• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عجائبات کبھی ختم نہیں ہوتے۔ ان کا ورود جاری رہتا ہے۔ اب تو ان کا تسلسل اس قدر ہے کہ ہم دم سادھے انہیں رونما ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ ہرروزاس سے کہیں زیادہ عجائبات سامنے آتے ہیں جن کی ہم تاب رکھتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں ہم عجائبات کو روزمرہ کے واقعات کے طور پر دیکھیں اور ان پر حیران ہونا چھوڑ دیں۔

ایسا لگتا ہے جیسے وزارت عظمیٰ کے شکار کا سیزن ایسے کھلا ہے جیسے بطخوں کے شکار کا سیزن ہوتا ہے۔ بہرحال ہم بطخوں کو بندوق کی طرف اُڑتے نہیں دیکھتے۔ اب ایسا لگتا ہے جیسے وزرائے اعظم کوپاس مل چکے ہیں کہ وہ بندوقوں کے اُوپر اُڑان بھر سکتے ہیں۔وہ یکے بعد دیگرے خود کشی کی حماقت کررہے ہیں۔ لوگ اس کے عادی ہوجائیں گے۔ حکومت مخالفین خود کو دوسرے سے زیادہ پارسا سمجھتے ہوں گے۔ اس رویے کو معمول سمجھا جائے گا۔ کہا جائے گاکہ یہاں ایسا ہی ہوتا ہے اورپھر اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ لیکن فرض کریں تہذیب اسی طرح تبدیل ہوتی ہے اورزمانے کا یہی چلن ہے۔

ایک وہ وقت تھا جب کسی وزیر اعظم کے لیے ایک عورت کے ساتھ شادی کے بغیر رہناناقابل قبول ہوتاتھا۔ آج برطانیہ میں یہ معمول کی بات ہے۔ سچ کہوں تو کسی کو پروا نہیں ہے لیکن وہ جس چیز کی پروا کرتے ہیں وہ ہے کہ ان کا وزیر اعظم اچھا کام کر رہا ہے اور اگر وہ کچھ سماجی اصول توڑتا ہے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہ جس چیز سے تنگ آچکے ہیں وہ ان طاقتوروں کی منافقت ہے جن کے زبانی دعوئوں اور عمل میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ وہ کہتے کچھ، کرتے کچھ اور ہیں۔ پاکستان میں ہم مشکل بیانیے کو بدلنے میں ماہر ہیں۔ لیکن نظام بدلنے کی باتیں ہمارا نعرہ بن چکی ہیں۔ ’’یہ سارا قصور سسٹم کا ہے‘‘ کا نقارہ بلندہوتا جارہا ہے۔

اب کسی نے بیانیہ کو تبدیل کرنے کیلئے صدارتی نظام کی پھلجھڑی چھوڑدی ہے۔ نوآبادیاتی ذہنیت پر مبنی موجودہ پارلیمانی نظام اور جاگیرداری پر مبنی پرانے طاقت کے ڈھانچے، اور بعد میں ٹریڈ یونین ازم کے ساتھ مفاد ات میں شراکت داراب پوری شدومد سے اس کی مخالفت کررہے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ صدارتی نظام کے حامی دراصل آمریت کے مہرے ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ ہم نے صدارتی نظام کو بار ہا آزما کر دیکھا لیکن یہ کامیاب نہ ہوا۔ یہ بھی منافقت کی انتہا ہے، کیونکہ وہ ’’کئی بار‘‘ مارشل لا کے دور تھے۔ اس لیے انہیں صدارتی نہیں بلکہ آمرانہ نظام کہا جانا چاہئے۔

صدارتی نظام میں پارلیمانی نظام کی طرح اگر زیادہ نہیں تو بھی کسی قدر چیک اینڈ بیلنس ہوتا ہے۔ لیکن یہ لوگ ہمیشہ ایسے نظام کی حمایت کریں گے جو پہلے سے مراعات یافتہ طبقے کو مزید فائدہ پہنچائے۔ اور مراعات یافتہ لوگ ہمیشہ جاگیرداراورصنعت کارہوتے ہیں۔ بینک، سروس سیکٹر اور بیوروکریسی بھی ان کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ دونوں نظاموں میں وہی ڈھانچے موجود ہیں تو اس پر بحث کیا ہے؟ ہم صدر کو چلتا نہیں کر سکتے کیونکہ اس نظام میں عدم اعتماد کے ووٹ جیسی کوئی چیز نہیں ہے۔

وہ ہمیشہ صدارتی نظام میں پارلیمنٹ کی طرف سے ظاہر کئےگئے عدم اعتماد کو شامل کرکے تبدیلی لا سکتے ہیں تاکہ چیف ایگزیکٹو مستقل طور پر اپنے کام پر توجہ نہ دے سکے۔ صدارتی نظام صدر کو پارلیمنٹ کے باہر سے اپنی ٹیم کا انتخاب کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ ہمارے موجودہ پارلیمانی نظام میں وزیر اعظم بھی وزارتی عہدے کے پانچ خصوصی مشیر اور لامتناہی خصوصی معاونین کا تقرر کر سکتا ہے۔ میںاس اخبار کے صفحات سے اکتوبر 1991میں صدارتی نظام کے بارے میں کھل کر بات کرنے والوں میں سے ایک تھا۔ اس پر مجھے کافی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ اب زیادہ تر لوگ میرے نقطہ نظر کو اپنا رہے ہیں۔لیکن میں دو دہائیوں کے غور و فکر کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ دونوں نظاموں میں کام کرنے کا زیادہ موقع نہیں ہے۔ ان میں اہمیت اُن افراد کو حاصل ہے جو یہ نظام چلائینگے۔ اسلئے ہمیں درحقیقت نظام کی تبدیلی کی نہیں بلکہ عوام کی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ گویا لوگ بہتر اقدار، بہتر اصول، بہتر طور طریقے اپنا کر خود کو تبدیل کرسکتے ہیں۔

کسی نے سوچا ہو گا کہ لوگ خود بخود اسلامی اصول اپنا چکے ہوں گے کیونکہ وہ منافقانہ طور پر اپنے آپ کو اسلامی ریاست کہتے ہیں لیکن ایک بار پھر یہ ہماری منافقانہ روش میں ہی اضافہ ہے۔ ہمارے پاس ایک اسلامی ریاست ہے جہاں اسلامی اصولوں کے چلنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ توجواب یہ ہے: دوبارہ بنیادی امور پر واپس جائیں اور اپنے نظام کو اسلامی اصولوں کے مطابق بنائیں۔ آپ اسے مغربی لبرل جمہوری اصولوں سے زیادہ جدید پائیں گے۔ آپ کو کم از کم اسے آزمانا ہوگا اس سے پہلے کہ آپ چیخیں کہ ہمایوں گوہر پاگل ہوگیا ہے۔ مجھے ان لوگوں پر ہنسی آتی ہے جو کہتے ہیں کہ اسلام میں جمہوریت نہیں۔ یہ سیانے پہلے بتائیں کہ جمہوریت کیا ہے؟ مغربی انسانی حقوق کا اعلامیہ اسلامی اصولوں پر کیوں ہے؟

لہٰذا ایسے بیانات دینا کہ اسلام میں جمہوریت نہیں، صرف اپنی کم علمی اور جہالت کو ظاہر کرنا ہے۔ ہمیں کم از کم بیانیے کی حد تک تو جہالت کی بجائے علم کا دامن تھام لینا چاہئے۔ اگر ہم ایسا کرتے ہیں تو آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ ایک بہتر نظام خود بخود آپ کے ہاں رائج ہوجائے گا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین