• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج کل میٹرک کا ایک اسٹوڈنٹ میرا شاگرد ہے۔ موصوف کی اردو کمزور ہے اس لیےاس کے والد صاحب نے سفارش کی کہ آپ اسے اردو پڑھا دیا کریں۔ میں نے بڑا منع کیا کہ میرے پاس بمشکل گھر والوں کے لیے وقت بچتا ہے، یہ ذمہ داری کسی اور پر ڈال دیں لیکن قبلہ چونکہ میرے بہت اچھے دوست بھی ہیں لہٰذا پورے رعب دبدبے کے ساتھ اپنی بات منوا کے چھوڑی۔ اب ہوتا یہ ہے کہ میں بچے کو اپنے آفس بلا لیتا ہوں اور اردو کی کچھ چیزیں سمجھا کر الگ کمرے میں بٹھا دیتا ہوں کہ یاد کرکے مجھے سنائے۔فری کی ٹیویشن پڑھاتے ہوئے ایک ہفتہ ہوگیا ہے اور مجھے احساس ہوا ہے کہ موصوف کی صرف اردو ہی نہیں، انگلش، ریاضی، صحت اور حافظہ بھی کمزور ہے۔ایک دن میں نے کمرے کے باہر سے گزرتے ہوئے اچانک کچھ ایسی آوازیں سنیں کہ میرا دل اچھل کر حلق میں آگیا۔ بچہ غضب ناک انداز میں کسی سے کہہ رہا تھا’’اس پر بم گرادو، دوسرے کے سر میں گولی مارو، اور تیسرے پر ٹینک چڑھا دو‘‘۔ میرا خون خشک ہوگیا۔ اتنی سی عمر میں بچہ دہشت گردی کی راہ پر چل پڑا تھا۔ میں نے ڈرتے ڈرتے اندر جھانکا تو موصوف پورے انہماک سے ’’پب جی‘‘ کھیل رہے تھے۔میرے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ اسے ڈانٹا اور سبق یاد کرنے کا کہا۔ کچھ دیر بعد مجھے خیال آیا کہ آج کل کے بچے صرف نصابی کتابیں ہی پڑھتے ہیں، اُنہیں تاریخ سے کوئی شغف نہیں۔ یہ خیال ذہن میں آتے ہی میں نے سوچا کہ بچے کواس عمر میں اگر عالمی تاریخ سے بھی آگاہ کیا جائے تو یقیناً آگے چل کر بہت اچھے نتائج نکلیں گے،ویسے بھی اگر میں کسی بچے کو پڑھا رہا ہوں تو مجھے کچھ اسپیشل ایجوکیشن دینی چاہیے۔ میں نے اسی وقت طے کیا کہ اِس بچے کو میں نصابی ایجوکیشن کے ساتھ کچھ عالمی حقائق سے بھی آگاہ کروں گا۔ اگلے ہی دن سے میں نے برخوردار کو آدھا گھنٹہ مزید ٹائم دینا شروع کردیا اور تفصیلاً بتانے لگا کہ امریکہ اور ویت نام کی جنگ کیسے شروع ہوئی، کیا محرکات تھے اور کتنی تباہی ہوئی۔ بچہ انتہائی انہماک سے یہ لیکچر سنتا اور میرا دل خوشی سے جھوم اٹھتا کہ میں ایک ’’اپ کمنگ دانشور‘‘ کی گرومنگ کر رہا ہوں۔ اس دوران اُردو کے حوالے سے میں نے سر توڑ کوشش کرلی لیکن بچے کے دماغ میں شاید پتھری تھی، حرام ہے جو اسے کوئی بات سمجھ آئی ہو۔مجھے اپنا میٹرک کا دور یاد آگیا۔ جس دن اردو کا پیپر ہوتا تھا اس روز کتاب کو ہاتھ تک نہیں لگایا جاتا تھا، یہ آسان ترین پیپر مانا جاتا تھا اور ہنستے کھیلتے بہترین نمبروں سے پاس ہوجایا کرتے تھے۔ تب کسی کے وہم و گمان میںبھی نہ تھا کہ ایک دور ایسا بھی آئے گا کہ اردو کی ٹیوشن پڑھنے والے بھی پیدا ہوجائیں گے۔میں روزانہ بچے کو کچھ جملے لکھنے کے لیےدیتا ہوں اور ایسا ایسا جواب آتا ہے کہ میں سکتے میں آجاتاہوں۔ کچھ روز پہلے بچے نے دو دن کی چھٹی مانگی۔ میں نے شرط عائد کردی کہ چھٹی کی یہ درخواست مجھے لکھ کر دکھائو۔ بچہ اگلے ہی لمحے درخواست لکھ لایا۔مجھے بڑی خوشی ہوئی۔کہا پڑھ کر سنائو۔ اس نے اٹک اٹک کر درخواست اردو میں پڑھ دی۔ میرا سینہ فخر سے پھول گیا۔ آگے بڑھ کر اس کے ہاتھ سے کاغذ لیا تو چودہ طبق روشن ہوگئے۔ ساری اردو، انگریزی میں لکھی ہوئی تھی۔

اردو الفاظ کا مطلب بھی یہ بچہ ایسا ایسا نکالتا ہے کہ میں ششدر رہ جاتاہوں۔ اس کے نزدیک ’’قوی‘‘ کا مطلب ہے ’’اداکار قوی‘‘۔واحد جمع بنانا بھی اس پر ختم ہے۔ اس کے نزدیک گھر کی جمع ہے، گھررررر۔اُستاد کی جمع ہے کافی سارے اُستاد اور مرد کی جمع ہے مردود۔مذکر مونث میں بھی اس کے اپنے نظریات ہیں۔ موصوف کے ہاں ابو کی مونث ہمسائی، بھائی کی مونث اس کی گرل فرینڈ، اُلو کی مونث اُلّی، جگنو کی مونث جگنی اور کتے کی مونث اس کی دور پار کی کوئی تائی ہے۔میں نے وجہ دریافت کی تو فرمایا کہ امی اُنہیں اسی نام سے لکھتی اور پکارتی ہیں۔الفاظ کا جملوں میں استعمال بھی اس بچے پر ختم ہے۔ ایک دفعہ میں نے کہا کہ ’’کھچا کھچ‘‘ کو جملے میں استعمال کرو۔ فوراً تحریر کیا کہ’’ میرے خالہ خالو کھچا کھچ ہیں‘‘۔ میں نے حیرت سے وضاحت چاہی تو اطمینان سے بولا’’ خالہ ’کھچا‘ ہیں اور خالو’کھچ‘‘۔اسی طرح ایک دن ’انضمام‘ کو جملے میں استعمال کرتے ہوئے لکھاکہ’’انضمام الحق اچھا کھلاڑی تھا‘‘۔اردو اشعار کی تشریح کرنی ہو تو موصوف پورے شعر کی بوٹی بوٹی کرکے ایک لفظ کا اضافہ کئےبغیر سارا شعر جوں کا توں لکھ دیتے ہیں۔شعر تھا’’خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے…خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے‘‘ ہونہار طالبعلم نے تشریح کی’’اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ خودی کو ہر تقدیر سے پہلے اتنا بلند کر کہ خدا خود بندے سے پوچھے بتا کیا رضا ہے تیری‘‘۔محاوروں کا استعمال بھی اپنی انتہا کو پہنچا ہوا ہے۔ میں نے پوچھا ’’حلوائی کی دکان دادا جی کی فاتحہ‘‘ کو جملے میں استعمال کرو۔ جواب آیا’’میرے دادا جی حلوائی تھے لہٰذامیں جب بھی حلوائی کی دکان پر جاتا ہوں اپنے دادا جی کی فاتحہ ضرور پڑھتاہوں‘‘۔

آج ایک ایسی بات ہوئی کہ میں نے طے کیا ہے کہ اپنے دوست سے معذرت کرلوں یا اپنا گریبان چاک کرکے ویرانوں میں نکل جائوں۔ ہوا یوں کہ امریکہ اور ویت نام جنگ کے بارے میں پورا ہفتہ دلجمعی سے تاریخ بتانے کے بعد میں نے پوچھا ’’بیٹا ساری تفصیل سننے کے بعد تم کس نتیجے پر پہنچے ہو کہ امریکہ غلط تھا یا ویت نام؟‘‘۔ بچے نے کچھ دیر سوچا، پھر اپنی کنپٹی پر خارش کرتے ہوئے بولا’’سر! یہ تو آپ نے بتایا ہی نہیں دونوں میں سے ہندو کون تھا؟‘‘۔

تازہ ترین