عالمی سطح پر تیزی سے تبدیل ہوتے ہوئے حالات، اقتصادی معاملات اور مستقبل کے لائحہ عمل کے لیے ترقی پذیر ممالک میں ایک مستقل تھنک ٹینک قائم کرنے کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ انتہائی ضروری ہو گیا ہے کہ ان کی مشاورت سے آگے بڑھا جائے۔ روس کی طرف سے یوکرین پر حملہ بظاہر جارحیت کے زمرے میں آتا ہے مگر یہ تنازع گزشتہ کئی برسوں سے چل رہا تھا۔ امریکہ اور یورپی یونین کا یوکرین کو نیٹو کا حصہ بنانے کا مقصد روس اور چین کو نیچا دکھانا تھا جو روس کے لیے ناقابلِ قبول تھا، روس نے یوکرین کو نیٹو میں شمولیت سے باز رکھنے کے لیے متعدد اقدامات کیے، افغانستان سے نیٹو کے انخلا کے بعد ایشیائی خطے پر گرفت مضبوط رکھنے کے لیے دنیا کی موجودہ سپر طاقت امریکہ اور یورپی ممالک کے لیے یوکرین کو فوری طور پر نیٹو میں شامل کرنا مجبوری بن چکا تھا، دوسری اہم بات یہ کہ دنیا کے دیگر اہم ممالک کا چین اور روس کی طرف جھکاؤ امریکہ اور یورپی ممالک کے لیے ناقابلِ برداشت ہوتا جارہا تھا۔ مشرقِ وسطیٰ میں بھی ماضی میں ہونے والے ملٹری آپریشن کے دوران امریکی اور نیٹو افواج کو روس کی رکاوٹوں کا سامنا رہا۔ اس دوران امریکہ سمیت یورپی ممالک میں ہونے والے انتخابات میں روسی مداخلت کے چرچوں کے بعد اُن ممالک پر روسی عزائم عیاں ہو گئے۔ اِن حالات میں روس کی طرف سے یوکرین پر حملہ کے موقع پر وزیراعظم عمران خان کا دورۂ روس، جس کو اپوزیشن کی طرف سے تنقید کا سامنا بھی رہا، مثبت اور تعمیری اقدام ہے جو یقینی طور پر ملکی دفاعی تھنک ٹینک کے مشورے پر کیا گیا کیونکہ دنیا کے بدلتے ہوئے حالات میں پاکستان کو امریکہ کا ساتھ دینے کے نتیجے میں ماضی کے نقصانات کو مدِنظر رکھنا انتہائی ضروری ہے- ملک کے اندر وزیراعظم عمران خان کی حکومت کے خلاف اپوزیشن جو قانون سازی کے دوران متعدد بار اپنے ہی ممبران کے عدم تعاون کے باعث ناکام رہی اور حکومت کئی سخت ترین قانونی ترامیم کرنے میں کامیاب رہی، موجودہ مارچ اور عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کے دور دور تک کوئی امکان نظر نہیں آرہے۔ عمران خان حکومت بظاہرناکام اور کمزور دکھائی دیتی ہے مگر مؤثر اندرونی حمایت سے اُن کی حکومت کو مشکلات کے علاوہ کوئی خطرہ نہیں۔ موجود ہ عالمی حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو روس کی طرف سے یوکرین پر حملے کے بعد مغربی ممالک عملی طورپر یوکرین کی مدد کو نہیں پہنچے۔ اقوامِ متحدہ اور سلامتی کونسل کی قراردادیں دہرے معیار کے باعث اتنی اہمیت نہیں رکھتیں۔ اقوامِ متحدہ کی قراردادیں منظور ہوئے کتنا عرصہ گزر چکا مگر کشمیر کا تنازع حل نہیں ہورہا۔ انڈیا ان قراردادوں کو مسلسل نظر انداز کررہا ہے۔ فرانس کے دارالحکومت پیرس سے کشمیر پیس فورم کے صدر زاہد اقبال ہاشمی کی قیادت میں ایک ملین دستخطی مہم شروع کی گئی کہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد کرتے ہوئے کشمیریوں کو حقِ خود ارادیت دیا جائے۔ بھارتی افواج کے مظالم کا نوٹس لیا جائے۔ دوسری طرف انڈیا مزید سخت اقدامات کی طرف بڑھ رہا ہے۔ کوئی کشمیریوں کی حمایت اور یکجہتی کے لیے تیار نہیں، پاکستان کے علاوہ سب کو انڈیا کے مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں پر مظالم اور ان کے حق میں مظاہرے نظر نہیں آتے، اس سلسلےمیں پاکستانی حکومت اہم اداروں کو تبدیل ہوتے ہوئے عالمی حالات میں مثبت اور ٹھوس حکمت عملی سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ ملک میں مہنگائی، لاقانونیت اور کرپشن عروج پر پہنچ چکیں، ان کے تدارک کی طرف غور کرنا چاہیے، اداروں کو موثر بنانے کے لیے حکومت کو ان کی تنظیمِ نو پر توجہ دینی چاہیے، غیرضروری اضافی عہدوں کو ختم کرکے اخراجات میں کمی اور ضروری اقدامات پر فنڈز خرچ کیے جانے چاہئیں، ملک مضبوط ہوگا تو عالمی بدلتے حالات کا موثر طریقے سےمقابلہ کیا جا سکے گا اور آزادیٔ رائے کے لیے میڈیا کو آزادی سے کام کرنے دیں، میڈیا کی آزادی سے اصلاح اور بہتری آتی ہے، اس مقصد کے لیے میڈیا کی مشاورت سے قانون سازی وقت کی اہم ضرورت ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)