آج کل ہر زبان پر بس ایک ہی سوال ہے کہ آنے والے دِنوں میں کیا ہونےوالا ہے، جتنے منہ اتنی باتیں اور ہم سمیت ہر کوئی اپنے اپنے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا ہوا ہے ۔
صدارتی نظام سے متعلق جو باتیں کی جارہی ہیں وہ سو فیصد درست ہیں مگر یہ سب کچھ ایک آئینی انداز میں کیا جا رہا ہے، جس سے قومی اسمبلی اور آئین کی اہمیت و حیثیت کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
موجودہ وزیراعظم عمران خان کو مزید اگلے دس سال تک ریاست کا سربراہ بنانے کے لیے ایک جمہوری پلان ترتیب دیا گیا ہے، جس پر جلد عمل شروع ہونے والا ہے۔
اس سال کے اختتام سے پہلے موجودہ صدر عارف علوی اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائیں گے اور ان کی جگہ اگلے پانچ سال کے لیے ایک نئے صدر کا انتخاب کیا جائے گا۔
موجودہ اسمبلیوں میں اگر اراکین کی تعداد کے لحاظ سے دیکھیں تو مجموعی طور پر بشمول سینیٹ قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں حزبِ اقتدار کو حزبِ اختلاف پر تقریباً ستتر (77) ووٹوں کی سبقت حاصل ہے جو سادہ اکثریت سے، صدر پاکستان منتخب کرانے کے لیے کافی ہے۔
موجودہ صدر کے استعفے کے ساتھ ساتھ موجودہ وزیراعظم عمران خان بھی اگلے آرمی چیف کا انتخاب کرکے مستعفی ہو جائیں گے اور ان کی جگہ تحریک انصاف سے ہی دوسرا وزیراعظم منتخب کر لیا جائے گا اور اُس کے بعد عمران خان کو صدر پاکستان بنا دیا جائے گا۔
قومی اسمبلی اپنی مدت پوری کرے گی اور اگلے انتخابات الیکٹرونک ووٹنگ مشین کے ذریعے کرائے جائیں گے۔ تحریک انصاف دو تہائی اکثریت سے کامیاب قرار دی جائے گی۔
قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت ملنے کے بعد تحریکِ انصاف کی حکومت ایسی قانون سازی کرے گی جس سے ریاست کے نظام کو چلانے کے زیادہ تر اختیارات صدر مملکت کو منتقل ہو جائیں گے جیسا کہ پرویز مشرف کے دور حکومت میں ہوا تھا کہ قومی اسمبلی موجود ہونے کے باوجود ایوانِ صدر طاقت کا مرکز رہا اور قومی اسمبلی محض ایک ربر اسٹیمپ بن کر رہ گئی تھی۔
بحیثیت صدر پاکستان مختلف آئینی ترامیم کے بعد عمران خان کو بڑے فیصلے کرنے کا اختیار حاصل ہو جائے گا اور دوسری طرف آئین اور قومی اسمبلی بھی موجود رہے گی۔
عمران خان جو کہ پانچ سال کی مدت کے لیے گزشتہ (2018)اسمبلیوں سے صدر مملکت منتخب ہوئے ہوں گے اُس وقت (2023)کی اسمبلیوں کی مدت ختم ہونے سے کئی ماہ پہلے ہی اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرلیں گے اور دوبارہ صدر کا انتخاب لڑیں گے اور یہی وجہ ہے کہ عمران خان کو 2018کی اسمبلیوں سے صدر منتخب کرایا جائے گا تاکہ 2023کی اسمبلیاں اپنی مدت ختم ہونے سے پہلے انہیں دوبارہ صدر منتخب کر لیں اور یوں وہ اگلے پانچ سال کے لیے صدر منتخب ہوجائیں گے۔
اس طرح عمران خان اپنے دس سال پورے کریں گے اور آئینی ترامیم کے بعد ایک انتہائی طاقتور صدر ہوں گے جنہیں 2028کی اسمبلی کے لیے ہٹانا یا دبانا ناممکن ہوگا۔
یہ ایک ایسا پلان ہے جس سے آئین بالکل متاثر نہیں ہوتا ۔ ممکن ہے آپ کے ذہنوں میں یہ سوال آئے کہ عمران خان وزارتِ عظمیٰ سے مستعفی ہوجائیں گے تو کیا اُن کو اسٹیبلشمنٹ پر اتنا اعتبار ہے کہ وہ بغیر پریشانی کے صدر منتخب ہو جائیں گے؟
میرا استدلال یہ ہے کہ جو عمران خان کو ہٹانا چاہیں وہ تو انہیں کسی بھی وقت ہٹا سکتے ہیں اور عمران خان کو بھی یہ اچھی طرح پتا ہے ، اس لیے اس پلان پر عمل کرنے میں انہیں کوئی خوف نہیں ہوگا۔
رہ گئی بات اپوزیشن کی تو اپوزیشن زیادہ سے زیادہ یہ احتجاج کرسکتی ہے کہ اگلے انتخابات ووٹنگ مشین کے بجائے پرانے طریقہ کار پر ہی ہوں جس سے ممکن ہے کہ تحریک انصاف کے پلان کو دھچکا لگے بصورت دیگر دوسرا کوئی ایسا راستہ نہیں نظر آتا جس سے تحریکِ انصاف اپنے آپ کو غیرمحفوظ سمجھے۔
اب اگر ہم تصویر کا دوسرا رُخ دیکھیں تو بظاہر یہ باتیں ایک طلسماتی کہانی نظر آئیں گی مگر کیا اس سوال کا کوئی جواب ہے کہ اپوزیشن جماعتیں کس طرح عمران خان کو اس پلان پر عمل کرنے سے روک سکتی ہیں جب سب کچھ آئین کے دائرے میں کیا جائے۔
یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف کی برطرفی کے باوجود دونوں اسمبلیوں نے اپنی مدت پوری کی حالانکہ عمران خان نے بطور سربراہِ اپوزیشن جماعت نواز شریف کے خلاف جو تحریک چلائی موجودہ اپوزیشن کی تحریک اس قدر طاقتور نہیں۔
اس کے باوجود نہ قومی اسمبلی ختم ہوئی نہ نون لیگ کی حکومت۔ مہنگائی کا بیانیہ انتہائی طاقتور ہے مگر اپوزیشن کے پاس بھی قوم کیلئےکوئی کنکریٹ پلان نہیں کہ مہنگائی کو کیسے قابو کیا جائے گا۔
جو لوگ اسٹیبلشمنٹ پر تکیہ کیے بیٹھے ہیں اُن کو مایوسی ہوگی کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کو عمران خان اپوزیشن لیڈر سے زیادہ بطور سربراہِ حکومت سوٹ کرتے ہیں اور اُس کی وجہ یہ ہے کہ عمران خان کے اوپر کرپشن کا فی الحال کوئی کیس نہیں جس میں انہیں براہ ِراست ملوث کیا جاسکے، اس لیے اُن کا یہ پہلو انہیں بہت طاقتور کردیتا ہے۔
یہ بھی بتاتا چلوں اگلے دور میں عمران خان کے ساتھ جو ٹیم کام کرے گی اُس میں موجودہ ٹیم کے شاید دس فیصد لوگ بھی شامل نہ ہوں اور اُس نئی ٹیم کا بھی انتخاب ہوچکا ہے۔
موجودہ ٹیم کے پرویز خٹک، شاہ محمود، اسد عمر، شوکت ترین، علی زیدی، مراد سعید ہی شاید آگے بھی کابینہ میں شامل ہو سکیں باقی سب نئے چہرے اور اپنی اپنی فیلڈ کے تجربہ کار لوگ ہوں گے۔
اب اس ساری کہانی کے بعد سب سے بڑا سوال جو اُٹھتا ہے وہ یہ ہے کہ کیا واقعی یہ سب کچھ عمران خان کے لیے ہی ہوگا یا اچانک کوئی اور اس کا فائدہ اُٹھالے گا کیونکہ آصف علی زرداری نے تو پہلے ہی کہہ دیا ہے کہ جو کچھ بھی عمران خان سے کرایا جارہا ہے آخر میں اس کا فائدہ کوئی اور اُٹھائے گا۔ کیا یہ کوئی اور شریف بھی ہوسکتا ہے ؟