پچھلے دنوں ایک دونہیں، تین طوفان برطانیہ پر سے گزر گئے۔ گزرے اور اپنے پیچھے تباہی کی نشانیاں چھوڑ گئے۔ اچھا بھلا سیدھا سادا سا ملک۔ سارا نظام خوش اسلوبی سے چل رہا تھا۔پھر اچانک یہ ہوا کہ محکمہ موسمیات کی پیشین گوئی سچ نکلی۔ پہلے تو خبر تھی کہ دو طوفان آئیں گے۔ اور ابھی دوسرا تھما بھی نہ تھا کہ تیسرا نازل ہوگیا۔شاید موسم کو اپنا کام ادھورا چھوڑ کر جانا پسند نہیں۔بس تو پھر وہی ہوا جو ہونا تھا۔ درخت گرے،چھتیں اڑیں، کھمبے گرے، بجلی گئی،سیلاب آئے، کاریں بہہ گئیں، ریل گاڑیوں کے رستے بند ہوگئے۔ سڑکیں پایاب ہوگئیں اور زندگی کا نظام درہم برہم ہوگیا۔
مگر یہ تو ماننا پڑے گا کہ سائنس والوں نے تین دن پہلے ہی ڈھنڈورا پیٹنا شروع کردیاکہ طوفان آیاطوفان آیا۔وہ آیا اور دھوم مچاتا آیا۔ عجب لوگ ہیں۔ صبح ہونے کی اور ہوا ذرا تیز ہونے کی دیر تھی،انٹرنیٹ پر انشورنس والوں کا پیغام آیا۔ طوفان آنے کو ہے۔ فکر نہ کیجئے۔ جوں ہی کسی نقصان کی اطلاع ہو ہمیں اس نمبر پر فون کیجئے۔
اب دوسری طرف کسی کو طوفان کی فکر نہ تھی۔بس یہ تھا کہ اونچائی پر لگے لاؤڈاسپیکر نہگر جائیں۔ انہیں پہلے ہی اتار لیا جائے۔ہم سب کو یاد ہوگا۔ آزاد کشمیر اور اس کے اطراف میں جو تباہ کن زلزلہ آیا تھا۔ سائنس والے معاملے پر غور کرنے بیٹھے اور تھوڑی ہی دیر میں اندازہ ہوگیا کہ متاثر ہ علاقے میں زمین کی گہرائی میں جو شگاف ہیں اور جو زمین کے تختے ہیں ان میں حرکت ہوتی ہے اور وہ ایک دوسرے سے رگڑتے ہیں تو سطح زمین میں لرزش پیدا ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ زمین کی گہرائی میں جو کیفیت ہے اس کے نقشے بنائے جا سکتے ہیں تاکہ آئندہ احتیاط اختیار کرنے میں آسانی ہو۔بات سمجھ میں آنی شروع ہوئی ہی تھی کہ دوسری طرف سے اعلان ہوا کہ علاقے کے لوگ گمراہ ہوگئے ہیں اور گناہ کی راہ پر چل پڑے ہیں جس کی یہ سزا ملی ہے۔یہ کہ اپنی جماعت میں بیٹھے ہوئے بچے جہاں بیٹھے تھے، چھت کے تلے کچل کر وہیں مر گئے۔کیسی سزا تھی اور کسے ملی۔
ہم بچپن سے اور ہندو پڑوسیوں کے ساتھ رہتے رہتے اتنا تو سیکھ گئے تھے کہ ہماری زمین ایک گائے کے سینگ پر ٹکی ہوئی ہے۔ جب کبھی گائے سینگ بدلتی ہے، بھونچال آتا ہے۔ہماری کئی نسلیں اسی طرح کی داستانوں میں الجھی رہیں اور گناہ اور ثواب کے میزان پر آنے والی تباہ کاریوں یا قدرت کی کرم فرمائیوں کا حساب لگاتی رہیں۔ مگر ایک حقیقت ایسی ہے جسے عقل و فہم کی لکیر کے دونوں طرف کے بُدھی مان تسلیم کرتے ہیں اور وہ یہ ہے اور بالکل طے ہے کہ قدرت سے کوئی جیت نہیں سکتا۔کوئی کتنے ہی بند باندھے، کتنے ہی اونچے پہاڑوں پر بسیرا کرلے،قدرت کے غضب سے بچ نہیں سکتا۔ ان چھوٹے موٹے نادار اور مسکین ملکوں کو تو جانے دیجئے، امریکہ او ریورپ کے مالا مال ملکوں کی بے بسی دیکھی نہیں جاتی کہ کہیں سے ایک جھونکا آتا ہے اور راہ میں پڑنے والی ہر چیز کو سوکھے تنکے کی طرح اڑا لے جاتا ہے۔ تب سننے میں آتا ہے کہ ان علاقوں میں ایسا طوفان پہلے کبھی نہیں آیا۔ حیرت ہے ساری دنیا ایک دوسرے سے مکالمہ کر رہی ہے، کوئی لکیر کی دوسری طرف والوں کو اتنی سے بات نہیں سمجھاتا کہ تم لوگ بے راہ روی کا شکار ہو،گناہوں میں آلودہ ہوگئے ہو اس لئے آفتیں اور بلائیں سر اٹھائے چلی آتی ہیں اور تمہیں یہ سبق سکھاتی ہیں کہ اپنے اعمال درست کر لو ورنہ کبھی ان تباہ کاریوں کا سدِباب نہیں کر پاؤ گے اور قدرت سے جیت نہیں سکو گے۔ تب کسی گوشے سے ایک کمزور اور نحیف سی آواز آتی ہے کہ بد بختو، قدرت نے جو تمہیں نیلی رنگت کا صاف شفاف کرہ ّ ارض عطا کیا تھا، جو کائنات کی فضائے بسیط میں آہستگی سے تیر رہا تھا، تم نے اپنے صنعتی انقلاب کے کارن اس کی نرم ملائم چادر کو تار تار کر دیا۔ آسمان سے برسنے والی مہلک شعاعوں کو بالائی فضا ہی میں روکنے کا قدرت نے جو اہتمام کیا تھا تم نے پٹرو ل اور ڈیزل پھونک پھونک کر اسے خاک میں ملا دیا۔ ابھی اور نہ جانے کتنے طوفا ن آئیں گے، کتنے سیلاب روندیں گے زمین کو اور گائے نہیں معلوم کب اور کتنی بار سینگ بدلے گی؟
ایک بار پھر وہی قدرت کی بات جس کے آگے کسی کی نہیں چلتی۔اس کا کوئی پہلو ہماری نظروں اور فہم وفراست سے ڈھکا چھپا نہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ قدرت مہربان ہو تو ہم پر نوازشوں کی بارش کرتی ہے، کرم کرنے پر آجائے تو جھولیاں بھر بھر کر عنایات لٹاتی ہے، یہی قدرت جو غضب میں آئے تو قہر ہے، جبر کرے تو کڑی سے کڑی سزا اس کے آگے ماند ہے۔وہ اپنے جلوے دکھائے جاتی ہے۔ کبھی رحم کرے تو حیران کر ے، کبھی انتقام لے تو دنگ کرے۔
قدرت، ماں جیسی قدرت، ہمیں پالنے پوسنے والی ہر رات تھپکیاں دے دے کر سلانے والی قدرت،ایک بار جب جبیں زمین پر ٹک جائے تو وہی لمحہ ہوتا ہے قدرت سے قرب کا۔اس سے بات کیجئے۔جواب ملے گا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)