کراچی کو بین الاقوامی شہر ہونے کا اعزاز حاصل ہے یہ دنیا کے بہت سے ممالک کی مجموعی آبادی سے بھی بڑا شہر ہے، روزانہ لاکھوں افراد ایک مقام سے دوسرے مقام کا سفر کرتے ہیں، سڑکوں پر اکثر ٹریفک جام رہتی ہے ، شہری عموماََ گھنٹوں کے حساب سے ٹریفک میں پھنسے رہتے ہیں ،جس کے باعث نہ صرف ان کا قیمتی وقت بلکہ ایندھن بھی ضائع ہوتا ہے اگر کسی سڑک پر کوئی حادثہ پیش آجائے تو سارا دن اس سڑک پر ٹریفک کی روانی گھنٹوں بحال نہیں ہوتی، کہیں کوئی احتجاج یا جلوس نکل جائے تو اس علاقے میں بھی ٹریفک گھنٹوں جام رہتا ہے یا پھر سارا دن ٹریفک کو معمول پر لانے میں گزر جاتا ہے۔
کراچی کی سڑکوں پر لاکھوں کی تعداد میں موٹر سائیکلیں اور کاریں دوڑتی نظر آتی ہیں، نہ صرف یہ بلکہ ، رکشے، چنچی رکشے اپنی گنجائش سے کہیں زیادہ مسافروں کو لے کر غیر محفوظ انداز میں سفر کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ وہی کراچی ہے جہاں ایک زمانے میں پبلک ٹرانسپورٹ کے حوالے سے مناسب سہولیات دستیاب تھیں۔
ایک طرف ٹرام سروس تو دوسری جانب بڑی بسیں مسافروں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جا رہی ہوتیں، کراچی سرکلر ریلوے کے ذریعے کراچی کے شہریوں کو سفر کی سہولیات مہیا تھیں ، بعض جگہوں پر خوبصورت بگھیوں کے ذریعے بھی سفر ہوتا تھا ، صدر کے علاقے میں اسکول کے بیشتر طلبا و طالبات بگھی کے ذریعے ہی اسکول جاتے تھے، دوپہر کے وقت یہی بگھیاں ان بچوں کو ان کے گھروں میں پہنچاتی تھیں، پھر کراچی ٹرانسپورٹ کمپنی (KTC) کے ذریعے بڑی تعداد میں سرکاری بسیں چلائی گئیں جو کراچی کے کئی روٹس پر چلا کرتی تھیں۔ اس ہفتے جانتے ہیں کہ کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کے کون کون سے منصوبے شہریوں کو دستیاب رہے۔
ٹرام سروس
کراچی میں سب سے پہلی ٹرام 1885ء میں چلنا شروع ہوئی جو بھاپ سے چلتی تھی، یہ ایک چھوٹی ریل نما سفری گاڑی تھی جو پٹڑیوں پر چلا کرتی تھی اور اس میں بیک وقت 60 سے 70 افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہوتی تھی، مسافروں کے بیٹھنے کے لئے چاروں اطراف سیٹیں تھیں، جبکہ درمیان میں مسافروں کو کھڑے ہو کر سفر کرنے کی جگہ میسر ہوتی تھیں، ٹرام کی کھڑکیوں میں شیشے بلکہ بڑے بڑے ہوادان ہوتے تھے جو ہنگامی حالات میں ٹرام سے نکالنے کا بھی کام دیتے تھے۔
اس کی ایک خاص بات یہ تھی کہ ڈرائیور کے لئے کوئی الگ سے ڈرائیونگ سیٹ نہیں تھی وہ بالکل اگلے حصے میں کھڑے ہو کر ایک ہاتھ سے گھنٹی بجا تا رہتا اور دوسرے ہاتھ سے پٹڑی پر چلنے والے لوگوں کو ہٹانے کا اشارہ کرتا، کرایہ دس پیسہ تھا ۔ ابتداء میں ٹرام کیماڑی سے ایم اے جناح روڈ تک چلا کرتی تھی ، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسے سولجر بازار اور کینٹ اسٹیشن تک بڑھایا گیا، ایک ٹریک نشتر روڈ سے ایمپریس مارکیٹ تک بھی بنایا گیا ، مسافر کو گرومندر سے ٹاور جانا ہو یا کینٹ اسٹیشن سے ٹاور یا صدر آنا ہو تو اس کا کرایہ دس پیسہ ہی تھا۔
اس زمانے میں بسیں اور کوچز نہیں ہوتی تھیں اکثر لوگ ٹرام سے ہی سفر کیا کرتے تھے، ایک سال بعد یعنی 1986 ء میں اس کی جگہ ہارس ٹرام نے لے لی جسے گھوڑے کھینچا کرتے تھے۔ 1905 ء میں پہلی بار برطانوی حکومت نے ایسٹ انڈیا ٹرام ویسٹ کمپنی کے ذریعے پیٹرول سے چلنے والی ٹرام متعارف کرائی ،جس کی پہلی ٹرام کا نمبر 94 تھااور 1909 ء تک گھوڑوں سے چلائی جانے والی ٹرام کو مکمل طور پر بند کرکے پیٹرول سے چلنے والی ٹرام میں تبدیل کردیا گیا، اس کے لئے نئے ٹریک بھی تعمیر کئے گئے، یہ ٹرام ڈاکس سے چلا کرتی اور ایمپریس مارکیٹ تک آیا کرتی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں مزید اضافہ کیا گیا اور ٹرام کے ٹریک کی کل لمبائی 10 میل تک چلی گئی۔ 1945 ء میں ٹرام کے لئے ڈیزل انجن متعار ف کرایا گیا۔
1949ء میں محمد علی کمپنی نے اس سروس کو سنبھال لیا۔ ٹرام میں سفر کرنے کے کچھ اصول بھی طے تھے مسافروں کو بھاری بھر کم سامان لے جانے کی اجازت نہیں البتہ چھوٹا موٹا سامان یا بیگ جسے گود میں لے کر سفر کرسکتے تھے، اپنے ساتھ رکھ سکتے تھے ۔ ٹرام سروس کا یہ سلسلہ بھی 1975ء میں مکمل طور پر بند کردیا گیا۔
ٹرام سروس کو ایک بڑا نقصان بس کمپنیوں نے پہنچایا جو کراچی کی سڑکوں پر نظر آنے لگی تھیں، جن کے روٹ بھی الگ الگ تھے اور وہ کراچی کے مختلف حصوں سے روانہ ہو کر ٹاور تک آیا کرتی تھیں، یہ ٹرام سروس کے مقابلے میں کہیں زیادہ تیز رفتار تھیں ، یوں دیکھتے دیکھتے ٹرام سروس تاریخ کا حصہ بن کر رہ گئی۔
کراچی سرکلر ریلوے
کراچی میں ٹرام سروس بند ہونے کی ایک وجہ بھی سرکلرریلوے بھی بنی کہ 1969ء میں حکومت نے 14 ٹرینوں پر مشتمل کراچی سرکلر ریلوے متعار ف کردی جو کہ ٹرام سے کہیں زیادہ تیز رفتار تھی ،اس کی خدمات کا دائرہ بھی وسیع تھا، ان ٹرینوں کے ذریعے لوگ کراچی کے مختلف حصوں سے سفر کرنے لگے۔ پہلے مرحلے میں مین لائن چینسر ہالٹ ، کارساز، ڈرگ روڈ، ایئرپورٹ، ملیر کالونی، لانڈھی اور دوسری جانب ملیر ہالٹ سے ماڈل کالونی اور ملیر کینٹ ریلوے اسٹیشن تک لوکل ٹرینیں چلائی گئیں۔
دوسرے مرحلے میں سرکلر ٹرین ڈرگ کالونی سے ہوتی ہوئی کراچی یونیورسٹی ، گیلانی ریلوے اسٹیشن، لیاقت آباد، ناظم آباد، اورنگی ، منگھوپیر، سائٹ ،بلدیہ ،لیاری اور وزیر مینشن تک چلائی گئی، اس کے بعد اس کا دائرہ کار بڑھایا گیا اور 1970ء میں کراچی پورٹ ٹرسٹ اور کراچی سٹی تک سرکلر ریلوے چلنے لگی۔
سرکلر ریلوے کے ذریعے کراچی کے شہری بڑی تعداد میں سفر کرتے تھے لیکن پھر 1995ء میں کرائے میں اضافے اور گاڑیوں کی تعداد کم ہونے کے باعث مسافروں کی تعداد کم ہوتی گئی اور 1999ء میں سرکلر ریلوے کو بند کردیا گیا، یوں شہری ایک بار پھر سرکلر ریلوے کو دوبارہ شروع کرنے کا انتظار کرنے لگے۔
ایک زمانے میں کراچی کے مضافاتی علاقوں سے سٹی اسٹیشن آنے کا سب سے تیز رفتار سستا اور محفوظ ذریعہ سرکلر ریلوے تھا، صبح کے اوقات میں پپری اور لانڈھی سے ہر دس سے پندرہ منٹ بعد ریلوے گاڑی چلتی اور ہر اسٹیشن پر اس کا اسٹاپ ایک سے دو منٹ تک کا ہوتا ،پینتالیس منٹ میں سٹی اسٹیشن پہنچ جاتی تھی۔
27 ستمبر 2021 ء کو کینٹ اسٹیشن پر وزیراعظم پاکستان عمران خا ن نے ایک بار پھر کراچی سرکلر ریلوے کا سنگ بنیاد رکھا اور افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا، کراچی سرکلر ریلوے سے صرف کراچی کو نہیں بلکہ پورے ملک کو فائدہ ہوگا، کے سی آر کا ٹریک 33 کلو میٹر طویل ہوگا اور اس پر 33 اسٹیشنز بنائے جائیں گے، یہ منصوبہ 24 ماہ میں مکمل ہوگا، اس کے بعد پانچ لاکھ مسافر روزانہ مستفید ہوسکیں گے اور اس پر 250 ارب روپے کی لاگت آئے گی، کراچی سرکلر ریلوے کا سنگ بنیاد رکھے ہوئے 17 ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن کام کی رفتار انتہائی سست ہے جس کے باعث یہ بات سمجھی جاسکتی ہے کہ کے سی آر کا منصوبہ دیئے گئے وقت میں کسی بھی صورت مکمل نہیں ہوسکتا۔
کراچی ٹرانسپورٹ کارپوریشن
شہریوں کو پبلک ٹرانسپورٹ مہیا کرنے کے لئے یکم فروری 1977ء میں کراچی ٹرانسپورٹ کارپوریشن قائم کی گئی اور اس کا 200 بسیں شہر کی مرکزی سڑکوں پر چلائی گئیں۔ کراچی ٹرانسپورٹ کے حوالے سے حکام کی جانب سے کہاگیا کہ کراچی میں مسافروں کی تعداد دو ملین سے بڑھ چکی ہے جن کے لئے مناسب تعداد میں پبلک گاڑیاں دستیاب نہیں ہیں ،جس کے باعث یہ کے ٹی سی کا آغاز کیا گیا ہے اور اس کے پہلے منیجنگ ڈائریکٹر کے طور پر بریگیڈیئر سید عبدالقاسم کو تعینات کیا گیا ہے، مجموعی طور پر کے ٹی سی کو 344 بسیں ملی جن میں 200رننگ کنڈیشن میں تھی ، 40 میں معمولی اور 10 بسوں میں زیادہ مرمت کا کام تھا جس کا مطلب تھا کہ مزید تاخیر کے بغیر 44 بسیں سڑکوں پر لائی جاسکتی تھیں، البتہ 100 بسیں روٹ پر لانے کے لئے زیادہ اچھی حالت میں دستیاب نہیں تھیں۔
اس وقت کے وزیر مواصلات ممتاز بھٹو نے کہا تھا کہ کراچی ، اسلام آباد، لاہور ٹرانسپورٹ کارپوریشنز کے لئے 300 نئی بسیں لائی جا رہی ہیں جس سے کے ٹی سی کے موجودہ فلیٹ کو بہتر بنایا جاسکے گا، جن روٹس پر کے ٹی سی کی بسیں چلنا تھیں ان کی منظوری حکومت نے دینا تھا جس کے لئے رعایتی کرائے بھی طے کئے گئے تھے تاکہ اس سروس کو عام شہریوں کے لئے آسان بنایا جائے، یہ سسٹم کراچی میں تیزی سے پھیلتا گیا ، ورکنگ کلاس اور تنخواہ دار گھرانوں کے لئے کے ٹی سی کی بسیں پہلا انتخاب ہوا کرتی تھیں، یہ نہ صرف دفاتر جانے والوں کے لئے بلکہ کالج اور یونیورسٹیز کے طلبا ء کے لئے بھی انتہائی موزوں تھیں، طلباء و طالبات کو اپنے ادارے کا تعلیمی کارڈ دکھانے سے ان بسوں کے کرائے میں خصوصی رعایت دی جاتی تھی۔
بسوں کی دیکھ بھال اور مرمت کے لئے 8 ڈپو بنائے گئے تھے، کورنگی روڈ پر ان کا ایک بہت بڑا ڈپو واقع تھا جہاں رات کے اوقات میں یہ بسیں پارک بھی کی جاتی تھیں۔ کے ٹی سی کو نومبر 1986 ء میں 2.77 ملین روپے اور دسمبر 1986 ء میں 2.72 ملین روپے کے نقصانات ہوئے اور پھر ماہانہ 6.5 ملین روپے نقصان ہونے لگا، کے ٹی سی کی ہر بس یومیہ تقریبا600روپے کما کر دیتی تھی جبکہ اسی دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ نجی بسیں روانہ تقریباً دو ہزار روپے کما کر دے رہی ہیں، ہر ماہ ہونے والے نقصانات کے باعث آخر کار یہ بسیں سڑکوں پر آنا بند ہوگئیں اور شہری ایک بار پھر پبلک ٹرانسپورٹ سے محروم ہوگئے۔
منی بسیں ، کوچز اور پیلی ٹیکسی سروس
کے ٹی سی کی بسیں بند ہونے کے باعث کراچی کی سڑکوں پر تعداد میں منی بسیں ، کوچزاور پیلی ٹیکسی سروس کراچی کی سڑکوں پر بڑی تعداد میں آگئیں اور ہر روٹ پر چلنے لگی، دوسری جانب اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے پیلی ٹیکسی اسکیم شروع کی۔یہ ٹیکسی خریدنے کے لئے بینکو ں نےقرضہ فراہم کرنا شروع کئے جس سے لوگوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور بہت کم وقت میں ہزاروں کی تعداد میں پیلی ٹیکسیاں سڑکوں پر نظر آنے لگیں۔
ان ٹیکسیوں کا کرایہ بھی بہت زیادہ تھا اور اکثر سفید پوش لوگ انہیں استعمال کرنے سے قاصر تھے تاہم رات کے اوقات میں یا شادی بیاہ کی تقریبات میں جانے کے لئے شہری پیلی ٹیکسی کے ذریعے ہی سفر کرتے تھے، زیادہ کرایہ ہونے کے باعث شہریوں نے منی بسوں کا رخ کیا اور مختلف ناموں کی کوچز میں سفر کرنے لگے ۔ منی بسوں اور کوچز کے پوری کراچی میں اپنے روٹس بنائے گئے اور لاکھوں کی تعداد میں شہریوں کو ایک مقام پر دوسرے مقام پر لے جانے لگی، بعض جگہیں جن میں ایئرپورٹ ، ریلوے اسٹیشنز شامل تھے وہاں صرف ٹیکسیوں کا ہی داخلہ ممکن تھا، اس لئے ان جگہوں کے لئے شہری ٹیکسیوں کا انتخاب کرتے اور باوجود ان کا کرایہ زیادہ ہونے کے ان میں سفر کرتے ۔
سی این جی بس سروس
2007-08 ء میں 33 کروڑ کی خطیر لاگت سے ماحول دوست سی این جی بسیں خریدی گئیں، اس وقت کی وفاقی حکومت نے کراچی میں ماس ٹرانزٹ پروگرام کے تحت کراچی کے شہریوں کو ٹرانسپورٹ کی مناسب سہولتیں فراہم کرنے کی غرض سے دو ہزار سی این جی بسیں سڑکوں پر لانے کا منصوبہ بنایا اور اس کی منظوری اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف سے حاصل کی گئی۔
وفاقی حکومت نے نہ صرف کراچی میں چلنے والی سی این جی بسیں خرید کردینی تھی بلکہ سی این جی بسوں کو چلانے والی کمپنی یا ٹھیکیدار کو سالانہ سبسڈی بھی فراہم کرنا تھی اور اس کے لئے شہری حکومت کو ساڑھے 5 ارب روپے فراہم کرنا تھے، تاہم 2009 ء تک وفاقی حکومت کی جانب سے منصوبے پر عملدرآمد نہ ہونے کے بعد اس وقت کے سٹی ناظم سید مصطفی کمال نے شہری حکومت کے اپنے وسائل سے اس منصوبے کو ابتدائی طور پر شروع کرنے کے احکامات جاری کئے، کراچی کے دو روٹس سرجانی ٹائون تک ٹاور اور اورنگی ٹائون تا ملیر بسیں چلانے کے لئے 44 لاکھ روپے فی بس کے حساب سے 50 بسیں خریدی گئیں جن میں سے 25 مقامی کمپنی جبکہ 25 غیر ملکی کمپنی سے خریدی گئی تھیں۔
ان کا کرایہ ابتدائی طور پر 12 روپے تا 15 روپے رکھا گیا اور اس کے لئے ای ٹکٹ سسٹم بھی نافذ کیا گیا، دونوں روٹس پر درجنوں مقامات پر بس اسٹاپس تعمیر کئے گئے اور سرجانی ٹائون اور اورنگی ٹائون میں بس ٹرمینل تعمیر کئے گئے۔ پورے منصوبے پر کروڑ وں روپے لاگت آئی اور دو سال تک گرین بس سروس کامیابی سے چلتی رہی لیکن پھر سالانہ 5 کروڑ روپے سبسڈی کی صورت میں شہری حکومت کو نقصان اٹھانا پڑا،جس کے بعد یہ منصوبہ بھی بند ہوگیا، سرجانی ٹاؤن اور اورنگی ٹاؤن میں قائم ٹرمینل پر اب یہ بسیں کھڑی ہیں۔
ماہرین ٹرانسپورٹ کے مطابق، جس طرح ماضی میں کراچی ٹرانسپورٹ کارپوریشن اور سندھ روٹ ٹرانسپورٹ کارپوریشن اور سی این جی گرین بس پروجیکٹ کو حکومت کی جانب سے سبسڈی فراہم کی جاتی رہی ہے اسی طرح دوبارہ سی این جی گرین بس پروجیکٹ کے لئے رقم مختص کرکے اس منصوبے کو دوبارہ شروع کیا جاسکتا ہے، مجموعی طور پر 33 کروڑ روپے کی لاگت سے خریدی گئیں یہ بسیں اب خراب حالت میں بس ٹرمینل پر کھڑی ہیں۔
گرین لائن بس سروس
9 جنوری 2022 ء سے کراچی میں گرین لائن بس مکمل فعال کردی گئی،21 کلو میٹر طویل ٹریک پر 80 بسیں صبح سات بجے سے رات دس بجے تک چلائی جا رہی ہیں، سندھ انفراسٹر کچر کمپنی اس آپریشن کو چلا رہی ہے ، 80 بسیں تمام اسٹیشنوں پر اسٹاپ کریں گی ، کرایہ 15 روپے سے 55 روپے رکھا گیا ہے، ان بسوں میں ڈیڑھ سو مسافروں سفر کریں گے، گرین لائن بس سروس کراچی کے شہریوں کو اب دن بھر سفری سہولت فراہم کرے گی، کراچی میں ریپڈ ٹرانزٹ منصوبے کے تحت پانچ روٹس کی منصوبہ بندی 2014 ء میں شروع کی گئی تھی۔
گرین لائن کا تعمیراتی کام 2016 ء میں شروع ہوا تھا، ابتدائی منصوبے کے مطابق گرین لائن کا روٹ سرجانی ٹائون سے بزنس ریکارڈ روڈ تک تھا اور منصوبے کو چھ ارب روپے کی لاگت سے مکمل کرنا تھا، تاہم بعد میں منصوبے کے روٹ کو پہلے جامعہ کلاتھ اور پھر ٹاور تک بڑھا دیا گیا، اس طرح منصوبے کی لاگت بھی 27 ارب روپے سے زائد ہوگئی ہے۔
گرین لائن کے روٹس پر اب تک 22 اسٹاپس بنائے گئے ہیں اور ان بس اسٹاپوں پر مسافروں کی سہولت کے لئے لفٹس اور بزرگ اور خصوصی افراد کے لئے ویل چیئر اور ریمپس بنائے گئے۔ شہریوں نے کرایوں میں کمی کا مطالبہ کیا ہے، خاص طور پر طلبا و طالبات کے لئے ان بسوں میں خصوصی رعایت ہونی چاہئے تاکہ یہ طلبا و طالبات اپنی تعلیمی ضروریات کے لئے سفری سہولیات سے فائدہ اٹھا سکیں۔
اکتوبر2021 ء میں گرین لائن کوریڈور کے لئے 250 جدید سہولتوں سے آراستہ جدید بسیں کراچی پہنچی تھیں اور آپ کو یاد ہوگا کہ 25 دسمبر 2021 ء وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان نے کراچی تشریف لا کر گرین لائن بس سروس کا افتتاح کیا تھا ۔
اورنج لائن
حکومت سندھ اس پروجیکٹ کے لئے اپنے وسائل استعمال کر رہی ہے ۔یہ منصوبہ 4.7 کلو میٹر طویل کوریڈور پر مشتمل ہے جو ٹائون میونسپل آفس اورنگی ٹائون سے بورڈ آفس ناظم آباد تک تعمیر ہوگا، یہاں سے یہ آر بی ٹی گرین لائن پروجیکٹ سے جوڑ جائے گا، ایک اندازے کے مطابق اس بس سروس منصوبے سے روزانہ 50 ہزار مسافر سفر کرسکیں گے، اس منصوبے پر 1.2 ارب روپے لاگت کا تخمینہ ہے، گرین لائن اور اورنج لائن منصوبوں کو بورڈ آفس چورنگی پر تعمیر کئے جانے والے انٹرچینج سے ملا دیا جائے گا۔
ریڈ لائن
حکومت سندھ نے کراچی میں گزشتہ آٹھ سال سے التواء کا شکار ریڈ لائن بس منصوبہ شروع کرنے کا آخر کار اعلان کردیا ہے۔ منصوبے کے آغاز میں تمام رکاوٹیں دور کرلی گئی ہیں، یہ منصوبہ 78 ارب روپے کی خطیر لاگت سے شروع ہوگا، اس منصوبے کے لئے ایشیائی ترقیاتی بینک اور دیگر انٹر نیشنل ڈونرز نے فنڈنگ کی ہے۔
کراچی ریڈ لائن ماس ٹرانزٹ بس پاکستان میں اپنی نوعیت کا پہلا اور منفرد منصوبہ ہے، یہ کوریڈور ملیر ہالٹ سے نمائش تک تعمیر کیا جائے گا، 26 کلو میٹر طویل ریڈ لائن بی آر ٹی میں 24 اسٹیشن بنائے جائیں گے اور اس میں 213 بسیں چلائی جائیں گی، ریڈ لائن میٹرو بس کے لئے بھینس کے گوبر سے ایندھن بنایا جائے گا، بھینس کالونی کراچی میں بائیو گیس پلانٹ لگا کر یومیہ 20 ہزار کلو گیس پیدا کی جائے گی، ریڈ لائن بی آر ٹی کے روٹ پر ڈرینیج لائن کے ساتھ ساتھ سڑکیں بھی تعمیر کی جائیں گی، ٹرانز کراچی کے سی ای او واصف جلیل ، پروجیکٹ ڈائریکٹر سجاد سرہند نے بتایا کہ اس کوریڈور کے لئے یوٹیلیٹی لائنوں کی منتقلی کا کام شروع کردیا گیا ہے۔
یلو لائن
کراچی میں سندھ ماس ٹرانزٹ اتھارٹی نے یلو لائن منصوبے پر کام شروع کردیا ہے ، عالمی بینک کی مالی معاونت کے ساتھ دائود چورنگی سے نمائش تک 26 کلو میٹر طویل کوریڈور تعمیر کیا جائے گا جس میں 4 کلو میٹر ایلیویٹڈ ، 16 کلو میٹر مختص راہداری اور 6 کلو میٹر شامل ہے جس میں دو بس ڈپو ،28 اسٹیشن، 2 فلائی اوورز، 9 انڈرپاسز تعمیر کئے جائیں گے، ایک دن میں 3 لاکھ مسافروں کو سفری سہولیات میسر آئیں گی۔
یلو لائن بی آر ٹی کے تجویز کردہ بس کا بیڑا 268 ڈیزل ہائی برڈ گاڑیوں پر مشتمل ہوگا منصوبے کی کل لاگت 437.9 ملین ڈالر ہے، اس کوریڈور کو مکمل سہولیات کے ساتھ آراستہ کیا جائے گا۔ امید کی جاسکتی ہے کہ ان منصوبوں کی تعمیر کے بعد کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کے مسائل حل ہوں گے اور کراچی کے شہریوں کو بھی عالمی سطح کی سفری سہولیات میسر آئیں گی جو کراچی کے شہریوں کا خواب بھی ہے اور اس کی تعبیر بھی۔