پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فیصل واؤڈا کی تاحیات نااہلی کے خلاف دائر درخواست قابل سماعت ہونے پر اسلام آباد ہائیکورٹ نے فیصلہ محفوظ کرلیا،عدالت نے پٹیشنر سے سوال کیا کہ کاغذات نامزدگی سےقبل شہریت چھوڑی تھی یا نہیں؟، کل تک اس عدالت میں امریکی شہریت چھوڑنے کا سرٹیفکیٹ پیش کرسکتے ہیں؟
اسلام آباد ہائی کورٹ میں گزشتہ روز فیصل واؤڈا نے الیکشن کمیشن کی جانب سے تاحیات نااہلی کو چیلنج کیا ، ان کی درخواست پر آج چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللّٰہ نے سماعت کی۔
درخواست کی سماعت کے آغاز پر فیصل واؤڈا کے وکیل وسیم سجاد نے اپنے دلائل میں بتایا کہ الیکشن کمیشن نے میرے مؤکل کو جھوٹے بیان حلفی کی بنیاد پر نااہل قرار دیا ہے اور انہیں تمام تنخواہیں، مراعات دو ماہ میں واپس کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔
فیصل واؤڈا نے جون 2018 ء میں کاغذات نامزدگی کیلئے بیان حلفی جمع کرایا تھا، پھر 3 مارچ کو بطور رکن قومی اسمبلی استعفیٰ دے دیا تھا،اب فیصل واؤڈا بطور رکن اسمبلی مستعفی ہوچکے اور الیکشن کمیشن نے بطور سینیٹر بھی نااہل قرار دے دیا۔
وسیم سجاد ایڈووکیٹ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کورٹ آف لاء نہیں، اس کے پاس اختیار نہیں تھا کہ نااہل قرار دیتا،الیکشن کمیشن آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کا فیصلہ نہیں سنا سکتا۔
چیف جسٹس اسلام آبادہائیکورٹ نے اپنے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ کا آرڈر تھا کہ بیان حلفی غلط نکلا تو اس کے سنگین نتائج ہوں گے، کیا کاغذات نامزدگی جمع کرانے سے قبل شہریت چھوڑی تھی یا نہیں؟
وکیل فیصل واؤڈا نے کہاکہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں جھوٹے بیان حلفی کیلئے توہین عدالت کا لفظ نہیں لکھا گیا، چیف جسٹس نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ قانون ہے جس میں کئی قانون سازوں کو نااہل بھی کیا گیا، اس کیس کو چھوڑ کر سمجھا دیں سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کیسے ہوگا؟
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے استفسار کیاکہ کیا فیصل واؤڈا نے امریکی شہریت چھوڑنے کا سرٹیفکیٹ کہیں جمع کرایا؟ ایڈووکیٹ وسیم سجاد بولے پٹیشنر نے کہیں بھی شہریت چھوڑنے کا سرٹیفکیٹ پیش نہیں کیا۔
ایڈووکیٹ وسیم سجاد نے جواب دیاکہ جھوٹا بیان حلفی آئے تو انکوائری کے بعد کورٹ آف لاء کو کارروائی کا اختیار ہے۔
اس پر ہائیکورٹ نے کہاکہ وہ اپنی نیک نیتی ثابت کرتے اور سرٹیفکیٹ پیش کرتے، عدالتی فیصلے کے بعد ذمہ داری پٹیشنر پر تھی کہ شہریت چھوڑنے کا سرٹیفکیٹ پیش کرتا۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے استفسار کیاکہ اگر الیکشن کمیشن اس نتیجے پر پہنچا کہ بیان حلفی جھوٹا ہے تو کیا کرتا،؟صرف یہ بتائیں فیصل واؤڈا کیسے صاف نیتی ثابت کرتے ہیں؟
وسیم سجاد ایڈووکیٹ نے کہاکہ الیکشن کمیشن بیان حلفی کی انکوائری کرسکتا ہے، دیکھنا ہوگا اس کے بعد کیا پراسیس ہے؟،جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہاکہ کیا الیکشن کمیشن انکوائری کرکے کیس سپریم کورٹ کو بھجوائے۔
ایڈووکیٹ وسیم سجاد نے کہاکہ یہ بات شہادت سے ثابت ہوسکتی ہے کہ جان بوجھ کر جھوٹا بیان حلفی جمع کرایا گیا، جسٹس اطہر من اللّٰہ نے ریمارکس دیئے کہ اب آپ پٹیشن آئینی عدالت لائے ہیں تو یہ کورٹ نااہلی کا فیصلہ سنا دے؟
چیف جسٹس نے وکیل سے سوال کیا کہ یہ بتادیں سپریم کورٹ میں کوئی جھوٹا بیان حلفی جمع کرائے تو اس کے کیا نتائج ہوسکتے ہیں؟،وسیم سجاد نے جواب دیاکہ بیان حلفی چھوٹا ثابت ہو تو اس کے خلاف کیس چلایا جا سکتا ہے۔
وسیم سجاد ایڈووکیٹ نے کہا کہ فیصل واؤڈا کا بیان حلفی جھوٹا بھی ثابت ہو تو وہ صرف بطور رکن قومی اسمبلی نااہل ہوسکتے تھے،وہ بطور رکن اسمبلی مستعفی ہوچکے، تاحیات نااہلی کا فیصلہ نہیں ہو سکتا، کیونکہ جس الیکشن کیلئے بیان حلفی جمع کرایا گیا صرف اسی نشست کیلئے نااہل ہوسکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں دیکھنا ہے کیا الیکشن کمیشن ازخود کسی کو نااہل قرار دے سکتا ہے یا نہیں؟،اگر بیان حلفی کورٹ آف لاء کے سامنے جھوٹا ثابت ہو تو نااہل قرار دیا جاسکتا ہے،تاحیات نااہلی سیاست میں سزائے موت کی طرح ہے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے پوچھا کہ کیا پٹیشنر کل تک اس عدالت میں امریکی شہریت چھوڑنے کا سرٹیفکیٹ پیش کرسکتے ہیں؟