• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

موجودہ حکومت کے قیام بلکہ عمران خان کی سیاست میں فعال انٹری کے بعد پاکستان کی سیاست میں اخلاقی تنزّل، معاشی تباہی اور معاشرتی اقدار کی پامالی کا جو سلسلہ شروع ہو اہے وہ کہیں رُکنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ اگرچہ پاکستان میں پہلے بھی سیاسی حالات کچھ بہت اچھے نہیں تھے اور آمروں کے پروردہ سیاستدان اپنے قول و فعل کے تضاد کے حوالے سے خاصے بدنام تھے لیکن عمران خان کے سیاست میں آنے کے بعد اکثر لوگوں کا یہ خیال تھا کہ آکسفورڈ سے تعلیم یافتہ اور مغربی جمہوری اقدار سے آشنا عمران خان کی سیاست میں آمد سے ملکی سیاست میں کم از کم شائستگی اور جمہوری اقدار کو فروغ ملے گا لیکن افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ اس دوران نہ صرف غیر اخلاقی رویّوں، دشنام طرازی اور مخالفین کی کردار کشی میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے بلکہ مسلّمہ جمہوری اقدار کی بھی جی بھر کر خلاف ورزی کی گئی ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ سارا وقت سابقہ حکومتوں کی کارکردگی پر تنقید کرنے والی حکومت کی اپنی کارکردگی اتنی ناقص ہے کہ پاکستان معاشی طور پر مفلوج ہو کر رہ گیا ہے اور عوام کی چیخ و پکار اور موجودہ حکومت کے خلاف بددعائیں ہر طرف سنائی دے رہی ہیں۔ مہنگائی، بے روزگاری، امن و امان کی ناگفتہ بہ صورتِ حال اور عالمی سطح پر پاکستان کی تنہائی غرض زندگی کا کوئی شعبہ نہیں جہاں ریکارڈ تنرلی نہیں ہوئی۔ عمران خان نے عملی کارکردگی کی بجائے چرب زبانی کو اپنی حکومت کا امتیازی نشان بنا دیا ہے۔ ان کی سوشل میڈیا ٹیم نے مخالفین کے خلاف غلیظ زبان اور کردار کشی کی تمام حدیں عبور کر لی ہیں اور تو اور ان کے ٹرولز کی زد میں وہ صحافی بھی ہیں جو عمران خان کی پالیسیوں کے ناقد ہیں۔ آج کوئی قابلِ ذکر صحافی عمران خان کے انتقام سے محفوظ نہیں بلکہ ان میں اُن صحافیوں کا اضافہ ہوتا جار ہا ہے جو کبھی عمران خان کی حمایت میں پیش پیش تھے۔ تمام جمہوری اصولوں کو پسِ پشت ڈال کر عمران خان جس طرح دھاندلی کے چور دروازے کے ذریعے اقتدار میں آئے، اب وہ کسی سے پوشیدہ نہیں لیکن اُن کی ناقص کارکردگی، بیڈ گورننس اور سب سے بڑھ کر اپنے لانے والوں کے خلاف متکبّرانہ اور انتقامی رویّے نے ملکی سیاست اور حکومتی امور میں ایک ڈیڈ لاک کی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ ’’ایک کریلا دوسرا نیم چڑھا‘‘ کے مصداق آج صورتِ حال یہ ہوگئی ہے کہ عمران حکومت نے کام دھیلے کا نہیں کیا لیکن اس کی اکڑ فوں بڑھتی جا رہی ہے جس کے باعث پاکستان تباہی کی اُس سطح پر پہنچ گیا ہے جہاں اس کی سالمیت کو کئی طرح کے خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ ویسے تو سیاسی لحاظ سے عمران حکومت جتنی زیادہ دیر برسرِ اقتدار رہی وہ اگلے انتخابات میں اتنی ہی تنزلی سے معدوم ہو جائے گی جو اس کی اپوزیشن کے لیے ایک بہتر چوائس ہے لیکن ملک یقیناًاتنی بڑی تباہی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔اس صورتِ حال کے پیشِ نظر اپوزیشن کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کے لیے پیپلز پارٹی کی کوششوں سے سیاسی اتحاد PDMکا قیام عمل میں لایا گیا۔ پیپلز پارٹی جس کی پچاس سالہ تاریخ جمہوریت کی خاطر شاندار قربانیوں سے عبارت ہے، وہ بجا طور پر عمران خان کو آئینی اور جمہوری طریقے سے ایوانِ اقتدار سے رخصت کرنا چاہتی ہے تاکہ اقتدار پھر سے غیر جمہوری طاقتوں کے پاس نہ چلا جائے۔ پی ڈی ایم کے قیام کے بعد اپوزیشن نے ہر جمہوری عمل اور ضمنی انتخابات کے ذریعے حکومت کو پے در پے شکستیں دیں۔ یہاں تک کہ سینیٹ میں بھی حفیظ شیخ کے مقابلے میں یوسف رضا گیلانی کامیاب ہوگئے جو ایک طرح سے عمران حکومت کے خلاف عدم ِ اعتماد تھا۔ حکومت کے خلاف باقاعدہ عدم ِ اعتماد کی تحریک پیش کرنے کی بجائے پی ڈی ایم کے بعض رہنمائوں نے استعفوں کی شرط رکھ کر اس مومنٹم کو توڑ دیا جو متحدہ اپوزیشن نے حکومت کے خلاف پیدا کیا تھا۔ چنانچہ ایک مرتبہ پھر اپوزیشن منتشر ہوگئی۔ اگر ضمنی الیکشنز کے بائیکاٹ اور اسمبلیوں سے استعفوں کی بات مان لی جاتی تو اسمبلیوں سے اپوزیشن کا وجود ختم ہو جاتا کیونکہ حکومت اپنے من پسند افراد کو منتخب کرانے میں کامیاب ہوجاتی۔ جس طرح فوج بارڈر پر لڑتی ہے اسی طرح سیاستدانوں کا میدانِ جنگ پارلیمنٹ ہوتی ہے۔ اطمینان کی بات یہ ہے کہ بقیہ پی ڈی ایم نے پیپلز پارٹی کی یہ دلیل مان لی ہے اور نااہل عمران حکومت کو اقتدار سے نکالنے کے لیے لانگ مارچ کے ساتھ ساتھ تحریکِ عدم ِ اعتماد کی تیاری بھی شروع کردی ہے۔ محترمہ شہید کی المناک شہادت کے بعد بھی نواز شریف مجوزہ الیکشنز کا بائیکاٹ کرنا چاہتے تھے۔ اس وقت بھی جناب آصف علی زرداری نے انہیں انتخابات میں حصہ لینے پر قائل کرکے اپنے زیرک سیاستدان ہونے کا ثبوت دیا تھا جس سے ملک میں دوبارہ جمہوریت کا احیا ممکن ہوسکا۔اسی سلسلے میں پیپلز پارٹی آج مزارِ قائد کراچیسے اپنے لانگ مارچ کا آغاز کر رہی ہے جو سندھ کے مختلف شہروں سے ہوتا ہوا پنجاب میں داخل ہوگا اور مارچ کے پہلے ہفتے میں اسلام آباد پہنچے گا۔ یوں سیاسی طور پر پورا ملک اس نا اہل اور سلیکٹڈ حکومت کے خلاف متحرک ہو جائے گا۔ پیپلز پارٹی کے لانگ مارچ میں عوام کی ایک بڑی تعداد شریک ہو کر موجودہ ہائبرڈ نظام کے تحت قائم ہونے والی نا اہل حکومت کا بوجھ اپنے سر سے اتارنے میں کامیاب ہو جائے گی۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین