عقائددین کی روح ہیں اور عبادات خالقِ حقیقی سے قرب کا ذریعہ۔ عقائد اہلِ ایمان سے اللہ کے حضور مکمل فرمانبرداری کا مطالبہ کرتے ہیں۔ عبادات اِس فرمانبرداری کا مظہر اور اظہار کا ذریعہ ہیں۔ زیرِ نظر تحریر میں عقائد اِسلام اور عبادات کے باہمی تعلق کو سامنے رکھتے ہوئے عبادات کے وسیع تر مفہوم اور مقاصد کو موضوعِ بحث بنایا گیا ہے۔ تخلیقِ انسانی کو موضوعِ بحث بناتے ہوئے انسان کی ابدی کامیابی کیلئے انتظامِ الٰہیہ کی تشریح کی گئی ہے۔ یہ انتظامِ الٰہیہ اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ عبادات رضائے الٰہی کے حصول کا بنیادی ذریعہ ہیں۔ اس لیےعبادات کے نظام کو صرف چند ظاہری عبادات تک محدود کرنے کی بجائے ان کے وسیع تر مفہوم کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
مادی عوامل انسان کو مادی اشیاء کی طرف اور روحانی عوامل انسان کو اللہ کی طرف کھینچتے ہیں۔ مادی عوامل انسان کیلئے اس لیے کشش رکھتے ہیں کہ وہ ذاتِ انسانی کی مادی ضروریات اور خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ ہیں جبکہ روحانی عوامل انسان کی ذات کے روحانی پہلو کی تسکین کا ذریعہ ہیں۔ قرب الٰہی کا حصول روحانی تسکین کا نکتہ انتہا ہے۔ اس طرح ذاتِ انسانی دو مخالف قوتوں کے درمیان معّلق ہوجاتی ہے۔ ایک پہلو کی طرف جھکائو دوسرے پہلو سے دوری کا باعث بنتا ہے۔ انسان کا روحانی تعلق اگرمضبوط ہوتا ہے تو مادی تعلق کمزور ہوجاتا ہے۔ اسی طرح مادی تعلق کی مضبوطی روحانی تعلق کی کمزوری کا باعث بنتی ہے۔
یہاں یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ دونوں عوامل مادہ اور روح اپنے اپنے اندر ایک قوتِ خاص رکھتے ہیں جن کو انسان دریافت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مادہ میں مضمر قوت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مادہ کی نموسے آج انسان سائنسی ایجادات کے ذریعے مظاہرِ دنیا کو مسخر کر رہا ہے۔ دوسری طرف جہاں روح کے جوہرِ خاص کا تعلق ہے اسکی صلاحیت بے کراں اور تمام حدود سے ماورا ہے۔ روح اپنے اندر عالم مابعدالطبیعات تک رسائی کی صلاحیت رکھتی ہے۔ روح میں پنہاں صلاحیت کی نمو سے ایک انسان عالم محدود سے عالم لامحدود تک رسائی حاصل کر لیتا ہے۔ عالم محدود سے عالم لامحدود تک پہنچنے کی سعی کو عرفِ عام میں تصوف کہا جاتا ہے۔ اس سفر کی آخری منزل فنافی اللہ کا وہ مقام ہے جہاں ایک صوفی اپنی ذات کو محدود اور لا محدود کے خالقِ حقیقی کی ذات میں فنا کردیتا ہے۔ اسی لیے صوفیانہ کلام میں فنافی اللہ کا اظہار کثرت سے ملتا ہے۔
رانجھا رانجھا کردی نی ہن میں آپے رانجھا ہوئی
سدو مینوں دھیدو رانجھا ہیر نہ آکھو کوئی
عالم محدود سے عالم لا محدود کا سفر دراصل سفرِ عشق ہے جہاں ایک صوفی عشقِ حقیقی سے سرشار ہوکر اپنی ابدی منزل کی طرف سفر کرتا ہے اور راستے میں آنے والی تمام مشکلات کو مقصد سے لگن کی بنیاد پر زیر کرتا ہے۔ یہ سفر لامحدود و جذبہ عشق کے بغیر کبھی ممکن نہیں ہوسکتا ہے۔ عالم محدود میں رہتے ہوئے کیا انسان اس علم تک رسائی حاصل کرسکتا ہے جو اس کے عالمِ لا محدود کے سفر میں راہنمائی فراہم کرے۔ ظاہری بات ہے کہ عالم محدود میں علم بھی انہی حدود کا مقید ہے کیونکہ اس علم کا ماخذ انسانی حواسِ خمسہ کے علاوہ کوئی ذریعہ نہیں۔ جو حدود و قیودحواسِ خمسہ کی ہیں وہی ان سے حاصل ہونے والے علم کی بھی ہیں۔ چونکہ عالم محدود جزو ہے اور علم لامحدود کُل اسی لیے جُزوکا علم کل تک رسائی حاصل نہیں کرسکتا۔ مگر کُل کا علم جزو تک رسائی رکھتا ہے۔ لہٰذا عالمِ لا محدود تک رسائی کیلئے وہی علم کارگر ہوگا جو عالم لامحدود سے آئے۔ عالم لامحدود سے عالم محدود تک یہ علم جس ذریعے سے پہنچتا ہے اس ذریعہ کو مذہب کی اصطلاح میں ’’وحی‘‘ کہا جاتا ہے۔
انسان کی صراطِ مستقیم پر رہنمائی کیلئے عبادات کا نظام دیا گیا جن کو ارکانِ اسلام کہا جاتا ہے۔ انسان کی عملی زندگی میں عبادات مادے اور روح کی کشمکش میں خالق حقیقی سے روحانی تعلق کو مضبوط کرنے کا ذریعہ ہیں۔ اس روحانی تعلق کی مضبوطی کے نتیجہ میں زندگی کا مادی پہلو روحانی پہلو کے تابع ہوجاتا ہے اور روحانی بلندی حاصل کرنے میں ایک معاون کا کردار ادا کرتا ہے۔ مثال کے طور پر اقامت الصلٰوۃ سے انسان جب اپنے خالق کی مدد طلب کرتا ہے تو وہ تمام مادی اور دنیاوی بتوں کو توڑدیتا ہے۔ روزہ کی حالت میں مادی و نفسانی خواہشات کو ترک کرکے وہ اس روحانی مقام پر پہنچتا ہے جہاں اس کا خالق اس کو بلا واسطہ اجر دینے کا اعلان کرتا ہے۔ زکوٰۃ کی ادائیگی سے انسان اپنی مادی ضرورتوں کو پسِ پشت ڈالتا ہے اور حکم الٰہی کی پیروی سے توکل علی اللہ کی عملی تصویر بن جاتا ہے اس سے ایک ایسا معاشرہ تشکیل پاتا ہے جس میں اہلِ ایمان رشتہ اخوت میں بندھ جاتے ہیں۔ یہی خالق حقیقی کی منشا ہے (الحجرات - ۱۰)۔ حج بیت اللہ کی ادائیگی بھی انسان کو انفرادیت پسندی سے ماورا کرکے ایک عالمگیر مسلم اجتماعیت (امتِ واحدہ) کا حصہ بنادیتی ہے۔
تاہم نظامِ عبادات سے یہ مراد نہیں کہ عبادات صرف نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج پر مشتمل ہیں بلکہ عبادات کے وسیع تر مفہوم کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس مفہوم کو سمجھنے کیلئے ہمیں قرآن کے اسلوب بیان پر غور کرنا ہوگا۔ قرآن میں جہاں پر کلام میں قطعیت کا عنصر پیدا کرنا مقصود ہو وہاں پہلے نفی اور پھر اثبات کا انداز ملتا ہے ۔ اپنی الوہیت کے اظہار کیلئے اللہ تعالیٰ نے یہی انداز اپنایا ہے۔ ’’لا الٰہ‘‘ نہیںکوئی معبود ’’الااللہ‘‘ مگر اللہ یعنی الہٰ صرف اللہ ہی ہے۔ خالق کائنات نے اسی اسلوب کلام میں جن و انس کی تخلیق کا مقصد یوں بیان کیا:
ترجمہ:’اور ہم نے جن و انس کو صرف اپنی عبادت کیلئے ہی پیدا کیا ہے‘
اس اسلوب بیان میں قطعیت کا عنصر غالب ہے یعنی دوسرے الفاظ میں جن و انسان کی تخلیق کا مقصد صرف اللہ کی عبادت ہی قرار دیا۔ اس تخلیق کے مقصدِ واحد کی عملی تصویر حضورﷺ کی ذات اقدس ہے۔ اس سے بخوبی اخذ کیا جاسکتا ہے کہ عبادات کی تعریف میں وہ تمام اعمال شامل ہیں جو حضورﷺ نے اپنی حیات طیبہ میں سر انجام دیے۔ مختصراً یہ کہ حضورﷺ نے جو بھی عمل کیا وہی عبادات ہیں اور درحقیقت اطاعت رسولﷺ سے ہی روز محشر حوضِ کوثر پر شفاعت کا جام نصیب ہو گا۔؎
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)