یہ ان دنوں کی بات ہے جب ایک نوجوان ’’اتفاق انڈسٹری‘‘ میں، وہاں کے مالی معاملات دیکھتا تھا اور شام کو باغِ جناح میں کرکٹ کھیلتا تھا، اچانک میچ کے دوران پیغام دیا گیا کہ گورنر پنجاب آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ اس نے کہا کہ میں کرکٹ کی یونیفارم میں ہوں، جواب آیا کوئی بات نہیں۔
اس وقت جنرل غلام جیلانی پارک میں چہل قدمی کر رہے تھے۔ اس نوجوان سے دو چار سوالات کئے اور خوشخبری سنائی کہ آپ کو پنجاب کا وزیر خزانہ بنایا جاتا ہے۔اس نوجوان کا نام تھا نواز شریف جس کو شاید اس وقت سیاست کی ABCبھی نہیں آتی تھی۔
بہرحال یہ ان کی سیاسی زندگی کی پہلی اننگ تھی۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب عمران خان کرکٹ کا روشن ستارہ تھا۔ کرکٹ کھیلنے وہ کبھی کبھی اس گرائونڈ میں آتا اور پھر ایک بار میاں صاحب سے ملاقات بھی ہو گئی۔آج یہ دونوں سیاست میں ایک دوسرے کے حریف ہیں اور اختلافات نفرت کی حد تک موجود ہیں۔
میاں صاحب تین بار وزیر اعظم رہے، پنجاب کے وزیر اعلیٰ بھی رہے جبکہ عمران کی23سالہ سیاست میں وہ اس کا خاص شکار بھی رہے، گو کہ 2007میں ایک ایسا وقت بھی تھا جب دونوں اتحادی بھی تھے۔
تاریخ میاں محمد نواز شریف کو کیسے یاد رکھے گی ایک مجرم، نااہل اور کرپٹ سیاست دان کے طور پر یا ایک مقبول سیاسی رہنما کے طور پر، قانون کے اپنے فیصلے ہوتے ہیں، تاریخ کے اپنے مگر تاریخ میں زندہ رہنے کیلئے کبھی کبھی ذوالفقار علی بھٹو بننا پڑتا ہے۔اس وقت نااہل اور مجرم ہونے کے باوجود میاں صاحب کی سیاسی گرفت پنجاب میں خاصی مضبوط ہے اور یہی وزیر اعظم عمران خان کا سب سے بڑا چیلنج بھی ہے۔
اس لیے ان کی تقریروں میں عدلیہ سے ناراضی بھی نظر آتی ہے اور سیاسی پریشانی بھی، آنے والے بلدیاتی الیکشن کے نتائج اگر ضمنی الیکشن کی طرح کے ہوئے تو دھچکا کپتان کے پورے بیانیہ کو لگے گا جبکہ فتح کی صورت میں وہ قبل از وقت الیکشن کی طرف بھی جا سکتے ہیں۔میاں صاحب کی سیاست میں کرکٹ، ایمپائر اور سلیکٹرز کا بڑا ہاتھ ہے۔
اس وقت کی سلیکشن ٹیم میں جنرل ضیاء الحق، بریگیڈیر (ر) عبدالقیوم، جنرل اقبال اور مجید نظامی صاحب شامل تھے، جنہوں نے بڑے میاں صاحب سے یہ درخواست کی تھی کہ آپ اپنے بڑےبیٹے کو سیاست میں آنے دیںاور میاں شریف سےیہ بھی کہا گیا ’’ہم چاہتے ہیں آپ کاروبار بھی کریں اور سیاست بھی۔‘‘ ساتھ ہی انہیں بھٹو صاحب کے زمانے میں قومیائی گئی اتفاق فیکٹریاں بھی واپس مل گئیں۔
لہٰذا میاں نواز شریف نے سیاست کا آغاز جنرل جیلانی کی انگلی پکڑ کر چلنے سے کیا اور ہر بچہ بڑا ہو کر خود چلتااور اپنے فیصلے خود کرتا ہے۔ میاں صاحب نے بھی یہی کیا تو ’بڑے‘ ناراض ہو گئے۔ اب سوال یہ ہے کہ جس خاندان کا سیاست سے کوئی لین دین نہیں تھا، اس کو سیاست میں زبر دستی کیوں لایا گیا کیونکہ مقصد دوسرے سیاسی خاندان کو سیاسی طور پر ختم کرنا تھا۔
میاں صاحب کی سیاسی تربیت میں جنرل حمید گل اور حسین حقانی کا بھی کافی ہاتھ ہے۔ وہ خاصا عرصہ ان سازشوں کا حصہ رہےجو دراصل دوسرے سیاسی حریف کو ناکام بنانے کیلئے تیار کی جاتی رہی ہیں۔
جنرل ضیا ء نے انہیں صرف بھٹو یا پی پی پی کے خلاف ہی استعمال نہیں کیا بلکہ اپنے ہی نامزد کردہ وزیر اعظم محمدخان جونیجو کے خلاف بھی استعمال کیا۔
اس وقت تک بڑے سیاسی فیصلے میاں شریف کیا کرتے تھے۔ اس دوران شہباز شریف بھی سیاست میں آنا چاہتے تھےاور 1990میں وزیر اعلیٰ پنجاب بننے کے خواہش مند تھے مگر فیصلہ غلام حیدر وائیں کے حق میں آیا اور انہیں مزید انتظار کرنا پڑا۔آہستہ آہستہ میاں نواز شریف نے فیصلے خود کرنا شروع کر دیے جس میں پہلا بڑا فیصلہ 1993میں ’’ڈکٹیشن‘‘ نہ لینے کا تھا.
ان کی اس تقریر نے ان کو ابتدائی تعلیم دینے والوں کو بھی پریشان کر دیا اور پھر انہوں نے شہباز شریف پر توجہ دینا شروع کر دی اور آج ان قوتوں کی نظر میں وہ بڑے بھائی سے زیادہ قابل اعتماد ہیں مگر وہ بھائی کے فیصلوں کے خلاف جا نہیں سکتے اور یہی اصل مشکل ہے۔
1992میں پاکستان جب ورلڈ کپ جیتا تو عمران خان کپتان تھے اور اس وقت ملک کے سب سے مقبول ’’ہیرو‘‘۔ یہ وہ وقت تھا جب میاں صاحب وزیر اعظم تھے اور انہوں نے ٹیم سے ملاقات بھی کی اور اسے خاصا نوازا بھی ۔ عمران کرکٹ سے ریٹائر ہوئے اور شوکت خانم کینسر اسپتال کی تعمیر کیلئے کام شروع کیا تو میاں صاحب نے بھی مدد کی۔ اس دوران جنرل حمید گل نے ان کو سیاست میں آنے کا مشورہ دیا۔
عمران کا دھیان بھی اس طرف گیا مگر پھر وہ پیچھے ہٹ گیا۔ کوئی تین سال بعد1996میں پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد رکھی تو سب سے پہلے شریف خاندان ہی خوفزدہ ہوا کیونکہ انہیں اس کی مقبولیت کا بھی اندازہ تھا اور اس کے سر پر ’’ہاتھ‘‘رکھنے والوں کا بھی۔
ہماری سیاست کا محور ’’ ہاتھ، ایمپائر اورسلیکٹرز ہی رہے ہیں۔بس ٹیم اور کپتان بدلتے رہے ہیں۔اس وقت بھی کچھ ایسا ہی سلسلہ چل رہا ہے۔ میاں صاحب نے سیاست میں بڑی غلطیاں بھی کیں اور غیر ضروری تنازعات میں بھی خود کو ڈالا جس میں شاید سب سے بڑی غلطی 1997 میں دو تہائی اکثریت کے باوجود فوج اور عدلیہ سے اختلافات، امیر المومنین بننے کی خواہش اور پھر 12 اکتوبر 1999کے بعد ڈیل کرکے باہر جانا تھا۔
’’پانامہ‘‘ کیس میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا، اگر اس وقت میاں صاحب استعفیٰ دے دیتے تو بات شاید اتنی آگے نہ جاتی،ان کی سیاسی زندگی میں نشیب و فراز آتے رہے ہیں۔ مگراس وقت ان کا باہر رہنا انہیں سیاسی نقصان پہنچا رہا ہے۔
سیاست اور تاریخ میں زندہ رہنے کے لیے بڑے مشکل فیصلے کرنا ہوتے ہیں۔ بھٹو کے آخری دنوں میں انہیں NROکی پیشکش ہوئی تھی۔ ترکی جا سکتے تھے۔ بیگم بھٹو ملنے گئیں تو ایک ہی جملہ آخر میں کہا،’’یہ مجھے نہیں چھوڑیں گے، میں تاریخ میں زندہ رہنا چاہتا ہوں‘‘۔