میں ایک عرصہ سے کشمیر کی سیاست کا بہت قریب اور باریک بینی سے مشاہدہ کر رہا ہوں۔ کشمیر کی حکومتوں میں چند لیڈروں کے علاوہ میکرو لیول پر کسی نے کشمیر جے معاملے کو بین الاقوامی سطح پر نہیں اٹھایا۔ پاکستان تحریک انصاف نے کشمیر سے متعلق پاکستان کے وژن کو بین الاقوامی سطح پر ضرور کچھ آگے بڑھایا ہے لیکن اِس تناظر میں کچھ ناقدین کا کہنا ہے کہ موجودہ وزیراعظم آزاد کشمیر اے کیو نیازی ویسا جاندار کردار ادا کرنے سے قدرے پیچھے رہے ہیں جس کی اُن سے توقع کی جا رہی تھی۔ممکن ہے کہ اُن کا بین الاقوامی وژن عمران خان کے وژن سے میچ نہ کرتاہو۔ اُن کے خلاف مختلف گوشوں سے آوازیں اٹھ رہی ہیں جو نیک شگون نہیں۔ یہ آوازیں اُن کے عزیزوں اور رشتہ داروں کی طرف سے کچھ تقرریوں اور تبادلوں کی ہیں۔
آزاد کشمیر کی سیاست سے وابستہ کچھ افراد تو یہ بھی کہتے ہیں کہ وزیراعظم آزاد کشمیر انتہائی نچلی سطح کے تقرر و تبادلوں پر بھی اثر انداز ہو رہے ہیں۔ دوسری طرف بیوروکریسی اور ایم ایل اے بھی اِس طرزِ عمل پر اپنے دائرہ اختیار میں مداخلت کے شاکی ہیں۔ اس طرح بےضابطگیوں اور الزامات سے پی ٹی آئی کا امیج خراب ہو رہا ہے جب کہ پارٹی اب سے چند ماہ بعد بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے والی ہے۔ عبدالقیوم نیازی اگر اِسی روش پر قائم رہے تو اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ بلدیاتی انتخابات میں پی ٹی آئی کوئی کارنامہ سر انجام نہ دے سکےگی۔
مختلف وزراء اور ایم ایل ایز کو وزیراعظم کی طرف سے ان کے معاملات میں مداخلت یا ان کو دیوار سے لگانے کی کوشش کرنے کے بارے میں سرگوشیاں کرتے سنا گیا ہے۔ یہ بحث بھی شدت پکڑ رہی ہے کہ دوسری جماعتوں کے ساتھ مل کر پی ٹی آئی کو نظرانداز کیا جا رہا ہے، یہی صورتحال برقرار رہی تو معاملات پیچیدہ ہو سکتے ہیں۔
اس بار امید کی جا رہی تھی کہ پی ٹی آئی حکومت کشمیر میں غیر ملکی سرمایہ کاری/فنڈنگ لائے گی اور ایک ایسا پلیٹ فارم قائم کرے گی کہ کشمیری عوام بڑی تبدیلی محسوس کریں گے لیکن ایسی کوئی بات اب تک نظر نہیں آئی بلکہ معاملات اس کے برعکس دکھائی دے رہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کو کشمیرکے معاملات کا فوری نوٹس لینا چاہیے اور اس سلسلے میں پارٹی کارکنوں اور سینئر قیادت سے مشاورت کرنی چاہیے تاکہ بروقت اصلاح ہوسکے اور کشمیر کی ترقی اور خوشحالی کا آغاز پارٹی کے تصور کے مطابق ہو۔
آزاد کشمیر کی سابقہ حکو متوں کا جائزہ لیں تو سردار محمد ابراہیم خان، سردار محمد عبدالقیوم خان اور بیرسٹر سلطان محمود چودھری کے ادوار ہی ایسے نظر آتے ہیں جن میں مسئلہ کشمیر کو بین الاقوامی سطح پر پذیرائی ملی، بیرونی سرمایہ کاروں نے بھی کشمیر میں دلچسپی لی۔ پی ٹی آئی کا وژن ہمیشہ سے غیر ملکی سرمایہ کاری کو دعوت دینا اور اس کے ساتھ ساتھ عوام کی فلاح و بہبود رہا ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آزاد کشمیر میں اس وژن کو فی الحال جان بوجھ کر نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ یہ صورتحال وزیراعظم عمران خان کی فوری توجہ کی متقاضی ہے، امید ہے وہ حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے، وزیراعظم آزاد کشمیر کے منصب پربراجمان شخصیت کو فعال کریں گے یا اُن کی جگہ کسی ایسی متحرک اور وژنری شخصیت کو یہ ذمہ داری تفویض کردیں گے جو کشمیر کی ترقی اور خوشحالی کی راہ ہموار کرے۔ اس معاملے میں تاخیر پارٹی کی ساکھ کیلئے نقصان دہ ہوگی۔آزاد کشمیر کی ترقی و استحکام مقبوضہ کشمیر کی آزادی کا پیش خیمہ ہو گا، ان شاء اللہ۔
واضح رہے کہ ایک خوشحال آزاد کشمیر ہندوستانی مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لیے اہم ہے۔