• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مہنگائی کا شور ہر طرف---- ہر شخص مہنگائی کا رونا رو رہا ہے، بڑے بڑے الزامات حزب اختلاف کی طرف سے حکومت پہ لگائے جارہے ہیں، جوابا حکومت کبھی عالمی افراط زر کو اس کا الزام دے رہی ہے تو کبھی پچھلی حکومتوں کو، سندھ کی حکومت بھی وفاقی کو اس کا ذمہ دار سمجھتی ہے، کسی سے بات کرو تو بات مہنگائی سے شروع ہوکر مہنگائی اور غربت پہ ختم ہوتی ہے، سوشل میڈیا، پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا سب ہی مہنگائی کا راگ الاپ رہے ہیں، بازار میں کچھ خریدنے جائو تو ہر دکاندار یہ کہہ کر قیمت بڑھا دیتا ہے کہ مہنگائی بہت ہے ، پیچھے سے مال بھی مہنگا آرہا ہے ایسے میں کیا حل ہونا چاہیئے؟لیکن حل تو اسی وقت نکل سکتا ہے جب وجہ معلوم ہو کہ آخر اس قدر مہنگائی کی وجہ کیا ہے ، وجہ معلوم کرنے کے لئے کچھ لوگوں کی آراء لی گئیں اور کچھ خود مشاہدہ کیا گیا، پہلے صرف کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں کا جائزہ لیتے ہیں وہ بھی صرف "کراچی شہر" میں ایک معیشت دان کے بقول ذرا آپ پچھلے بیس برسوں کا جائزہ لیں، بیس سال پہلے کراچی میں گھروں میں کھانا کتنا پکتا تھا اور لوگ بازار جاکر کتنا کھانا کھاتے تھے، شادیوں میں کھانے کی اقسام( ورائٹی) ہوتی تھی، کتنا آن لائن آرڈر سے کھانا منگوایا جاتا تھا اور فٹ پاتھوں پہ کتنے دسترخوان سجتے تھے؟ کچھ فرق آیا ہے؟ یا بہت زیادہ فرق آیا ہے؟ یقینا اس وقت ہر بڑی روڈ کے فٹ پاتھ پر دسترخوان نہیں بچھتے تھے، فوڈ پانڈا کا کوئی وجود نہ تھا، شادیوں میں تین یا چار کھانے ہوتے تھے، لوگ کبھی کبھار باہر جاتے تھے، ہوٹلوں کی اتنی بھرمار نہ تھی،لیکن پچھلے کئی برسوں سے زندگی کے ڈھنگ بدل گئے ہیں، کراچی کی آبادی بڑھ رہی ہے اسی حساب سے کھانے پینے کے نئے کاروبار بھی کھل رہے ہیں، لیکن کیا ملک میں خوراک کی پیداوار بھی اسی تیزی سے بڑھ رہی ہے؟ یقینا نہیں ، لیکن خوراک کی تیاری کے لئے درکار اشیاء کی مانگ میں کس قدر اضافہ ہوچکا ہے؟ کیا کبھی سوچا ہے، یہاں راشن سے مراد ہر وہ چیز شامل ہے جو کھانا بنانے میں استعمال ہوتی ہے، گوشت سے لیکر پیاز، گیس سے لیکر تیل، ایسے میں ذرا غور کریں کیا ان چیزوں کی مانگ میں بے تحاشہ اضافہ نہیں ہوگیا ہے؟ جب کہ پیداواری صلاحیت میں خاطرخواہ اضافہ نہیں ہوا ہے، کھانا بنوانے کی ذمہ داری لینے والے کھانا بنانے کی چیزیں خریدتے ہیں تو بھائو تول نہیں کرتے اور نا ہی معیار کا خیال رکھتے ہیں، بالکل یہی حال غریبوں کے لئے بچھائے گئے دسترخوانوں کے ذمہ داران کا ہوتا ہے، کیوں کہ ان دونوں کو رقم اپنی جیب سے نہیں دینی ہوتی تو یہ بارگیننگ نہیں کرتے جیسے کہ ایک گھریلو صارف کرتا ہے،دوسری طرف "سرکار" ترقی کے نام پر "رئیل اسٹیٹ ڈیولپمنٹ" میں لگی ہوئی ہے اور بڑی تیزی سے "زرعی اراضیاں" "رہائشی

کالونیوں" میں تبدیل ہورہی ہیں، ایسے میں زرعی پیداوار میں اضافہ کیسے ممکن ہے، بلکہ الٹا کمی ہی ہوگی اور ہو رہی ہے، قیمتیں بڑھنا شروع ہوجاتی ہیں اور مالکان لالچ میں ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں جس سے مزید کمی ہوجاتی ہےاس کمی کو پورا کرنے کے لئے بیرونی ممالک سے خوراک درآمد کی جارہی ہے، یوں ڈالرز میں خریدنے کی وجہ سے یہ اشیاء مہنگی ہوتی جارہی ہیں اور لوگوں کا خوراک کا بجٹ بڑھ چکا ہے، اب آپ ہی فیصلہ کرلیں اس مہنگائی کا ذمہ دار کون اور اس سے چھٹکارا کیسے ممکن ہے۔

minhajur.rab@janggroup.com.pk

تازہ ترین