• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ماضی میں کیے گئے بعض فیصلوں کے باعث پاکستانی عدلیہ کا وقار ملکی و عالمی سطح پر متاثر ہوتا رہا ہے کیونکہ وہ فیصلے انتہائی اہمیت کے حامل تھے جن میں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کا فیصلہ بھی شامل ہے۔ دوسری بات یہ کہ دنیا بھر میں یہ اقدامات غور سے دیکھے جاتے ہیں، اشرافیہ کیلئے ضمانت قبل از گرفتاری آسان ہے جبکہ عوام کا مقدر جیلوں میں سسکنا ہے۔ انصاف کی فراہمی میں دوہرے معیار پر عالمی میڈیا پر تبصرے و تجزیے ہوتے رہتے ہیں۔ کئی مقدموں میں کیس میں حتمی چالان میں تاخیر سے فیصلہ بھی تاخیر سے ہوتا ہے۔ کئی مقدمات میں کیس اعلیٰ عدلیہ تک پہنچتے پہنچتے بےگناہ لوگوں کو بلاجواز قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑتی ہیں۔ اِن پیچیدگیوں پر نظرثانی کی گنجائش سے استفادہ حاصل کرکے ہم عالمی میڈیا کی سرخیوں سے بچ سکتے ہیں کیونکہ بہت سے انتہائی اہم فیصلے کرنے والوں نے خود تسلیم کیا کہ انہوں نے آمروں کے دباؤ میں آ کر غلط فیصلےکیے ۔ اگر فرانس کے احتساب کے نظام کا جائزہ لیا جائے تو یہاں چارج شیٹ جاری کرکے جوابات طلب کیے جاتے ہیں اورسنگین نوعیت کا کوئی فوجداری الزام ہو تو عدالت سے اجازت طلب کی جاتی ہے ، ٹرائیل ہوتا ہے، سزا کی صورت میں بھی آپشن دیے جاتے ہیں اور الزام لگانے والے کو اختیار حاصل ہوتا ہے وہ کس سزا کا انتخاب کرتا ہے۔ گزشتہ دِنوں وطنِ عزیز کی ایک احتساب عدالت کی جانب سے پاکستان کی تاریخ میں سنہری باب کی حیثیت رکھنے والے خاندان کے اہم رُکن میر شکیل الرحمٰن کے پرائیویٹ پراپرٹی کیس میں باعزت بری ہونے سے ثابت ہوا کہ تمام تر دباؤ اور حربوں کے باوجود پاکستان میں انصاف فراہم کیا جا رہا ہے۔ میر شکیل الرحمٰن کی بریت کی خبر سے اوورسیز پاکستانیوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی کیونکہ عالمی صحافتی اداروں کی تنظیموں اور اورسیز پاکستانی حکومت کے اس فعل کو غلط اور سراسر زیادتی قرار دیتے رہے اور یہ دلیل بھی دیتے رہے کہ سچ کو آنچ نہیں اور ہمیشہ حق کا بول بالا ہوتا ہے اور شکست ناخداؤں کا مقدر ٹھہرتی ہے۔ میر شکیل الرحمٰن کے خلاف ریکارڈ پر اعانتِ جرم کی ذرا برابر بھی شہادت موجود نہیں تھی، اس فیصلہ نے رپورٹر وِد آوٹ باڈرز کے اس موقف کو بالکل درست ثابت کردیا کہ پاکستان میں حق و سچ پر مبنی صحافت کا تصور ممکن نہیں۔ اب چند روز قبل احتساب عدالت نے کیس خارج کرتے ہوئے میر شکیل الرحمٰن کو با عزت بری کر دیا ہے۔ یوں جنگ جیو گروپ کے چیف ایڈیٹر ایک طویل قانونی جنگ جیت کر سرخرو ہو گئے ہیں۔ اس معاملے کا اہم پہلو یہ تھا کہ میر شکیل الرحمٰن نے 1986میں تمام قانونی ضابطوں کی پابندی کرتے ہوئے کچھ اراضی خریدی تھی مگر نیب نے گزری صدی کے اس معاملے کو اور ملک کی ایک معزز کاروباری شخصیت اور بڑے میڈیا گروپ کے سربراہ کیخلاف بلا جواز کارروائی کی جس پر میر صاحب نے تمام عدالتی کارروائی میں ہر اعتبار سے تمام قانونی تقاضے پورے کیے اور عدالت میں پیش ہوئے، انہوں نے اراضی کی تمام دستاویزات بھی پیش کردیں اور اپنا بیان بھی ریکارڈ کرایا لیکن اس کے باوجود دوبارہ طلب کیے جانے پر خلافِ ضابطہ انہیں دورانِ انکوائری گرفتار کر لیا گیا اور ایسا کرنے کی قانون اجازت نہیں دیتا جس پر یہ واضح ہو گیا تھا کہ کیس کی بنیاد بدنیتی پر مبنی ہے۔ اسی وجہ سے صحافتی حلقوںاور بیرون ملک سیاسی حلقوں میں اس کیس کی بازگشت سنی گئی مگر عالمی برادری کے احتجاج کے باوجود میر شکیل الرحمٰن کو ایک ناکردہ گناہ کی پاداش میں 8مہینے قیدوبند کی صعوبت برداشت کرنا پڑی۔ ایک طویل عدالتی کارروائی کے بعد عدالتِ عظمیٰ نے انہیں انصاف فراہم کرتے ہوئے بری کر دیا۔ احتساب عدالت کے جج اسد علی نے اپنے تحریری فیصلے میں لکھا ہے کہ میرشکیل الرحمٰن کے خلاف الزامات محض مفروضہ ہیں۔ استغاثہ نیب آرڈی ننس کے تحت اصل جرم ہی ثابت کرنے میں ناکام رہا تو اعانتِ جرم کیسے ثابت کر سکتا ہے۔ میر شکیل الرحمٰن کے خلاف ریکارڈ پر اعانتِ جرم کی کوئی شہادت نہیں۔ اس کیس میں کسی کو سزا کا کوئی امکان نہیں اس لیے ناکافی مواد کے سبب ریفرنس کا ٹرائل جاری رکھنا بےمقصد اور عدالت کے وقت کا ضیاع ہے۔ فیصلے میں جو نیب ترمیمی آرڈی ننس کی بجائے عدالتِ عظمیٰ کے حکم پر صرف میرٹ کی بنیاد پر کیا گیا، یہ بھی کہا گیا کہ انہوں نے خریدی گئی اراضی کے تمام ترقیاتی چارجز اور واجبات ادا کیے جبکہ اراضی کی اصل قیمت بھی نافذ العمل پالیسی کے مطابق ادا کی۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ اس خریداری میں پالیسی کی خلاف ورزی ہوئی نہ ایل ڈی اے کے افسروں نے فائدہ اٹھایا اور نہ ہی قومی خزانے کو کوئی نقصان پہنچا۔ ایل ڈی اے نے ریکوری کیلئے کوئی نوٹس بھیجا نہ ہی بقایا جات کی ادائیگی کا مطالبہ کیا۔ میرشکیل الرحمٰن نے 2016میں ایل ڈی اے سے اپنے حق میں اراضی کو رجسٹر کرایا تو اس وقت بھی ایل ڈی اے نے واضح کیا کہ ان کے خلاف کوئی سرکاری واجبات نہیں۔ عدالت نے تمام قانونی شواہد اور ثبوتوں کی موجودگی میں میر شکیل الرحمٰن اور ساتھ ہی شریک ٹھہرائے گئے ملزموں کو بھی رہا کر دیا۔ یہ کیس دراصل میرشکیل الرحمٰن اور جنگ و جیو گروپ کو اظہارِ رائے کی آزادی حق اور سچ کی آواز دبانے کے لیے بنایا گیا مگر ناخداؤں کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ جنگ و جیو گروپ بدستور آزادیٔ صحافت کا علم بلند رکھے ہوئے ہے اور اس کیس کے فیصلے سے جنگ گروپ کا مورال مزید بلند ہو گیا ہے۔

تازہ ترین