحانہ تھا جس نے تمام سننے والوں کو متاثر کیا۔ جناب بلاول بھٹو نے دو ایشوز اٹھائے اول مقبوضہ کشمیر کے عوام کے لئے حق خود ارادیت اور دوسرا تخت لاہور پنجاب میں طرز حکمرانی اور ’’چھوٹو گینگ‘‘
پچھلے سال سیاست میںقدم رکھنے کے فوراً بعد ہی جناب بلاول نے بھارت کی مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کے خلاف تشدد آمیز کارروائیوں کے خلاف آواز بلند کی اور ان کے لئے حق خود ارادیت کا مطالبہ کیا تاکہ وہاں کے عوام کو حقوق دلوائے جائیں۔ دوسرا مسئلہ بلاول بھٹونے دنیا میں لڑی جانے والی دہشت گردی کے خلاف جنگ کی حمایت کی۔ جس وقت بلاول بھٹو نے یہ ایشوز اٹھائے اس وقت اس کے مخالفین نیم خاموش اور حکومت سوئی ہوئی تھی یا دونوں ایشوز پر ’’سب اچھا‘‘ کہہ رہی تھی البتہ پیپلز پارٹی کے بعض ’’اندرونی عناصر‘‘ ماضی کی طرح اس کے والد کو اس تقریر کے مضمرات سے ڈرا رہے تھے مگر بلاول کےبیانات کے چند روز بعد دنیا نے دیکھا کہ تمام ایسے عناصر، خود حکومت اسی طرح کے بیانات دینا شروع ہوگئے جو بلاول بھٹو نے آغاز میں دیئے جو کہ اس بات کی غمازی ہے کہ بلاول بھٹو کا انداز سیاست شہید بھٹو کی طرح ہے جن کے مخالفین بھی ان کی نقل کرنے کی کوشش کرتےتھے۔
بلاول بھٹو اپنی والدہ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے زیر سایہ پروان چڑھے اور انہوں نے اس کی سیاسی تربیت کی۔ بلاول بھٹو نے ابتدا میں ہی اپنا لوہا منوایا۔
10 مئی کو باغ میں ایک بہت بڑے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے جناب بلاول بھٹو نے اقوام متحدہ کو باور کروایا کہ 1948 میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پہلے سے پاس شدہ قرار داد کشمیریوں کے حق خود ارادیت کا فیصلہ کرچکی ہے اب اس قرارداد پر عمل میں مزید تاخیر ہو رہی ہے اس کا حل ضروری ہے۔
اپنے اس خطاب میں جناب بلاول بھٹو نے وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف اور بھارت کے وزیر اعظم جناب ’’مودی‘‘ کے درمیان ذاتی دوستی کی ’’پینگوں‘‘ کو پاکستان کے معروضی حالات میں مسترد کردیا۔ وہ ایک قومی سوچ اور عوام کی خواہشات کی غمازی کرتے ہیں انہوں نے اس ذاتی دوستی کو اس بنا پر بھی مسترد کیا جناب بلاول قومی سلامتی معہ مسلم امہ کو تحفظ فراہم کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔جناب بلاول بھٹو سمجھتے ہیں کہ وزیر اعظم کے عہدے پر فائز اعلیٰ شخصیت کا ایک عام آدمی کی طرح دوستی اور قربت کے قریبی تعلقات پیدا کرنا ملک اس کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ البتہ پاکستان اور چین کے درمیان پائی جانے والی دوستی کی بنیادیں طے شدہ مفادات کے مطابق ہیں۔ آیئے مل کر کوشش کریں کہ دونوں ملکوں کے درمیان تنائو کو کم کرنے کے لئے باعزت طریقے سے حل ڈھونڈیں تب ہی پاکستان کے عوام ذاتی دوستی اور قربت کی اجازت دیں گے کیونکہ اس طرح کی قربت ذاتی نزدیکی تعلقات اور ایسی ڈپلومیسی جو ایشوز پائے جاتے ہیں ان کی سنجیدگی کو کم کرسکتے ہیں تاہم ہمیں راستے ڈھونڈ نےچاہئیں تاکہ تنازعات حل کئے جائیں۔
جناب بلاول بھٹو اپنے شجرہ نسب کی طرح اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں جیسا کہ شہید بھٹو اور ان کی والدہ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو تھیں وہ ایک ایسے باپ کے فرزند ہیں جن کے مخالفین بھی ان کو سیاست کا پی ایچ ڈی قرار دیتے ہیں۔ اس لئے جناب بلاول کا ادراک اور خطاب صرف جذباتی پن نہیں یا عوام کو خوش کرنے کے لئے نہیں۔ بلاول بھٹو کا ایک فقرہ میں پنجاب حکمرانی کا تذکرہ اور اس کو ’’چھوٹو گینگ‘‘ سے مشابہت دینا معنی خیز ہے اور پنجاب میں رہنے والا عام آدمی اس کا مطلب سمجھتا ہے۔
جناب بلاول بھٹو کی خفگی اور پنجاب پر تبصرہ ان کا سیاسی حق ہے کیونکہ اس حکمرانی نے غریب عوام، پسے ہوئے اور محروم طبقات کے ووٹ چرا لئے۔ سرکاری مشینری اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ذریعے متعدد بار پنجاب کی حکمرانی پر پچھلے کئی سالوں سے قبضہ کرلیا گیا۔ جناب بلاول کے نانا شہید بھٹو پاکستان کے پہلے واحد لیڈر پائے جاتے ہیں جنہوں نے فولادی دیواروں کی سیاسی اجارہ داری تباہ کرکے رکھی اور براہ راست پنجاب میں عوام کے گھروں میں پہنچ گئے وہ عوام کا دل جیتنے میں کامیاب رہے اور لاہور میں پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی جو کہ آج بھی عوام کی ملکیت ہے یہ تاریخی ریکارڈ ہے کہ انہوں نے عوام کو ناقابل تسخیر طاقت میں تبدیل کردیا شہید بھٹو اور شہید محترمہ بے نظیر دونوں نے عوام کی آزادیوں اور پاکستان میں جمہوریت کے لئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کردیا۔ دونوں کو پنجاب میں قتل کیا گیا شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے 10 اپریل 1986 کو لاہور کے شہر میں دنیا کی تاریخ میں انسانوں کا سب سے بڑا اجتماع منعقد کیا۔ راقم اس وقت پیپلز پارٹی کا پنجاب میں صدر تھا۔
1977 میں جب جنرل ضیا نے ملک میں آمریت مسلط کی اور جناب شہید بھٹو کو گرفتار کیا تو 11 سال تک پی پی پی کے ہزاروں کارکن پنجاب میں جبراً آمریت کا اپنے خاندانوں سمیت شکار بنے۔ جناب بلاول بھٹو سمجھتے ہیں کہ جو جمہوریت کے نام نہاد چیمپئن بنے ہوئے ہیں جنہوں نے آمریت کا ساتھ دیا شہید بھٹو کومصیبت میں چھوڑ کر بھاگ گئے یا انہوں نے محترمہ بے نظیربھٹو کے خلاف آمر ضیا کا ساتھ دے دیا تھا یہ غریب کارکن تھے جنہوں نے پنجاب میں قید ، کوڑے، اذیت گاہوں، شاہی قلعے اور پھانسیوں کو قبول کیا اور ان کو ذہنی اور جسمانی اذیتیں دی گئی۔ مگر جمہوریت کے ثمرات ان سے جاگیرداروں اور اشرفیہ نے چھین لئے اور موقعہ پرست چھاگئے۔ ایسا صرف پنجاب میں ہوا کہ 10 غریب کارکنوںکو جب شہید بھٹو کو سزائے موت سنائی گئی تو انہوں نے اپنے آپ کو آگ لگا کر موت کو سینے سے لگالیا۔
پنجاب میں پسے ہوئے اور درمیانے درجے سے تعلق رکھنے والے ہزاروں خاندان آج بھی جناب بھٹو ازم کے احیا یا دوبارہ نمودار ہونے کا انتظار کررہے ہیں کہ وہ آئے اور ان کو جاگیر داروں، سرمایہ داروں اور قرضہ کلاسوں کے چنگل سے آزاد کروائے۔ جنہوں نے عوام کی کامیابیوں پر ڈاکہ مارا اور ملک کے ذرائع پیداواری اور سیاسی و معاشی طاقت کو چھوٹو گینگ کے ذریعے اپنےقبضے میں لے لیا ہے۔