یہ دور، قلم اور زبان کے جسمانی ریمانڈ کا دور ہے۔ جبر کی ایک خوبی یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ اظہار کے نئے طریقے متعارف کرا دیتا ہے، جہاں سچا قلم کار منہ پر استعاروں کا ماسک پہن کر بات بھی کر جاتا ہے اور پکڑا بھی نہیں جاتا۔ شاید موجودہ عہد بھی ایسی بےشمار مثالیں چھوڑ جائے گا اور جب سورج اپنی آخری ہچکی لے چکا ہوگا تو بہت سے نئے اور تازہ دم دماغ ریاست کے مقفل دروازوں پر دستک دیں گے۔ ہمیشہ سے دستور رہا کہ بولنے والوں کو گنگ کر دیا جائے، زبان میں آبلے پرو دیے جائیں۔ کہا گیا کہ ’’آگہی موت ہے‘‘ اسی لیے کہا گیا کہ لاعلم رہنا بھی ایک نعمت ہے۔ جن پر آگہی کے در وا ہوئے، ان پر حیات تنگ کر دی گئی۔ لکھنے والوں سے مرضی کے مطابق لکھوایا گیا۔ ایسے دور میں بولنے، لکھنے اور کسی حد تک سوچنے پر سزائیں تجویز کر دی گئیں، جب بات کہنے کے ہزاروں طریقے دنیا میں رائج ہو چکے ہیں۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے فرمایا کہ جب زمبابوے، کانگو اور یوگنڈا بھی ہتکِ عزت کو فوجداری قوانین سے نکال چکے، تب ایک ایٹمی اسلامی اور بظاہر جمہوری ملک میں عوامی نمائندوں پر تنقید کو جرم قرار دے دیا گیا۔ قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کرکے آرڈی نینس لایا گیا۔ سزا تین سال ہو یا پانچ سال، جن کے گریبانوں پر ہاتھ ڈالنا مقصود تھا، بغیر ثبوت کے ڈال دیا گیا۔ کرایہ داری ایکٹ کی خلاف ورزی پر ملک کے اہم دانشور کو جیل جانا پڑا، کبھی استاد دامن کے جھونپڑے سے بم برآمد کیے گئے۔
ہر دور کے حکمران کی خواہش رہی کہ ان کے خلاف بولنے والوں کی زبانیں نوچ لی جائیں اور ان کے حلق میں سلگتے کوئلے اس طرح اتارے جائیں کہ ان کا اظہاریہ بےمعنی ہو جائے مگر ہر دور میں خاموشی کی زبان اس قدر مضبوط حوالہ بنی کہ طاقت تھر تھر کانپنے لگی۔
ہمیشہ سے دیکھا گیا کہ سکوت اوڑھ چکا دریا اور حبسِ موسم ہمیشہ طوفان کا ابتدائیہ ہوتا ہے۔ ہر حبس دیوارِ زنداں کی پہلی دراڑ ہوا کرتا ہے۔ آرڈی نینس نہ بھی آتا تو بےچارے عوام کو پکڑ کر جیل بھیجنے میں بھلا کون سی مشکل ہے۔ ضلع کے ڈپٹی کمشنر کے پاس زبان بندی، ریونیو حدود میں داخلے پر پابندی اور نظربندی کے اختیارات تو 1960سے نافذ العمل ہیں۔ ایف آئی اے کا ایک استغاثہ برسوں تک آپ کو جیل میں رکھ سکتا ہے۔ بےگناہی ثابت کرتے کرتے عمر بیت جاتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ فیصلہ کون کرے گا کہ کون سی خبر جھوٹی ہے یا سچی، کیونکہ ہر شخص کا سچ اور جھوٹ کا اپنا معیار ہے۔
با اختیار قوتوں کو یہ بات سمجھ کیوں نہیں آتی کہ چپ بھی ایک طرح کا نفرت بھرا احتجاج ہوتا ہے اور خامشی کی چیخ ایوانوں میں لرزہ طاری کر سکتی ہے۔ عوامی احتجاج اور سوشل میڈیا پر نفرت بھری تحریریں دراصل حکومت کے خلاف عملی تحریک کا راستہ روک دیتی ہیں۔ اگر یہی نفرت بھرا بلوہ سوشل میڈیا اور خبروں سے نکل کر سڑکوں پر آ گیا تو کوئی حصار انہیں روک نہیں سکے گا۔ اس لیے لوگوں کو غصہ نکالنے کے مواقع ملتے رہ جائیں تو بہتر ہو گا۔
چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے درست فرمایا کہ ایف آئی اے عوام کی حفاظت کے لیے ہے، عدم تحفظ پیدا کرنے کے لیے نہیں۔ حیرت کی بات ہے جن اداروں نے لوگوں کی حفاظت کرنی ہے وہ اپنے ہی لوگوں سے بچنے کے لیے خود اپنی ہی حفاظت پر تعینات ہیں۔ عزت نفس عام آدمی کی بھی اتنی ہی اہم ہے جتنی کسی بڑے عہدیدار کی، پھر قومی اسمبلی کے عین عروج کے دنوں میں صدارتی آرڈیننس کی کیا ضرورت تھی؟ کوئی تو ہے جو وزیر اعظم کے کھاتے میں ایسی ترامیم کا اضافہ لکھوا رہا ہے۔
خبر کی بنیادی تعریف ہی یہی ہے، جسے چھپایا جارہا ہو اور وہ منظر عام پر آ جائے۔ دنیا بھر میں ہر بڑی خبر کی پہلے تردید کی گئی اور پھر کچھ عرصے بعد اسے تسلیم کر لیا گیا۔ خبر میں جھوٹ اور سچ تلاش کرنے میں ایک مدت درکار ہوتی ہے۔ فوجداری انداز میں خبر دینے والے کو جیل بھیج دینا قرین قیاس نہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کو اپنی صفوں میں ایسے لوگوں کو تلاش کرنا چاہیے جو ان کے بیانیے کے برعکس جبر اور حبس کی فضا پیدا کر رہے ہیں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے محبس میں دراڑ ڈال دی ہے۔ بقول احمد فراز
حبس موسم کا ہو، ذہن کا ہو، اس عالم میں
لو بھی چلتی ہو تو انداز صبا ہے اس میں