اپوزیشن جماعتوں نے موجودہ حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا اعلان کرکے ملکی سیاست کا ماحول اچانک گرماگرم کر دیا ہے، آج میڈیا کی شہ سرخیوں میں یا تو پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے جاری کردہ حکومت مخالف اعلانات ہیں یا اپوزیشن رہنماؤں کی حکومتی اتحادیوں سے ملاقاتوں کی خبریں، دوسری طرف حکومتی ترجمانوں کی توجہ کا مرکز بھی تحریک عدم اعتماد کے فیصلے سے پیدا شدہ صورتحال ہے۔ عالمی پارلیمانی تاریخ کی پہلی تحریک عدم اعتماد 1782ء میں برطانیہ میں وزیر اعظم لارڈ نارتھ کے خلاف پیش کی گئی تھی جب 1781میں امریکہ اور اس کے اتحادی فرانس نے برطانوی افواج کو یارک ٹائون محاصرے میں شکست سے دوچار کیا تھا،برطانوی شکست نے قانون سازوں کو قائل کیا کہ وہ وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد منظور کراکے انہیں گھر بھیج دیں، اسی طرح بھارت میں بھی دو درجن سے زائد عدم اعتماد کی قراردادیں پیش کی گئیں، تین منتخب وزرائے اعظم وشوناتھ پرتاپ سنگھ، ایچ ڈی گوڑا اور اٹل بہاری واجپائی کو عدم اعتماد کےخلاف مطلوبہ ووٹ نہ حاصل کرسکنے پر معزول کردیا گیا۔ پاکستان کے پارلیمانی قواعد کے مطابق اپوزیشن کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ تحریک عدم اعتماد پیش کرے،تاہم عدم اعتماد کی تحریک پیش ہونے کے تین دن بعد اور سات دن کے اندر ووٹنگ کرائی جاتی ہے،وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد پر ووٹنگ کا طریقہ کار بھی وزیراعظم کے انتخاب کے طریقہ کار یعنی اوپن ووٹنگ کے ذریعے ہوتا ہے جبکہ اسپیکر ،ڈپٹی اسپیکر ،چیئرمین سینیٹ اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے کیلئے خفیہ رائے شماری کرائی جاتی ہے، طریقہ کار سے قطع نظر تحریک کو کامیاب کرانے کیلئے مطلوبہ ممبران کی تعداد پوری کرنا تحریک پیش کرنے والوں کی ذمہ داری ہے۔ یہ امر دلچسپی کا باعث ہے کہ دنیا کے دیگر ممالک کے برعکس پاکستان کی سیاسی تاریخ میں تحریک عدم اعتماد کبھی کامیاب نہیں ہوئی، مجھے آج بھی یاد ہے کہ وزیر اعظم بے نظیر بھٹوشہید کے خلاف 1989ء میں پیش کردہ تحریک عدم اعتما د کو کامیاب بنانے کیلئے اپوزیشن نے سردھڑ کی بازی لگا دی تھی، اس زمانے کے اخبارات میں ایک دوسرے کے ممبران اسمبلی کو توڑنے اور انہیں اجلاس میں جانے سے روکنے کے حربوں کی خبریں شائع ہوتی تھیں، میاں نواز شریف اس وقت پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے جن کی مرکز میں پیپلز پارٹی کی حکومت سے نہیں بنتی تھی، اس وقت یہ قیاس آرائیاںزور پکڑ گئیں کہ اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو گئی تو غلام مصطفی جتوئی وزیراعظم ہونگے، ان افواہوں نے اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد میں رخنہ ڈال دیا اور آخرکار پاکستان کی پارلیمانی تاریخ کی پہلی تحریک عدم اعتماد ناکامی سے دوچار ہوگئی۔ سابق وزیراعظم شوکت عزیز کے خلاف 2006ء میں اپوزیشن کی پیش کردہ تحریک عدم اعتمادکو بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا،سابق اسپیکر چوہدری امیر حسین نے اپنے خلاف دو مرتبہ ناکام تحریک عدم اعتمادکا مقابلہ کیا، حالیہ تاریخ میں چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف بھی تحریک عدم اعتماد کامیاب نہیں ہوسکی۔ آج اگرچہ ہر طرف میڈیا اور سیاسی حلقوں میںتحریک عدم اعتماد کا چرچا ہے، تجزیہ نگار ماضی کے تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے مختلف قیاس آرائیاں کرہے ہیں، تاہم میںاپنے گزشتہ دو دہائیوں پر محیط سیاسی تجربے کی بنیاد پر وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ آ ج ہمیںماضی کی نسبت سیاسی محاذ پر مختلف صورتحال کا سامنا ہے،ماضی میں تحریک اعتماد لانے والے غیرتجربہ کار سیاستدان تھے جنہوں نے منتخب وزراء اعظم کے حکومت سنبھالتے ہی ان پر تحریک عدم اعتماد کا غیردانشمندانہ وار کردیا تھا۔ موجودہ اپوزیشن کا اتحاد پاکستان کے منجھے ہوئے سیاسی سمجھ بوجھ رکھنے والے دوراندیش گھاگ سیاستدانوں پر مشتمل ہے جنہیں ماضی میں نہ صرف حکومت کرنے کا تجربہ ہے بلکہ انہوں نے اپنے وقت میں پاکستان کو درپیش بحرانوں کا سامنا بھی کیا ہے، دوسری طرف حکومتی صفوں میں بھی کچھ ایسے ناراض عناصر موجودہیں جو موجودہ سیاسی صورتحال سے فائدہ اٹھاکر اپنا سیاسی وزن بڑھانا چاہتے ہیں۔ پر امن اور آئینی دائرہ کار میں رہ کر حکمراں جماعت کے خلاف تحریکوں کی کال دینا بلاشہ اپوزیشن کا حق ہے، تاہم کامیابی کا دارومدار صحیح وقت پر صحیح فیصلہ ، صحیح فیصلے پر صحیح حکمت عملی اور صحیح حکمت عملی کی بنیاد پرصحیح ایکشن پر ہوتا ہے،یہ تحریک کب اور کیسے پیش کی جائے گی، اس حوالے سے فی الحال اپوزیشن جماعتیں خاموش ہیں، اس سلسلے میں چند اطلاعات یہ بھی ہیں کہ اپوزیشن اتحاد میں شامل کچھ رہنماؤں کے تحریک لانے کےفیصلے پر تحفظات ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ تحریک کی ناکامی موجودہ حکومت کو مزیدمضبوط کرنے کا باعث بنے گی۔ میری نظر میں آنے والے چند ماہ حکومت اور اپوزیشن دونوں کے سیاسی مستقبل کیلئے فیصلہ کُن ثابت ہونگے، اگر یہ تحریک ماضی کی تاریخ دہراتے ہوئے ناکام ہوجاتی ہے تو وزیراعظم عمران خان اگلے پانچ برس بھی پاکستان کی قیادت کرنے کی پوزیشن میں آجائیں گے، تاہم تحریک کی کامیابی تحریک انصاف کا مستقبل تاریک کرسکتی ہے، یہی وجہ ہے کہ میں اس تحریک کو دونوں طرف کی اعلیٰ قیادت کیلئے بہت بڑا امتحان سمجھتا ہوں ، میری ارباب ِ اختیار سے گزارش ہے کہ وہ تحریک کا مقابلہ کرنے کیلئے ٹھوس حکمت عملی کے ساتھ عوامی مسائل کے حل پر اپنی توجہ مرکوز رکھیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)