ایک جانب 24 برس بعد آسٹریلیا اور پاکستان کے درمیان ٹیسٹ میچ کا اسٹیج سجا ہوا تھا اور تماشائی پہلے روز کے کھیل سے لطف اندوز ہورہے تھے تو دوسری طرف قصہ خوانی بازار کے کوچہ رسالدار کی جامع مسجد میں نمازی جمعہ کی نماز کے لیے جمع تھے کہ خود کش حملہ آور نے سینکڑوں لوگوں کو خون میں نہلا دیا۔
اب تک 60 نمازیوں کی شہادت کی تصدیق ہوچکی ہے اور دو سو کے قریب زخمیوں میں سے کچھ کی حالت نازک بتائی جارہی ہے۔ وزیراعظم کو معلوم ہے کہ حملہ آور کہاں سے آیا یا آئے اور وزیر داخلہ کے خیال میں دشمنوں کو آسٹریلوی کرکٹ ٹیم کا دورہ ہضم نہیں ہورہا۔
کرکٹ میچ تو جاری ہے، لیکن قصہ خوانی بازار کے اہالیان کی شام غریباں ختم ہونے والی نہیں، گھر گھر صفِ ماتم بچھی ہے اور سبھی مسلکوں کے لوگ دعائے مغفرت میں شامل ہیں۔ بلاول بھٹو نے صحیح کہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف نیشنل ایکشن پلان پر عمل نہیں کیا جارہا۔
جمعہ ہی کو فنانشل ٹاسک فورس نے 27 میں سے 26 شرائط پوری کرنے کے باوجود پاکستان کو ’’گرے لسٹ‘‘ میں رکھنے کا فیصلہ برقرار رکھا ہے کہ ابھی تک اقوامِ متحدہ کی جانب سے نامزد دہشت گردوں کو سزائیں نہیں دی گئیں۔
پشاور میں بدترین دہشت گردی کا یہ واقعہ پشاور کور کمانڈ میں تبدیلی کے بعد بڑا سانحہ ہے جہاں سے اپوزیشن کی جانب سے ’’سیاسی مداخلت‘‘ کے الزام کی ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی تردید کرچکے ہیں۔
اپوزیشن کا الزام ایک اچنبھا تھا کہ وہ بار بار مقتدرہ اور فوج کی غیر جانبداری کا اعتراف کیے جارہی ہے۔ سیاست میں حالیہ طوفان کو اسی کا شاخسانہ قرار دیا جارہا ہے۔
ہائبرڈ سیاسی بندوبست کے تحت جو بھان متی کا کنبہ جوڑا گیا تھا، وہ لگتا ہے کہ نامرادی کے ہاتھوں بکھر رہا ہے اور ہمارے وزیراعظم ایسے ایسے ڈھونگیوں کے قدم چوم رہے ہیں جن کا کبھی انہیں نام بھی گوارا نہ تھا۔ جو کچھ ان صفحات پر گزشتہ روز سلیم صافی نے اپنے کالم میں ’’عدم اعتماد۔ اندرونی کہانیاں‘‘ کے حوالے سے لکھ دیا ہے، اس کے بعد خس کم جہاں پاک ہی کہا جاسکتا ہے۔
روایتی پارلیمانی سیاست میں وزیراعظم پارلیمانی اکثریت ہی کی بنیاد پر اپنے عہدے پر برقرار رہتا ہے۔ وہ اگر اکثریت کا اعتماد کھو بیٹھے تو وزارت عظمیٰ سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ لیکن عدم اعتماد کی ماضی میں کی گئی کوششیں کبھی کامیاب نہیں رہیں۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت کے خلاف اس وقت کے طاقتور صدر غلام اسحاق خان اور آرمی چیف جنرل اسلم بیگ اور پنجاب میں نواز شریف کی حکومت کی سر توڑ کوششوں کے باوجود عدم اعتماد کامیاب نہ ہوا تھا۔
درونِ خانہ جو رسہ کشی ہورہی تھی اس کا میں چشم دید گواہ اس لیے بھی ہوں کہ میرے بھائی ممتاز عالم گیلانی وزیراعظم کے چیف کوآرڈینیٹر تھے اور ایم این اے ہاسٹل میں براجمان تھے، جہاں غلام مصطفیٰ جتوئی جیسے سیاستدان ڈالرز سے بھرے بیگ لیے پھر رہے تھے مگر کوئی جیالا بکنے کو تیار نہ ہوا۔
اِس وقت نوٹ نہیں مستقبل کی سیاست پر دائو لگ رہے ہیں۔ کہا یہ جارہا ہے کہ عدم اعتماد کے لیے ضروری اعداد ضرورت سے زیادہ جمع ہوچکے ہیں اور اتنے کہ تحریکِ انصاف کی حامی جماعتوں کے ووٹوں کی ضرورت بھی نہیں رہی۔
اگر واقعی گنتی پوری ہوگئی ہے اور ٹیلیفون کی گھنٹیاں بھی نہیں بج رہیں تو پھر عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے میں کیا امر مانع ہے۔ معاملہ فقط وفاقی حکومت کانہیں پنجاب اور پختونخوا کی حکومتوں کا بھی ہے۔
پنجاب میں بزدار حکومت کے خلاف عدم اعتماد تو بہت ہی آسان دکھتا ہے، لیکن اس میں جو امر مانع ہے وہ یہ ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی چندمہینوں کی وزارتِ اعلیٰ پہ تیار نہیں۔ ویسے ان کے بغیر بھی پنجاب میں عدم اعتماد ہوسکتا ہے۔ البتہ پختونخوا میں یہ ممکن نہ ہوگا تاآنکہ بڑی بغاوت ہوجائے جو بعید القیاس نہیں۔
عمران حکومت کا اصل بحران اندرونی ہے، تحریکِ انصاف کے الیکٹ ایبلز حکومت کی خراب کارکردگی پہ بہت نالاں ہیں اور اُنہیں اپنے سیاسی مستقبل کی فکر لاحق ہے۔ وہ پنجاب میں مسلم لیگ نواز کے ٹکٹ کے خواہاں ہیں، لیکن جتنی درخواستیں ہیں اتنی اسامیاں خالی نہیں۔
پھر جہانگیر ترین کے ہم خیالوں کا گروپ پنجاب میں بڑی حصہ داری کے بغیر کیسے راضی ہوگا؟ آصف زرداری سیاسی جوڑ توڑ کی سیاست کے بڑے ماہر تو ہیں، لیکن جب توازن بدلنے کے لیے بہت سے لوگوں کی ضرورت پڑ جاتی ہے تو ہر ایک کی خواہش پوری کرنا بھی محال ہو جاتا ہے۔
اصل سوال یہ نہیں کہ تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہوگی کہ نہیں؟ حقیقی سوال یہ ہے کہ وہ کیسے کامیاب کی جاتی ہے یا ناکام۔ اپوزیشن اور حکومت دونوں ایک دوسرے کے بندے توڑنے کے دعوے کررہے ہیں، جو پارلیمانی اخلاقیات اور جمہوری اصولوں کے خلاف ہے۔
تحریک انصاف کے مخرفین یا لوٹوں کی مدد سے عمران حکومت کو چلتا کیا جاتا ہے تو اس کے پلے کوئی اخلاقی جواز نہیں ہوگا۔ البتہ اگر وہ مستعفی ہوجاتے ہیں تو عمران حکومت اکثریت کھو کر خود بخود گر سکتی ہے۔ یا پھر اگر اتحادی جماعتیں علیحدہ ہوجاتی ہیں اور اپوزیشن سے مل جاتی ہیں تو عدم اعتماد کو اخلاقی جواز مل جاتا ہے۔ لیکن پنجاب میں گجرات کے چوہدریوں کو سر پر بٹھانے کے لیے نواز لیگ پرجوش نہیں تو ایم کیو ایم کو سندھ میں پیپلزپارٹی زیادہ گنجائش دینے پہ راضی نہیں۔
ایسے میں جو بھی سیاسی تماشہ لگنے جارہا ہے، اس میں بی بی جمہوریت کی عصمت پہ بڑے سوال اُٹھیں گے، یہ علیحدہ بات ہے کہ جمہوریت کی عصمت تو ایک عرصہ سے لٹتی چلی آرہی ہے۔ بہتر ہوتا کہ عمران حکومت کو قدرتی سیاسی انجام سے دوچار ہونے دیا جاتا اور وہ اپنی حکومت کی مدت پوری ہونے پر خالی ہاتھ عوام سے رجوع کرتے۔ ’’تبدیلی‘‘ کی حکومت کی قبل از وقت روانگی درحقیقت عمران خان کو سُوٹ کرتی ہے۔ کتنی، کچھ کہا نہیں جاسکتا۔
اس اہم سیاسی موڑ پر اگر کوئی پارٹی مستعدی سے کھیلی ہے تو وہ پیپلزپارٹی ہے۔ جس کے ایک کو چیئرمین آصف علی زرداری تمام تر سیاسی جوڑ توڑ میں مرکزی کردار ادا کررہے ہیں، تو پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو ایک زبردست لانگ مارچ کی قیادت کرتے ہوئے پنجاب میں داخل ہوچکے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ جنوبی پنجاب میں زبردست استقبال کے بعد وسطی پنجاب میں بلاول کو کتنا رسپانس ملتا ہے؟
وہ جب راولپنڈی سے جلوس لے کر اسلام آباد داخل ہوں گے تو تحریک عدم اعتماد بھی غالباً پیش کی جاچکی ہوگی اور اگر عدم اعتماد کے ووٹ میں کامیابی مل گئی تو پیپلزپارٹی اور بلاول بھٹو اس کے کریڈٹ کا دعویٰ کرسکتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی جمہوری ضمیر کی خلش کی چبھن بھی محسوس تو ہوگی!