• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دماغی، نفسیاتی، جذباتی، فعلیاتی امراض کے ماہر ڈاکٹروں کا فرمانا ہے کہ بچپن میں پوچھے گئے سوالوں کے جواب اگر بچوں کو نہیں ملتے تو آپ یہ مت سوچئے کہ وہ سوال ختم ہوجاتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے۔ وہ سوال بچے کے شعور اور لاشعور میں پنپتے رہتے ہیں۔ تعداد میں بڑھتے رہتے ہیں۔ اس کے ذہن پر سوالوں کا بوجھ بڑھتا رہتا ہے۔ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ وہ بچہ جب لڑکپن سے نکل کر جواں ہوتا ہے تب لاشعوری طور پر خود کو سوالوں کے جنگل میں بھٹکتا ہوا محسوس کرتا ہے۔ ہاں، اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ جوابوں سے محروم، ممنوع سوال ہم لب لباب میں بھول جاتے ہیں، مگر سوالوں کے مناسب جواب کے لیے لازمی خواہش ختم نہیں ہوتی۔ ایک بے چینی سی تا عمر محسوس ہوتی رہتی ہے۔ سانس لینے کے لیے آکسیجن کی ضرورت محسوس ہوتی رہتی ہے۔ مگر کچھ سوال ایک مناسب خواب کے لیے جوں کے توں ہمارے وجود کے مقبروں میں گونجتے رہتے ہیں۔ عمر کے آخری حصہ میں داخل ہونے کے بعد ایک مناسب جواب کے لیے تشنہ سوالوں کی گونج زیادہ واضح، زیادہ اونچی، زیادہ کرخت ہوتی جاتی ہے۔ کبھی کبھی تشنہ سوالوں کی گونج ڈرائونی محسوس ہونے لگتی ہے۔ میں ان سوالوں کے بارے میں بات کررہا ہوں جو کچھ جاننے، معلوم کرنے کیلئے پوچھے جاتے ہیں۔ میں ایسے سوالوں کے بارے میں بات کررہا ہوں جو آگاہی کے دروازے کھول دیتے ہیں۔

تمام ممالک، تمام معاشروں میں تمام سوال پوچھنے نہیں دیتے۔ کچھ سوال پوچھنے کی ممانعت ہوتی ہے۔ مثلاً قبر کے عذاب کی باتیں سننے کے بعد ایک نوجوان نے پوچھا۔ ’’اگر کبھی کشتی الٹنے کے بعد مچھیرے کو مگرمچھ کھا جائے تو پھر مچھیرے کا قبر والا حساب کتاب کیسے ہوگا؟‘‘

سب نے چونک کر نوجوان کی طرف دیکھا۔ ایک بزرگ نے شفقت سے کہا۔ ’’بیٹے اس نوعیت کے گستاخانہ سوال مت پوچھا کرو‘‘۔

’’قبر میں عذاب کے اس قدر ڈرائونے قصے میں نے سنے ہیں کہ میری جان نکل گئی ہے‘‘۔ نوجوان نے کہا، ’’میں جاننا چاہتا ہوں کہ جس مچھیرے کو مگرمچھ کھا جاتا ہے اس کی قبر نہیں بنتی۔ اس مچھیرے کو قبر کا عذاب کیسے ملے گا؟‘‘

بزرگوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ دوچار بزرگوں نے یک آواز ہوکر کہا۔ ’’بچے، یہ تم نہیں، تمہارے اندر بیٹھا ہوا ابلیس بول رہا ہے‘‘۔

اس نوعیت کے سوال پوچھنے والوں کے بارے میں کامل یقین سے کہا جاتا ہے کہ وہ دہریے، ملحد، کافر، کمیونسٹ اور بھٹکے ہوئے ہوتے ہیں۔ وہ خود نہیں بولتے۔ ان کے اندر بیٹھا ہوا شیطان بولتا ہے۔ ایک عالمانہ جواب کی بجائے آگاہی کے متلاشی ذہنوں کو مورد الزام ٹھہرا کر تنفر اور کدورت کی علامت بنا دیا جاتا ہے۔ دنیا کے کئی معاشروں میں عقیدوں کے بارے میں کچھ جاننے کے لیے پوچھے گئے سوال حساس اور زود رنج سمجھے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے شعوراً عقیدوں کے بارے میں کسی سے آج تک براہ راست سوال نہیں پوچھا ہے۔ میں نے خود ذہن میں اٹھنے والے سوالوں کے جوابات حاصل کرلیے ہیں۔ انٹرنیٹ نے زندگی آسان کردی ہے۔ عقیدوں کے بارے میں، میں مخمصوں کا شکار نہیں ہوتا۔ مجھے میرے تمام سوالوں کے معتبر جواب مل جاتے ہیں۔ بات یہاں آکر ختم ہوجاتی تو شاید سوالوں کا سلسلہ کب کا ختم ہوچکا ہوتا۔ مگر ایسا نہیں ہوتا۔بے شمار سوال سیاست، نظریات، ثقافت، تاریخ، جغرافیہ کے بارے میں پوچھے اور اٹھائے جارہے ہیں۔ زیادہ تر ممالک میں ان موضوعات پر بحث مباحثے پر کوئی بندش نہیں ہے۔ مگر ہمارے ہاں ان موضوعات کو آپ زیر بحث نہیں لاسکتے۔ آپ بن بلائی مصیبت اپنے گلے ڈال لیں گے۔ کسی مجھ جیسے بونگے کی سمجھ میں آج تک یہ بات نہیں آتی کہ سیاست دانوں کے فیصلوں کو اس قدر مقدس کیوں سمجھا جاتا ہے کہ سیاسی فیصلوں کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے بعد جواب کی بجائے آپ دھر لیے جاتے ہیں۔ آپ اچانک گم ہوجاتے ہیں۔ کچھ سیاسی فیصلوں کو تقدس کا درجہ دینے کے بعد آئینی تحفظ دے دیا جاتا ہے۔ معمولی نوعیت کا سوال پوچھنے کے بعد آپ کو دشمن کا ایجنٹ، ملک دشمن اور جاسوس ہونے کے سنگین الزامات سے نوازا جاتا ہے۔ پھر آپ کو قیامت کا انتظار کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ یہیں پر آپ کے لیےحشر برپا کردیا جاتا ہے۔

دنیا بھر کی معتبر یونیورسٹیوں میں تاریخ لکھنے والے اور تاریخ پر تحقیق کرنے والے برصغیر کی حساس تاریخ کو خاص طور پر زیر بحث لے آتے ہیں۔ مگر ہم ایسا نہیں کرسکتے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم بونگے برصغیر کے بٹوارے کے بارے میں کوئی سوال نہیں پوچھ سکتے۔ ہم بونگے بس اتنا جاننا چاہتے ہیں کہ بٹوارے کے مقدس فیصلہ میں ان کروڑوں مسلمانوں کے بارے میں کیا لکھا ہوا ہے جو تقسیم کے بعد ہندوستان میں رہ گئے ہیں اور ہندو جو پاکستان میں رہ گئے ہیں؟ اپنے ہی وطن میں اچانک اقلیت میں بدل جانے کے بعد دوسرے نمبر کا شہری Citizen بن کر باقی ماندہ زندگی گزارنا عذاب سے کم نہیں ہے؟

تازہ ترین