• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

روس اور امریکہ میں بدگمانی عروج پر ہے۔ نیٹو کے رُکن یورپی ممالک، امریکہ اور کینیڈا روس کے اقدامات کی مسلسل نفی کرتے نظر آ رہے ہیں۔ امریکی میڈیا بھی روسی اقدامات پر واضح طور پر تقسیم ہے۔ اس کو یورپ سے ہمدردی ضرور ہے مگر وہ فوجی مداخلت کے حق میں نظر نہیں آتا۔ صرف اسی وجہ سے امریکہ واضح ردِعمل سے ابھی دور ہے۔ اس وقت امریکی خارجہ پالیسی واضح طور پر امریکی افواج کے حق میں ہے جو کہ جمہوریت کا راگ الاپنے والوں کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔ روس کا دعویٰ ہے کہ اُس نے یوکرین کو اپنی حیثیت برقرار رکھنے کے لیے امداد فراہم کی ہے۔ روسی افواج کو زیادہ مداخلت کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑا، جس طرح سے افغانستان کی فوج امریکی قبضہ ختم ہونے کے بعد اپنی حیثیت کھو بیٹھی تھی، ویسا ہی کچھ حال یوکرینی افواج کا نظر آ رہا ہے۔ امریکی ادارے اور یورپین سیاست دان مسلسل کوشش کر رہے ہیں کہ یوکرین روس کے ساتھ مکمل جنگ کا آغاز کرے۔ وہ زبانی اور سیاسی امداد تو کرتے نظر آتے ہیں مگر عملی طور پر وہ بھی اس جنگ سے خوف زدہ ہیں۔ کینیڈا میں سرکار بظاہر یوکرین کے ساتھ ہے مگر عوام اور ان کی اشرافیہ امریکی اقدامات کی مخالفت کرتی نظر آرہی ہے۔

سوال یہ ہے کہ نیٹو اتحاد کس سے خوف زدہ ہے؟ نیٹو ممالک اور ان کی افواج نے دنیا بھر میں امریکی مداخلت کے دوران امریکہ کی مدد کی اور امریکی حملوں میں بھرپور کردار ادا کیا۔ ایک طرف یورپی ممالک میں بھی واضح تقسیم نظر آ رہی ہے۔ امریکہ یورپ میں اپنے نظریات کا پرچار برطانیہ کے ذریعے کرتا ہے اور یورپی ممالک کو امریکہ کا یہ کردار پسند نہیں۔ برطانیہ اور یورپ میں بیرونی دنیا سے مہاجر کے طور پر آنے والے لوگ بہت پسندیدہ تھے اور وہ ان کی معیشت میں کارآمد بھی تھے۔ جب روس ٹوٹا اور وہاں سے لوگ یورپ میں آباد ہوئے تو ان ممالک کو تشویش ہوئی اور برطانیہ نے ان لوگوں پر قانونی پابندیوں سے اپنی معیشت کو بچایا جو کہ امریکہ کے لیے پسندیدہ اقدام نہ تھا۔

جمہوریت اور آزادی کا ترنگا بلند کرنے والے ممالک اور ان کا میڈیا روس، چین اور ہم خیال ملکوں کے ساتھ تعلقات میں پابندیاں لگا رہے ہیں۔ یوٹیوب، فیس بک اور ٹویٹر جیسے ڈیجیٹل میڈیا نے اپنی سروسز بند کرنا شروع کردی ہیں۔ دنیا بھر میں امریکی اور یورپی نظریات شدید انتشار کا شکار ہیں اور ایسی پابندیاں زیادہ دیر نہیں چل سکتیں کیونکہ اُن کے روابط کاروباری طور پر بہت منافع بخش ہیں مگر اس منصوبہ بندی کے پس پردہ اسرائیل اپنا کردار ادا کرتا نظر آرہا ہے۔ یوکرین کا صدر ایک بنیاد پرست یہودی ہے۔ یہودی اب بھی روس سے خوش نہیں ہیں اور اس تازہ جنگی صورت حال میں امریکی یہودی بہت ہی سرگرم نظر آ رہے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ یوکرین میں امریکہ فوجی مداخلت کے لیے کردار ادا کرے مگر امریکی اشرافیہ اور افواج اس جنگ میں مکمل شرکت کے خلاف ہیں اور دنیا حیران ہے کہ امریکہ ڈر گیا ہے یا اس کے مفادات تبدیل ہو رہے ہیں۔ کینیڈا میں بھی یہودی بڑی خاموشی سے سرگرمِ عمل ہیں مگر ان کو پریشانی ہے کہ کینیڈا میں دنیا بھر کے پناہ گزیں قابلِ قبول ہیں، کیا ایسا یوکرین کے لیے بھی ہو سکتا ہے جو بظاہر ممکن نہیں۔ اس وقت کینیڈا میں سیاسی صورتحال بھی انتشار کا شکار ہے۔ ٹروڈو پہلے ہی وبا کی وجہ سے پیدا ہونے والی معاشی بدامنی سے پریشان ہیں اور اب تازہ صورتحال میں نیٹو کے ممبر ملک کی حیثیت میں وہ روس امریکہ صورتحال میں مداخلت کو مناسب خیال نہیں کرتے۔ پھر وہ امریکی مفادات کو نظر انداز بھی نہیں کر سکتے۔

کینیڈا میں ایشیا کے تارکینِ وطن پاکستان کے وزیراعظم کو خاصی اہمیت دیتے نظر آرہے ہیں اور یہ ایک نئی قسم کی شعوری مداخلت ہے۔ حالیہ دنوں میں عمران خان نے پاکستان میں امریکی مداخلت کا جس انداز میں تذکرہ کیا ہے وہ بھی خاصا حیران کن ہے۔ پھر آئی ایم ایف کی مداخلت کی پالیسی میں بھی بنیادی تبدیلی نظر آ رہی ہے۔ پاکستان نئے دوستوں کی مدد سے بین الاقوامی قرضوں سے آزاد ہونا چاہتا ہے اور اس معاملے میں چین اور روس کا کردار فیصلہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔ روس سے گندم خریدنے کا معاہدہ ایک نئی کاوش ہے، امریکہ، یورپی یونین، آئی ایم ایف اور اقوامِ متحدہ مداخلت بھی نہیں کر سکتے۔ پھر چین کے ساتھ سی پیک میں امریکی مداخلت مسلسل ہوتی رہی ہے مگر چین کو اندازہ ہو گیا ہے کہ پاکستان امریکہ کو اہمیت نہیں دیتا۔پاکستانی تارکین وطن اس وقت حکومت وقت سے بہت امیدیں سی لگا کر بہت ہی پُرجوش نظر آرہے ہیں۔ اِس وقت صرف ایک معاملہ حل طلب ہے جو تارکینِ وطن کے لیے بہت اہم ہے وہ ان کے ووٹ کی حیثیت اور اہمیت ہے۔ وہ بیرون ملک رہتے ہوئے اپنے نمائندوں کا انتخاب کرنا چاہتے ہیں اور اس سلسلہ میں ابھی تک کوئی نمایاں پیش رفت نظر نہیں آ رہی۔

گزشتہ کالم کے حوالے سے بہت سارے لوگوں نے بہت سے سوال کیے ہیں، ان سب کا جواب اس وقت دینا ذرا مشکل ہے پھر بھی چند سوالوں پر بات ہو سکتی ہے۔ راؤ زاہد نے سوال کیا ہے کہ آپ عسکری انتظامیہ کی بات کرتے ہیں، وہ کون سا اہم سرکاری ادارہ ہے اور ان کا کیا کردار ہے؟ بھائی عسکری انتظامیہ سے مراد افواجِ پاکستان ہیں جو ملک کی حفاظت کے ذمہ دار ہیں اور ان کا کردار اہم ہے۔ ان کی مکمل کوشش رہی ہے کہ ملک میں سیاسی نظام اچھے طریقے سے چلتا رہے مگر سیاسی لوگ ان کو اکثر تنقید کا نشانہ بناتے رہتے ہیں جو کسی طور پر مناسب طرزِعمل نہیں ہے۔ پھر شانتی دیوی کا سوال ہے۔ کیا جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں اضافہ ہو سکتا ہے؟ ہاں ایسا ممکن ہے مگر ہو سکتا ہے کہ جنرل باجوہ اس پر راضی نہ ہوں۔ طارق خان صاحب کا سوال ہے عمران خان کے ساتھ کون سے روحانی لوگ ہیں؟ کچھ روحانی حلقے عمران کے لیے دعا گو ضرور ہیں اور ان کی دعا اور لوگوں کی خواہش کی وجہ سے عمران خان اپنا وقت پورا کرتے نظر آتے ہیں۔ آنے والے دن پاکستان کے عوام کے لیے بہتری کی نوید لا رہے ہیں، اس میں عمران کا کتنا حصہ ہے وہ وقت ہی بتا سکے گا۔

تازہ ترین