اسلام آباد(نمائندہ جنگ) قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے طالب علم کی جبری گمشدگی کے خلاف جمعرات کو بھی وفاقی دارالحکومت میں زیر تعلیم بلوچ طلبہ کا احتجاجی کیمپ نیشنل پریس کلب کے باہر جاری رہا، بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل کے رہنما اور وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری کی صاحبزادی ایڈووکیٹ ایمان زینب مزاری بلوچ اپنے دو طالب علم ساتھیوں کی بازیابی کا مطالبہ کرتے رہے۔
بتایا گیا کہ ان کے خلاف مقدمہ درج کر کے ایف آئی آر سیل کر دی گئی ہے ،طلبہ کو کیمپ لگانے کی اجازت دے دی گئی مگر ان کے خلاف بغاوت، مزاحمت ، کار سرکار میں مداخلت، بلوہ اور شاہراہ بند کرنے کے الزام میں مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔
وفاقی وزیر شریں مزاری کی صاحبزادی ،ایم این اے محسن داوڑ سمیت احتجاج میں شریک سینکڑوں طلبا کے خلاف بھی مقدمہ کیا گیا ہے ،مقدمہ میں بغاوت کی دفعہ 120 بی شامل کی گئی ہے، مقدمہ میں کار سرکار میں مداخلت کی دفعہ186،سڑک بند کرنے کی دفعہ 341 بھی شامل ہے۔
ادھراسلام آباد پولیس ترجمان کے مطابق غداری کے جرم کے تحت کوئی بھی ایف آئی آر درج نہیں کی گئی ہے۔
ایف آئی آر میں غداری کی دفعہ کے متعلق چلنے والی رپورٹس میں کوئی صداقت نہیں۔
ایف آئی آر میں محسن داوڑ سمیت کسی بھی پارلیمنٹیرین کا نام بھی شامل نہیں۔
مظاہرین کو اسلام آباد انتظامیہ نے پریس کلب تک احتجاج محدود رکھنے کا کہا مگر مظاہرین نے اسلام آباد انتظامیہ کے ساتھ کسی قسم کے مذاکرات سے انکار کردیا اور پولیس کے ساتھ مزاحمت شروع کردی۔
اس مزاحمت کے دوران تین پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔ اس واقعہ پر قانون کے مطابق ایف آئی آر درج کی گئی۔
ایف آئی آر درج میں صرف مجمع خلاف قانون میں شامل اور ان کو اشتعال دلانے والے افراد کا نام شامل کیا گیا۔