• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عالم اسلام کے لیے خوش آئند امر یہ ہے کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات میں بدتدریج بہتری آ رہی ہے، تلخیاں دور ہورہی ہیں۔ اخوت اور محبت کے رشتے مضبوط بنیادوں پر آگے بڑھ رہے ہیں،عراق نے اس حوالے سے بڑا اہم کردار ادا کیا ہے کہ دونوں ملکوں کے حکام کو ملنے کا موقع دیا، آگے بڑھنے کاطریقہ کار طے ہوگیا ہے۔ ایران، سعودی عرب کا آگے بڑھنا یہ بتا رہا ہے کہ خطے میں اب خطرات ٹل گئے ہیں۔ ایران نے بھی ہمیشہ مسلم رشتوں کو اہمیت دی ہے۔ میزائل ٹیکنالوجی کے باوجود کبھی کسی اسلامی ملک کو خوفزدہ نہیں کیا، اسرائیل اور امریکہ سے ان ہی کی زبان میں بات کی ہے، اب صورت حال یہ ہے کہ اسرائیل جیسا ملک جو ایک ایٹمی طاقت اور جدید سامانِ حرب سے لیس ہے، وہ بھی ایران کی حمایت یافتہ اسلامی تحریک حزب اللہ سے نہ لڑنے کی باتیں کررہا ہے، حزب اللہ کا عسکری ونگ جدید میزائلوں سے لیس ایک بڑا ونگ ہے، جس نے اسرائیل کو اس کی زبان میں جواب دیا ہے، خطہ عرب وفارس کی صورتحال تبدیلی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ امریکہ بھی اب خطہ عرب سے اپنا بوریا بستر لپیٹ رہا ہے۔ شام میں اسے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوئے، جس کی امریکی توقع کررہے تھے۔ایران و سعوی عرب کے اچھے تعلقات میں اہم موڑ آنے والے ہیں، دونوں ملکوں کے حکام رابطے میں ہیں۔ سعودی عرب کے ولی عہد نئی سوچ و فکراورنئے عزم کے ساتھ سامنے آئے ہیں جو ایک بڑی خوشگوارتبدیلی ہے۔

ایران سعودی عرب کے اچھے تعلقات کو نظر نہ لگی تو عرب دنیا پر طویل عرصہ سے خطرے کی لٹکی تلوار کا دور اپنے آخری مراحل میں ہے، دونوں ملکوں کے درمیان جلد سفارتی تعلقات بحال ہونےوالے ہیں، اصولی طور پر اس دوستی کے لیے ایران نے پہل کرکے یہ پیغام دیا ہے کہ وہ مسلم امہ اور اس کی وحدت کے لیے مسلم دنیا کو متحد کرناچاہتا ہے۔ سعودی عرب کی خواہش تھی کہ ایران دوستی کے عمل میں پہل کرے اور شام اور یمن میں امن کے قیام کے لیے آگے آئے سوایسا ہی کیا گیا ہے۔ ایران نے کہا ہے کہ وہ یمن میں حوثیوں کی مدد نہیں کر رہا بلکہ یمن میں قیام امن کے لیے وہ سعودی عرب کے ساتھ ہے جب کہ شام میں ایرانی حکمرانوں نے واضح کیا ہے کہ وہاں امریکہ کی مداخلت بند ہونی چاہیے، خطے میں ابھرنے والی تنظیم داعش کے خلاف ایران نے واضح کیا ہے کہ یہ نو گیارہ پارٹ ٹو ہے، اس سے عالم اسلام اور مسلمانوں کو نقصان ہوگا۔ حالات نے بھی یہ ثابت کیا ہےکہ داعش وہ کھیل کھیل رہی ہے جو امریکہ کو مقصود ہے ایسے میں ایران سعودی ملاپ خطے میں ایک اہم پیش رفت ہے جسے سراہا جانا چاہئے۔ خطے میں جس بدامنی کا خطرہ ہے اس سے نہ یورپ نہ ہی عرب دنیا نہ ہی ایران محفوظ رہیں گے بلکہ اس نئی جنگ کی لپیٹ میں سب آجائیں گے۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ خطے میں ہونے والی اس نئی جنگ کا آغاز کہاں سے ہوگا اور کہاں ختم ہوگی اور امریکہ کس کس کو چین کی آڑ میں نشانہ بنائے گا؟ یہ ایک بڑا سوال ہے جو ذہنوں میں جنم لے چکا ہے۔ ایران اور سعودی تعلقات اگر صحیح سمت میں بڑھے تو امید ہے امریکہ خطے میں وہ نتائج حاصل نہیںکرسکے گا جو اسے مطلوب ہیں۔

ایران نے سعودی عرب کے ساتھ اپنے اسلامی رشتے کو مضبوط بنانے کے لیے جس فراخدلی کا ثبوت دیا ہے وہ ایک مثال ہے، آنے والے دنوں میں ایران اور سعودی عرب خطے میں بڑا اہم کردار ادا کرنے والے ہیں۔ امریکہ کی عرب دنیا پر گرفت کمزور ہوتی نظر آرہی ہے ورنہ عراق سے لے کر شام تک امریکہ نے عرب قوم کے ساتھ جو سلوک کیا ہے وہ عرب دنیا کی تاریخ کا اہم اور سنگین باب ہے، ایران اپنے اوپر لگی پابندیوں کے باوجود اپنے نیوکلیئر سسٹم سے ذرا برابر بھی دستبردار ہونے پر آمادہ نہیں لیکن اس نے جس استقامت کے ساتھ اپنے ملک کے عوام کو بہت زیادہ آزمائش کا شکار نہیں ہونے دیا، اسرائیل کے خلاف جس دلیری سے ایرانی قوم نے اپنے اتحاد کا مظاہرہ کیا ہے،وہ بھی ایک مثال ہے۔ آدھی دنیا سے ایران کے رشتے ختم کرائے گئے لیکن ایران اپنے اصولوں پر قائم رہا یہ بات اہم ہے کہ عرب دنیا ایران کے اس کردار کو سراہتی ہے۔

سعود عرب کا ایران سے دوستی کے لیے ہاتھ بڑھانا بتا رہا ہے کہ خطے میں اب کسی بھی سپر پاور کو مداخلت سے روکا جائے گا۔ ایران سعودی تعلقات وقت کی اہم ضرورت ہیں۔ایران پاکستان اور سعودی عرب مل کر اس خطے میں امن کے قیام کے لیے مختصر وقت میں کامیابی حاصل کرسکتے ہیں ،اس سے امریکہ اور چین کے جنگی ماحول کو بھی ختم کیا جا سکتا ہے۔ سعودی عرب، ایران اورپاکستان امریکہ اور چین کے درمیان تنائو ختم کرانے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

تازہ ترین