• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گذشتہ سے پیوستہ)

انگریزوں کے دورِ حکومت میں سندھ اور پنجاب کے درمیان دریائے سندھ کے پانی کی تقسیم کے بارے میں جو تنازع چل رہا تھا اسکے تحت سندھ کے انگریز گورنر کے سیکرٹری ایس ایچ رضا نے مارچ 1947 ء میں نئی دہلی میں متعین ہندوستان کے گورنر جنرل کو ایک تفصیلی خط لکھا،اس خط کی اب تک دو قسطیں اس کالم میں شائع ہوچکی ہیں، یہ اس سلسلے کی تیسری اور آخری قسط ہے۔ خط کے اس حصے میں کہا گیا ہے کہ سندھ کا مؤقف یہ ہے کہ پنجاب کو اس بات کی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ ’’معاہدے کے مسودے‘‘ سے کنارہ کش ہونے کی کوشش کرے کیونکہ کسی بھی تصوراتی سوچ کے ذریعے مالی معاملات پر جاری رہنے والی مراسلت اور مذاکرات کے تسلسل کو منقطع نہیں کیا جاسکتا،یہ محسوس کیا جارہا ہے کہ پنجاب کا سارا انحصار اس قانونی نکتہ پر ہے کہ اگر کسی پیشکش کو قبول نہ کیا جائے تو یہ ساری کی ساری پیشکش رـد تصور کی جاتی ہے،اس کے نتیجے میں پنجاب اس سلسلے میں آزاد ہے کہ چاہے تو فقط اس پیشکش کے مالی معاملات سے متعلق حصے سے دستبردار ہوجائے اور چاہے تو اس پیشکش کے تحت متعین کئے گئے پانی کے حصے سے بھی انکار کردے لہٰذا سندھ حکومت محسوس کرتی ہے کہ دونوں حکومتوں کے درمیان اس طرح کے الجھے ہوئے معاملات پر مذاکرات مشکل ہی سے آگے بڑھ سکتے ہیںلہٰذا سندھ کے گورنر کے سیکرٹری نے موقف اختیار کیا کہ یہ معاملہ بغیر کسی تاخیر کے کونسل میں ہزمیجسٹی کو پیش کیا جائے کیونکہ سندھ یہ بات ریکارڈ پر لانا چاہتا ہے کہ خط و کتابت کا جائزہ لینے سے یہ بات ظاہر ہوجائے گی کہ اس سلسلے میں اب تک جو تاخیر ہوئی ہے اس کا ذمہ دار سندھ نہیں ہے،ساتھ ہی سندھ کا یہ موقف بھی ہے کہ ان کی اس گزارش کی بھرپور حمایت کی جائے کہ پنجاب کو کوئی بھی ایسی کارروائی کرنے سے روکا جائے جس کے نتیجے میں نہ فقط اس سارے تنازع کا مناسب حل کسی تعصب کے نتیجے میں اس حد تک نظر آئے کہ جن منصوبوں کے خلاف شکایات کی گئی ہیں ان پر عملدرآمد بھی متاثر ہو، ان منصوبوں میں خاص طور پر ’’اسپیشل کیس‘‘ کے طور پر بھاکرا ڈیم اور نانگرویئر جو کہ بھاکرا ڈیم کا حصہ ہے،بھی متاثر ہوسکتے ہیں۔ اس سلسلے میں جو آخری ایشو رہتا ہے وہ یہ ہے کہ سندھ اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ کونسل میں ہزمیجسٹی کے احکامات کا تعلق فقط شکایات کے اس مجموعے سے اور رائو کمیشن کی سفارشات سے ہی ہونا چاہئے مگر سندھ کی اب بھی رائے یہ ہے کہ ان معاملات کا بہترین حل یہ ہے کہ یہ معاملات ’’باہمی معاہدے‘‘ کے ذریعے طے کیے جائیں،یہ معاہدہ تو کافی حد تک ہوچکا تھا کیونکہ اس معاملے کے ساتھ جو مالی امور منسلک ہیں ان کو حل کرنے میں زیادہ سے زیادہ چند دن لگیں گے،اس تنازع کو مکمل طور پر حل کرنے کی آخری کوشش کے باوجود رائو کمیشن کے بارے میں کونسل میں ہزمیجسٹی کے احکامات کے نتیجے میں اس ایشو کا ایک بڑا حصہ پھر بھی اس معاہدے کا حصہ نہیں بن سکے گا،اس وجہ سے اس ایشو کے خلاف بدستور مستقبل میں حل کے لئے کئی کمیشن بنتے رہیں گے، اس وجہ سے اس ایشو پر دونوں صوبوں (سندھ اور پنجاب) کے افسروں پر ان کاموں کا کافی بوجھ ہوگا ، اس کارروائی کے لئے اگرزیادہ وقت کی ضرورت نہیں پڑے گی تو سندھ ایسے کسی بھی فیصلے کی حمایت کرے گا جس کے نتیجے میں اس معاہدے کے پانی کے بارے میں ہونے والے ’’معاہدے کے مسودے‘‘ کی بنیاد پر اس ایشو کو حل کرنے کیلئے ایک بار پھر دونوں صوبوں کو بھیجا جائے باقی جہاں تک مالی ایشو کا تعلق ہے تو یہ ایشو ثالثی مصالحتی کمیشن کو بھیجا جائے دوسرے الفاظ میں سندھ ایسے ٹربیونل کے ’’ٹرمز آف ریفرنس‘‘ میں ایسے تحفظات کا تقاضا کرے گا جن کو سندھ ماضی میں بھی ’’لازمی‘‘ قرار دیتا رہا ہے۔

تازہ ترین