پروفیسر خالد اقبال جیلانی
حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ ایک ایسے مومن متقی صاحبِ کرامت اللہ کے ولی تھے جو 1192ء میں وحدتِ خداوندی،اسوۂ حسنہ ﷺ کے زادِ سفر کے ساتھ برصغیر پاک و ہند کی سرزمین پر انسانی خدمت ، انسانوں کی تربیت و اصلاح اور اُن کے قلب و روح کو نور تو حید سے منور اور اسوۂ حسنہ ﷺ سے مزین کرنے، اُن کے ظاہر و باطن کو برائی ، کددرت اور نفرت سے پاک کرکے برصغیر میں نیکی پیار محبت اور انسانی مساوات کے سفیر بن کر تشریف لائے۔
آپ کی ہندوستان آمد سے اس سرزمین پر بسنے والے مسلم، ہندو، سکھ، عیسائی، بدھ ہر دھرم ہر ذات ہر بولی کے بولنے والے مجبور، مظلوم ، ذات پات کے نظام ، اونچ نیچ کی چکی کے پاٹ تلے پسے ہوئے ، غربت اور بھوک کی جہنم میں چلنے والے، جہالت کے اندھیروں میں بھٹکتے ہوئے اور گمراہی کے سمندر میں ڈوبے ہوئے راجہ، مہاراجاؤں ، پنڈتوں کے رائج کردہ استحصالی نظام میں جکڑے ہوئے بے بس اور بدنصیب ہندوستانیوں کی قسمت جاگ اٹھی، دلچسپ بات یہ کہ 1192ء وہ سال ہے کہ جب برصغیر کی سر زمین پر ایک طرف شہاب الدین غوری نے اپنی فوجی قوت و طاقت کے زور اور بل پر خود کو ’’سلطانِ الہند‘‘ کہلوایا تو دوسری طرف اسی 1192ء کے کراماتی سال برصغیر کے مظلوم اور بدنصیب انسانوں نے خواجہ معین الدین چشتی ؒ کو اُن کی خداشناسی و خداپرستی ، انسان دوستی، غریب پروری اُن کی صورت کی خوبصورتی اسوۂ حسنہ کے سانچے میں ڈھلی سیرت کی پاکیزگی ، نیکی ، پارسائی، عاجزی، پیار محبت ، امن و عدم تشدد اور انسانی مساوات کی تعلیمات کی وجہ سے ’’سلطان الہند‘‘ اور ’’خواجہ غریب نواز‘‘ کہہ کر پکارا، کیوں کہ انہوں نے ہندوستان کے غیر مسلم غریبوں کو اسلام کی دولت اور انسانی عزت و احترم سے نوازا۔
خواجہ غریب نواز ؒنے ان تمام مظلوموں ، ظالمانہ نظام میں جکڑے ہوئے اپنے ہی جیسے اعلیٰ نسل اور اونچی ذات کے لوگوں کے دھتکارے ،ٹھکرائے ہوئے انسانوں کو اس طرح پیار و محبت اور شفقت سے سینے سے لگایا جس میں توحید و رسالت کا نور بھرا ہوا تھا اور پھر اپنے پاس آنے والے ہر انسان کو توحید و رسالت کی شمع سے روشن کر دیا۔ حضرت خواجہ معین الدین ؒ ان لوگوں پر ظلم کی تپتی دھوپ میں توحید کا بادل اور رحمت عالم کی گھٹا بن کر برس پڑے۔ خواجہ غریب نوازؒ برصغیر کے بت کدے میں تخت و تاج کی خواہش لےکر نہیں آئے تھے، بلکہ وہ اس خطے کو توحید کے نور اور رسالت کی ہدایت سے روشن کرنے آئے تھے۔
حضرت خواجہ غریب نوازؒ نے ہندوستان کی سرزمین میں توحید و رسالت کی تعلیمات پر مبنی تصوف کا جوبیج بویا، وہ ایسا پھلا پُھولا کہ پورے ہندوستان پر وحدانیت ، ہدایت ، محبت ، نیکی ، برداشت ، انسانی مساوات کے ایسے پھول کھلے کہ جن کی خوشبو سے آج پورا ہندوستان مہک رہا ہے۔
حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ نے شریعت اور تصوف کی تعلیمات کوصرف مسلمانوں تک محدود نہیں رکھا ،بلکہ توحید کی شمع اور اسلام کے نور سے بلاتفریق مذہب ہر انسان کو روشناس کرایا۔ حضرت معین الدین چشتی ؒ کی روحانی تعلیمات ، اخلاص کی جاذبیت ، وعظ و نصیحت کی شیریں مقالی، صورت کی کشش ، سیرت کی نرم مزاجی اور خوش اخلاقی و محبت کے باعث برصغیر کے تمام رہنے والے ہندو مسلم سب آپ کی عزت و احترام کرتے تھے۔
حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ اسلام کی لازوال تعلیمات رشد و ہدایت اور محبت و شفقت سے اس خطے کے لوگوں کی زندگیوں میں ایک انقلاب چاہتے تھے اور ان کے اندر روحانیت کی شمع فروزاں کرنا چاہتے تھے اپنی ہندوستان میں آمد کے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے اپنے دل کے دروازے ہر مذہب کے ماننے والوں کے لئے کھلے رکھے اور سب کو ایک اللہ کی عبادت اور انسانیت کی خدمت ، نیکی کرنے اور برائی سے بچنے کی تعلیم دی اوراس کام کے کرنے میں خواجہ صاحب نے کبھی یہ نہیں کیا کہ دوسرے مذاہب کے بانیوں اور اُن کے پیشواؤں کی بدگوئی یا برائی کرکے اپنے دین اسلام کی خوبی یا بڑائی بیان کریں، بلکہ صرف اسلام کی خوبیوں کو اجاگر کرتے۔ دوسری بات یہ کہ دیگر مذاہب کے جو لوگ بھی آپ کی انسان دوستی پر مبنی تعلیمات اور خدا پرستی کو دیکھ کر آپ کے دین اور آپ کی شخصیت کے قائل ہو جاتے تو آپ انہیں اپنے دل میں جگہ دینے کو ہر وقت تیار رہتے تھے ۔
حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ جس توحید کے داعی ، انسانی خدمت ، رواداری کے مبلغ تھے، وہ ہمیں آپ کی تعلیمات میں جابجا نظر آتی ہیں۔ آپ کی چند تعلیمات سے روشناسی اور آگہی حاصل کرنے کی سعی کرتے ہیں۔
اہل تصوف اور صوفیا کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ ’’ صوفی وہ ہے کہ جو موت کو پسند کرے، دنیا کے عیش و عشرت کو چھوڑ کر یاد الہٰی میں دل لگائے‘‘۔ اور فرمایا کہ جس شخص میں تین صفات ہوں سمجھ لو کہ اللہ اسے اپنا دوست رکھتا ہے۔ سمندر جیسی سخاوت۔آفتاب جیسی شفقت۔ زمین جیسی عاجزی۔فرمایا کہ نیک لوگوں کی صحبت نیکی کرنے سے بہتر ہے اور برے لوگوں کی دوستی برائی کرنے سے بھی بد تر ہے۔مزیدفرمایا کہ فقیر وہ ہے کہ جس کے پاس جو بھی کوئی حاجت لےکر آئے ،اسے کبھی خالی ہاتھ واپس نہ لوٹا ئے۔
حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ نے ارشاد فرمایا چار چیزیں نایاب ہیرے کی مانند ہیں ،ان کا برابر خیال رکھو، غربت میں اظہار دولت مندی ، بھوک میںاظہار سیری ، غم میں اظہارِ خوشی اور دشمن سے اظہار ِ دوستی۔
انسانیت کی خدمت کا درس دیتے ہوئے فرمایا کہ ’’ بھوکے کو کھانا کھلانا، غریبوں کی فریاد سننا اور حاجت پوری کرنا اور بھٹکے ہوئے کی مدد کرنا دوزخ کی آگ سے بچنے کا بہترین طریقہ ہے۔انسانی عزت و تکریم کا سبق پڑھاتے ہوئے فرمایا کہ ’’گناہ انسان کی شخصیت کے لئے اتنا نقصان دہ نہیں، جتنا اپنے بھائی کو ذلیل کرنا‘‘۔
اجتماعی قومی مفادات کو نقصان پہنچانے والے اور اشیائے ضرورت لوگوں سے روک لینے ، تنگی پیدا کرنے والوں کی مذمت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ’’ذخیرہ اندوز اور منافع خور اپنی قوم کے لئے ہلاک کر دینے والی بیماری کی طرح ہیں ،انہیں معاشرے سے مٹانا ہر انسان کا فرض ہے۔
آپ ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ ’’اگر فقیر ودرویش اپنے وظیفہ یا معمول میں مشغول و مصروف ہو اور ایسے کوئی ضرورت مند اپنی حاجت لےکر آجائے تو فقیر کے لئے واجب ہے کہ اپنا ورد وظیفہ یا معمول ترک کر کے پہلے اس ضرورت مند کی ضرورت پوری کرے‘‘۔
آپ نے اپنی ان تعلیمات پر اپنا عملی نمونہ لوگوں کے سامنے پیش کیا۔ اس کا اندازہ اس واقعے سے کیجئے کہ آپ نے اجمیر سے دہلی تک کا پیدل سفر بادشاہ سے ایک غریب کسان کا ایک کام کرانے کے لئے کیا۔ دہلی میں آپ نے اپنے خلیفہ دہلی کے بے تاج بادشاہ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ؒ کے ہاں قیام کیا، جب قطب الدین بختیار کاکیؒ نے حضرت خواجہ معین الدین ؒکی دہلی آمد کا مقصد سنا تو فرمایا کہ ’’ حضور آپ نے اس کام کے لئے اتنی زحمت اور سفر کی مشقت اٹھائی آپ نے مجھے حکم کر دیا ہوتا، میں بادشاہ سے اس کسان کا کام کرا دیتا۔
اس پر حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ نے ارشاد فرمایا کہ ’’قطب الدین تم نے میرے آقا حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد نہیں سنا کہ ’’جو شخص اپنے بھائی کی ضرورت پوری کرنے لئے چالیس قدم چلتا ہے، اللہ اسے چالیس سال کی عبادت کا ثواب عطا کرتا ہے۔ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ میں اس ثواب سے خود کو محروم رکھتا۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ تصوف کا بڑا مقصد انسانیت اور خلق خدا کی خدمت ہی ہے۔ شیخ سعدی نے بہت خوبصورت انداز میں تصوف کا مقصد بیان کیا ہے۔
طریقت بجز خدمت خلق نیست
بتسبیح و سجادہ و دلق نیست
یعنی تصوف تو انسانوں کی خدمت کا نام ہے۔ خدمت ِ خلق کے بغیر تصوف کی کوئی حقیقت نہیں، تصوف یہ نہیں کہ ہاتھ میں تسبیح ہو، جائے نماز کاندھے پر ہو اور گدڑی اوڑھی ہوئی ہو۔
جہاں تک خواجہ معین الدین چشتیؒ کی کرامات کا تعلق ہے تو ہر وہ کرامت مستند ہے جو قرآن و سنت کی کسوٹی پر پوری اترتی ہے، اس لئے کہ کرامت مافوق الفطرت ہوتی ہے، ماوارئے شریعت نہیں اور معجزہ ہو یا کرامت یہ اللہ نے اپنے انبیاء اور اولیاء کو عطا ہی توحید کے اثبات اور دین پر ایمان لانے کے لئے کیے تھے۔
افضل ترین عبادت…!
خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ نےفرمایا:روزِ محشر باری تعالیٰ فرشتوں کو دوزخ دہکانے کا حکم دے گا ، جب وہ دوزخ کو دہکانا شروع کریں گے تو دوزخ ایک ایسی سانس لے گی جس سے تمام محشر غبار آلود ہوجائے گا اور لوگوں کا دم گھٹنے لگے گا، لہٰذا جو شخص اس سخت روز کی مصیبت سے محفوظ رہنا چاہے،اسے چاہیے کہ ایسی عبادت کرے جو تمام عبادتوں سے افضل ہے، حاضرین نے جب دریافت کیا کہ وہ کون سی عبادت ہے؟ تو فرمایا کہ مظلوموں اور عاجزوں کی فریاد رسی کرنا، کمزوروں اور لاچاروں کی حاجت روائی کرنا، (اور )بھوکوں کو کھانا کھلانا۔
سادگی اور درویشی…!
خواجہ معین الدین اجمیریؒ کے فقیرانہ لباس میں دہرا بخیہ ہوتا تھا۔ اگر وہ پھٹ جاتا تو جس رنگ کا بھی کپڑا مل جاتا اسی کا پیوند لگالیا کرتے تھے، چناںچہ آپ کے لباس میں ایک ہی وقت میں تیس چالیس مختلف رنگ کے پیوند لگے دیکھے گئے ،کھانا بہت کم تناول فرماتے۔ ریاضت ومجاہدہ کے ابتدائی زمانے میں لگاتار روزے رکھتے اور صرف ایک چھٹانک آٹے کی ٹکیہ سے روزہ افطار کرتے۔ برابر صائم الدھر رہتے۔
ایمان اور نفاق کی پہچان…!
خواجہ غریب نواز ؒ نے فرمایا: اگر خدانخواستہ ذکرِ خدا سن کر یا قرآن کریم پڑھ کر دل نرم نہ ہو اور اعتقاد وایمان زیادہ نہ ہو، بلکہ(اس کے برعکس)وہ لہو ولعب (کھیل کود) میں مشغول رہے تو اہل سلوک(طریقت)کے یہاں یہ بڑے گناہوں میں سے ایک گناہ ہے، جو اس کے مطابق ہے وہ مومن ہے اور جو اس سے ہٹے ہوئے ہیں ،وہ منافق ہیں۔