سُروں کی ملکہ لتا منگیشکر پاکستانی گلوکارہ ملکہ ترنم میڈم نور جہاں کی بہت بڑی مداح تھیں، پاک بھارت سرحد پر دونوں لیجنڈز کی ملاقات کے بھی خوب چرچے رہے۔
لتا منگیشکر اور ملکہ ترنم نور جہاں کی دوستی کے چرچے سرحد کے دونوں اطراف رہے،جہاں ساری دنیا لتا جی کی دیوانی تھی وہیں وہ ملکہ ترنم نورجہاں کی مداح تھیں۔
تقسیم ہند کے بعد دونوں کی ملاقات نومینز لینڈ یعنی واہگہ بارڈر پر ہوئی، نور جہاں لتا کے لیے لاہور سے مٹھائی اور بریانی لائی تھیں۔
لتا منگیشکر کے ساتھ ان کی بہنیں آشا اور مینا بھی ساتھ تھیں، نور جہاں لتا جی کے بارے میں کہتی تھیں کہ وہ بہت اچھا گاتی ہیں، ان جیسا کوئی نہیں گا سکتا۔
لتا منگیشکر بھی میڈم نور جہاں کی فین تھیں کہتی تھیں کہ انہوں نے اردو کے تلفظ میڈم نور جہاں سے سیکھے۔
سُروں کی ملکہ لتا منگیشکر بہت سے پاکستانی فنکاروں سے بہت متاثر تھیں، کہتی تھیں کہ "مہدی حسن کے گلے میں بھگوان بولتا ہے"، نصرت فتح علی خان کو بھی بہت پسند کرتی تھیں۔
استاد بڑے غلام علی خان جب ان کے گانے سُنتے تو بے اختیار کہہ اُٹھتے کہ ’کم بخت، کبھی بےسری ہوتی ہی نہیں‘۔
آواز کے سحر میں کئی نسلوں کو گرفتار رکھنے والی سُروں کی ملکہ کے فن نے 6 دہائیوں کا سفر طے کیا، 3 نسلیں اس عہد میں جوان ہوئیں اور وہ ان 3 نسلوں کی پسندیدہ گلوکارہ ٹھہریں، جس گلوکار کے ساتھ گانا گایا کمال گایا۔
محمد رفیع سے لے کر کشور کمار تک، ادیت نارائین سے لے کر سونو نگم تک ان کا ساتھ، سننے والوں کو خوب بھایا۔