• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب پولیس سروس میں قدم رکھا تو ایک سوال اکثر پوچھا جاتا تھا ’’وہ کون سا جرم ہے جس کے مکمل ہونے کے باوجود بھی سزا نہیں ملتی جب کہ قانون میں وہ عمل جرم ہے اور اس کی سزابھی ہے‘‘۔ معلوم ہوا ’’خودکشی‘‘۔سروس میں اتنے سال گزارنے کے باوجود کسی کو اقدامِ خودکشی کا جرم کرنے کے باوجود سزا پاتے نہیں دیکھا۔ اپنی جان لینے سے بڑھ کر بھی کوئی قدم ہے جو کوئی اٹھا سکتا ہے؟ پولیس والے مصلحتاً، ترس کھا کر یا مکمل معلومات کی عدم فراہمی کی وجہ سے یہ جرم نظر انداز کر دیتے ہیں۔ میرے خیال میں دنیا میں بہت کم ایسے ممالک ہیں جہاں اس کی سزا دی جاتی ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ قوانین تبدیلی کے مراحل میں ہیں اور بہت جلد ہمارے ہاں بھی اسے جرم نہیں بلکہ بیماری یا مجبوری گردانتے ہوئے اصلاح کی جانب رخ موڑ دیا جائے گا۔ خودکشی کرنے والا خود تو دنیا سے چلا جاتا ہے لیکن پیچھے رہنے والوں کے لیے نہ صرف سوگواری بلکہ ان کی بدنامی کا باعث بھی بنتا ہے۔ ہمارے ہاں چونکہ لوگ عموماًپوسٹ مارٹم نہیں کراتے لہٰذا معلوم نہیں ہوتا کہ موت طبعی ہے یا خود کشی۔ اگر ایسا ہونا شروع ہو جائے تو خودکشی کرنے والوں کی تعداد بہت بڑھ سکتی ہے بلکہ بہت سی اموات قتل کے زمرے میں بھی آ سکتی ہیں۔

خودکشی عموماً وہ لوگ کرتے ہیں جو انتہائی مایوسی کا شکار ہوتے ہیں اور ڈپریشن کے اس درجے پر پہنچ جاتے ہیں جہاں انہیں امید کی کوئی کرن نظر نہیں آرہی ہوگی۔ ایسا قدم اٹھاتے وقت انسانی جسم میں ایڈرینالائن (Adrenaline) عروج پر ہوتی ہے اور کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کِیاجائے۔ سوائے اس کے کہ اب بہت ہو گیا، شاید اگلے جنم یا اگلے جہاں میں کوئی فرق پڑے۔ اس میں امیری یا غریبی کا کوئی عمل نہیں۔ بظاہر مطمئن، امیر اور شان و شوکت سے رہنے والے فلمی ادکار اور مشہور لوگ بھی خود کشی کر نے سے نہیں کتراتے ہیں۔ہمارے بچپن کے مشہور اور ہر دلعزیز ادکار ننھا جو ساری عمر ہمیں ہنساتے رہے مگر خود ایک دن ہم سب کو سوگوار چھوڑ کر چلے گئے۔

میں اکثر جائے وقوعہ کا جائزہ لینے جاتا تھا اور سروس کے آغاز میں تو بہت جاتا تھا لیکن میرا دل اس وقت بیٹھ سا گیا جب میں نے یہ دِل دہلا دینے والا منظر دیکھاکہ گوجر خان میں ایک مزدور نے اپنے آٹھ بچوں کو ذبح کیا۔اس نے پہلے اپنے بچوں کو چوہے مار دوائی پلائی پھر سب کا ایک ایک کر کے گلا کاٹا۔ وہ مایوسی، جنونیت یا تکلیف کے کس درجہ پر تھا میں نہیں کہہ سکتا لیکن بعد میں جب بھی جائے وقوعہ پر جاتا تو ایک انجانا خوف ہوتا کہ نامعلوم کیا منظر دیکھنے کو ملے گا۔ سندھ میں بحیثیت آئی جی تعیناتی کے دوران اکثر یہ جان کر دکھ ہوتا کہ تھر پارکر کے دور دراز علاقوں میں ماں بچوں سمیت کنوئیں میں کود گئی کیونکہ وہ بچوں کو دو وقت کا کھانا کھلانے سے سے قاصر تھی یا ان کی چھوٹی چھوٹی خواہشات کو پورا نہیں کر سکتی تھی۔

نفسیاتی مسائل یا مرض میں مبتلا افراد کے ذہن میں بھی اکثر خودکشی کرنے کا خیال پیدا ہو تا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں جہاں نفسیاتی ڈاکٹر کے پاس جانے اور ماہر نفسیات سے ملنے پر لوگ شرمندگی محسوس نہیں کرتے وہاں ا یسے ماڈل بنائے گئے ہیں جہاں لوگوں کو ڈپریشن کی صورت میں اس انتہائی قدم سے روکا جا سکے۔ کینیڈا میں اکثر ریلوے اسٹیشن کی پٹری کے پاس بورڈ پر جلی حروف میں لکھا ہوتا ہے،اگر آپ کے ذہن میں اگر خودکشی کا خیال آرہا ہے تو فوراً911 کو کال کریں۔ میں نے سول سروسز جوائن کی اور جب میں چھٹیوں پر لاہور سے کراچی گھر جایا کرتا تو ریلوے انجن ڈرائیورز سے انجن میں بیٹھ کر سفر کرنے کی درخواست کرتا۔ ایک ڈرائیور نے دورانِ گفتگو بتایا کہ اس کی تیس سالہ نوکری میں کئی سو افراد نے ریل کے آگے آ کر خودکشی کی۔ یہ بھی حیرت کی بات ہے کہ خودکشی کا عمل نوجوانوں میں زیادہ پایا گیا اور اس کی شرح 75فیصد تک دیکھی گئی ہے۔ میں جب امریکہ گیا تو معلوم ہوا کہ 1970 کی دہائی میں امریکہ میں ڈیوٹی کے دوران اموات کی تعداد زیادہ تھی مگر دوسری جانب خودکشی کی شرح نسبتاً کم تھی۔ حیرت انگیز طور اب خودکشی کی شرح بڑھ گئی ہے اور ڈیوٹی کے دوران ہلاکتوں میں کمی آگئی ہے۔ بہت سے مذاہب میں ملک و مذہب کی خاطر جان دینا ایک نہایت پسندیدہ عمل ہے۔ پر ل ہاربر (Perl Harbour) پر حملہ کرنے والے اکثر پائلٹس کو یقین تھا کہ شاید وہ واپس نہ آسکیں لیکن ملک و قوم کی خاطر لڑنے کا جذبہ ان کے مشن کو روک نہ سکا۔ کیپٹن کرنل شیر خان بہادری سے لڑتے ہوئے اکیلا دشمن کی صفوں میں گھس گیا۔ اس کو بھی معلوم تھا دشمن کو یوں للکارنے کا کیا مطلب ہے؟ اس نے مگر شہادت کا رتبہ پایا اور ہمیشہ کیلئے امر ہو گیا۔ افسوس کہ نائن الیون کے واقعہ کے بعد یہ بات بھی سامنے آئی کہ کچھ لوگ نوجوانوں اور بچوں کی برین واشنگ کر کے اور جنت کا جھانسا دے کر اُن کو خودکشی پر آمادہ کرتے ہیں۔اور یوں خودکشی کرنے والا نہ صرف اپنی جان لیتا ہے بلکہ درجنوں بلکہ سینکڑوں بے گنا ہ لوگوں کی بھی جان لے لیتا۔اس طرح کی موت ہر گز شہادت نہیں۔شہادت ایک عظیم رتبہ ہے اور ایسی موت کی ہم سب آرزو کرتے ہیں۔ مگرخودکشی بلاشبہ ایک نہایت ناپسندیدہ عمل ہے۔ اللہ نا سمجھ لوگوں کو ہدایت دے کہ وہ دونوں میں فرق محسوس کر سکیں۔

(صاحب تحریر وفاقی سیکرٹری وزارتِ سدِبابِ منشیات، پاکستان ہیں)

تازہ ترین