• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ سال پاکستان اور چین کے دوطرفہ تعلقات کی 70ویں سالگرہ منائی گئی۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان اور چین کے سمندر سے گہرے، ہمالیہ سے اونچے اور شہد سے میٹھے تعلقات ہیں اور دوستی کا نہ رُکنے والا یہ سفر جاری ہے۔

ماضی میں ہمارے تعلقات زیادہ تر سفارتی نوعیت کے رہے، دونوں ممالک نے سفارتی سطح پر ایک دوسرے کی ہر فورم پر کھل کر حمایت کی۔ چین دنیا میں ایک مضبوط معاشی طاقت بن کر ابھرا تو احساس ہوا کہ ہم اپنے آزمائے ہوئے قابلِ اعتماد دوست چین سے اپنے معاشی اور دفاعی تعلقات بہتر بناکر فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔

اس سلسلے میں فروری 2009ء میں پاکستان اور چین نے آزاد تجارتی معاہدہ کیا جس سے دونوں ممالک کی تجارت جو 2002ء میں صرف 1.3ارب ڈالر تھی، 2020ء میں بڑھ کر 20ارب ڈالر تک پہنچ گئی جس میں چین سے پاکستان کو 18 ارب ڈالر اور پاکستان سے چین کو 2 ارب ڈالر کی ایکسپورٹس ہوئیں۔

اس معاہدے سے چین نے 60 فیصد اور پاکستان نے صرف 4فیصد فائدہ اٹھایا لیکن پاک چین FTA کے دوسرے مرحلے میں چین نے پاکستان کو 363 اشیاء ڈیوٹی فری ایکسپورٹ کی اجازت دی ہے جس سے 2021ء میں دونوں ممالک کی تجارت بڑھ کر 27.82 ارب ڈالر ہوگئی جس میں چین سے پاکستان ایکسپورٹ 24.23ارب ڈالر اور پاکستان سے چین ایکسپورٹ 69 فیصد اضافے سے 3.6 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔

پاک چین دوستی کا اہم باب سی پیک ہے جس کا 2 0اپریل 2015ء کو چینی صدر نے تاریخی معاہدہ کیا۔ اس معاہدے کے تحت چین نے پاکستان میں 65 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی جس میں 34ارب ڈالر کے توانائی منصوبوں سے 10ہزار میگاواٹ اضافی بجلی پیدا کی گئی جبکہ 11ارب ڈالر کے انفرااسٹرکچر اور گوادر پورٹ کے منصوبے ہیں۔

 اسپیشل اکنامک زونز کے منصوبوں میں چین سے صنعتوں کی منتقلی دونوں ممالک کیلئے گیم چینجر ثابت ہوگی۔

پاکستان کو سول نیوکلیئر انرجی فراہم کرنے کیلئے امریکہ کے دبائو پر جب فرانس سمیت بیشتر ممالک نے انکار کردیا تو چین نے پاکستان میں اگست 1993ء میں پہلے 300میگاواٹ کے سول نیوکلیئر انرجی چشمہ پلانٹ 1 کا آغاز کیا اور 15ستمبر 2000ء کو پاکستان چین کی مالی اور تکنیکی مدد سے سول نیوکلیئر انرجی پیدا کرنیوالے ممالک میں شامل ہوگیا

 جسکے بعد 300میگاواٹ کے چشمہ II، III اور IV پلانٹس لگائے گئے جو مجموعی طور پر 1200میگاواٹ سول نیوکلیئر انرجی پیدا کررہے ہیں جبکہ پاک چین تعلقات کی 70ویں سالگرہ پر گزشتہ سال وزیراعظم نے کراچی میں 1100میگاواٹ کے سول نیوکلیئر انرجی کے 2 منصوبے کینپ K-2 اور K-3کا افتتاح کیا جس کے بعد پاکستان 2500میگاواٹ سول نیوکلیئر انرجی پیدا کرنے والے ممالک میں شامل ہوگیا ہے جس کا سہرا چین کو جاتا ہے۔

 بھارت کے دبائو پر جب امریکہ نے ہمیں F-16جنگی طیاروں کے پارٹس رقم کی ادائیگی کے باوجود دینے سے انکار کردیا تو چین نے پاکستان کے ساتھ JF-17 تھنڈر جنگی طیارے بنانے کے مشترکہ منصوبے کا اعلان کیا جو امریکی F-16کا متبادل ہے اور 12مارچ 2007ء کو JF-17تھنڈر جنگی طیاروں کا اسکواڈ پاک فضائیہ کے فلیٹ میں شامل ہوا ، آج ہم JF-17طیارے قیمت اور کارکردگی کی بنیاد پر دوسرے ممالک کو فروخت بھی کررہے ہیں۔

اسی طرح کورونا وبا کے دوران چین نے پاکستان کو مفت ویکسین فراہم کرکے پاکستان میں کورونا پھیلنے سے روکنے میں اہم کردار ادا کیا جبکہ پاکستان کو بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں اور زرمبادلہ کے ذخائر مستحکم کرنے کیلئے بھی چین نے مشکل حالات میں رقم فراہم کی۔

حال ہی میں وزیراعظم پاکستان وزراکے ساتھ چین کا3روزہ دورہ کرکے آئے ہیں جہاں انہوں نے ونٹر اولمپکس کی تقریب میں شرکت کرنے کے علاوہ چینی رہنمائوں سے ملاقاتیں کیں لیکن اقتصادی ماہرین کی رائے ہے کہ وزیراعظم کے دورے کا مقصد چین سے 3ارب ڈالر کا اسٹیٹ ایڈمنسٹریشن آف فارن ایکسچینج (SAFE) قرضہ حاصل کرنا تھا تاکہ پاکستان کے گرتے ہوئے زرمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم رکھا جاسکے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان اب اپنی مالی اور اقتصادی امداد کیلئے چین پر زیادہ سے زیادہ انحصار کررہا ہے۔

پی ٹی آئی کے ساڑھے تین سالہ دورِ حکومت کے دوران پاک چین سفارتی اور اقتصادی تعلقات میں کئی اتار چڑھائو آئے جس سے سی پیک کے اہم منصوبوں میں سست روی دیکھنے میں آئی۔

پچھلے 3سال کے دوران دہشت گرد حملوں میں کوئٹہ اور داسو ڈیم پر کام کرنے والے 9چینی انجینئرز مارے گئے اور چینی کمپنی نے 11ارب روپے معاوضہ طلب کیا ۔ چین کوکچھ معاملات پر تحفظات ہیں، اس کے علاوہ آئی پی پیز (IPPs) کی زیر التواء ادائیگیوں پر بھی چینی سرمایہ کاروں کو تشویش ہے اور انہوں نے ڈومور کا مطالبہ کیا ہے۔

پی ٹی آئی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد کابینہ کے کچھ ارکان کے سی پیک منصوبے پر نظرثانی جیسے غیر ذمہ دارانہ بیانات سے بھی پاک چین تعلقات متاثر ہوئے ہیں۔ دورۂ چین سے پہلے وزیراعظم کو بریفنگ اجلاس، جس میں آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے بھی شرکت کی، میں ان ایشوز سے آگاہ کیا گیا تھا۔

اب یہ دیکھنا ہوگا کہ عمران خان اور ان کے اہم سینئر وزراء سی پیک میں نئی روح پھونکنے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں تاکہ پاک چین سٹریٹیجک تعلقات کو مستحکم کیا جاسکے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت پاک چین تعلقات میں اعتماد کا بحران پیدا ہوچکا ہے جس کو عملی اقدامات سے ہی دور کیا جاسکتا ہے جو دونوں ممالک کے مفاد میں ہوگا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین