• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شیریں مزاری کی بیٹی ایمان نے اپنے خلاف درج مقدمہ چیلنج کر دیا


وفاقی وزیر شیریں مزاری کی صاحبزادی ایڈووکیٹ ایمان زینب مزاری بلوچ نے اپنے خلاف درج کیا گیا مقدمہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا۔

ایمان مزاری کی جانب سے عدالت میں دائر کی گئی درخواست میں ایف آئی آر کی کاپی فوراً فراہم کرنے اور کارروائی معطل کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔

انہوں نے استدعا کی ہے کہ ایف آئی آر سیل کرنا اور کاپی فراہم نہ کرنا قانون کی خلاف ورزی قرار دیا جائے، ایف آئی آر کی کاپی اور وقوعہ کا تمام ریکارڈ عدالت کے سامنے پیش کرنے کا حکم دیا جائے۔

درخواست میں شیریں مزاری کی صاحبزادی نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ بلوچ طلباء پر پولیس نے پریس کلب کے سامنے لاٹھی چارج کیا، پھر مجھ سمیت سب پر ایف آئی آر درج کی، آزادیٔ اظہارِ رائے کے آئینی حق کو استعمال کرتے ہوئے پریس کلب کے باہر طلبہ کے احتجاج میں گئی، جہاں طلبہ جبری گمشدگیوں اور اپنے حقوق کے لیے احتجاج کر رہے تھے کہ پولیس نے پُرامن طلباء پر لاٹھی چارج کر دیا۔

ایمان مزاری نے درخواست میں کہا ہے کہ میڈیا کے ذریعے معلوم ہوا کہ میرے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے، میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے ہی معلوم ہوا کہ ایف آئی آر میں بغاوت کی دفعات شامل ہیں، پولیس ایف آئی آر کی کاپی فراہم کرنے سے بھی انکاری ہے، مجھے گرفتاری کا بھی خدشہ ہے۔

وفاقی وزیر شیریں مزاری کی صاحبزادی ایمان مزاری کی درخواست میں سیکریٹری داخلہ، آئی جی اسلام آباد، ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اور ایس ایچ او تھانہ کوہسار کو فریق بنایا گیا ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز قائدِ اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے طالب علم کی جبری گمشدگی کے خلاف وفاقی دارالحکومت میں نیشنل پریس کلب کے باہر زیرِ تعلیم بلوچ طلباء نے احتجاجی کیمپ لگایا جس میں بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل کے رہنماؤں، ایم این اے محسن داوڑ اور وفاقی وزیرِ انسانی حقوق شیریں مزاری کی صاحبزادی ایڈووکیٹ ایمان زینب مزاری بلوچ نے بھی شرکت کی اور اپنے 2 طالب علم ساتھیوں کی بازیابی کا مطالبہ کیا۔

اس احتجاج کے خلاف وفاقی وزیر شریں مزاری کی صاحبزادی ایمان مزاری اور ایم این اے محسن داوڑ سمیت احتجاج میں شریک سینکڑوں طلباء کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا اور انہیں بتایا گیا کہ ان کے خلاف مقدمہ درج کر کے ایف آئی آر سیل کر دی گئی ہے۔

درج کیے گئے مقدمے میں بغاوت کی دفعہ 120 بی، کارِ سرکار میں مداخلت کی دفعہ 186 اور سڑک بند کرنے کی دفعہ 341 بھی شامل ہے۔

دوسری جانب اسلام آباد پولیس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ غداری کے جرم کے تحت کوئی بھی ایف آئی آر درج نہیں کی گئی، ایف آئی آر میں غداری کی دفعہ کے متعلق چلنے والی رپورٹس میں کوئی صداقت نہیں، محسن داوڑ سمیت کسی بھی پارلیمنٹیرین کا نام بھی شامل نہیں۔

پولیس کے ترجمان کے مطابق مظاہرین کو اسلام آباد انتظامیہ نے پریس کلب تک احتجاج محدود رکھنے کا کہا تھا مگر انہوں نے اسلام آباد انتظامیہ کے ساتھ کسی قسم کے مذاکرات سے انکار کر دیا اور پولیس کے ساتھ مزاحمت شروع کر دی جس کے دوران 3 پولیس اہلکار زخمی ہوئے، اس واقعے پر قانون کے مطابق ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔

پولیس کے ترجمان کا یہ بھی کہنا ہے کہ درج شدہ ایف آئی آر میں صرف خلافِ قانون مجمع میں شامل ہونے والوں اور شریک افراد کو اشتعال دلانے والے افراد کا نام شامل کیا گیا ہے۔

قومی خبریں سے مزید