ڈاکٹر آسی خرم جہا نگیری
نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:"پچھلے نبیوں سے جو وصف تمہیں پہنچا ہے، وہ شرم و حیا ہے۔"حدیث نبویؐ شاہد ہے کہ ایمان کی ستّرسے زائد شاخیں ہیں"حیا بھی ایمان کی ایک شاخ ہے"نبی پاک ﷺ اور خلفائے راشدینؓ نے ایمان کی اس شاخ کی بھرپور آبیاری کی اور اس کے بعد ائمہ و اولیاء نے اسے اسی طرح ترو تازہ اور زندہ رکھا۔
وادی مہران کے مردِ قلندر ،نام ور صوفی بزرگ حضرت شیخ عثمان مروندی المعروف بہ لعل شہباز قلندرؒ کا شمار برصغیر پاک و ہند کے اکابر صوفیاء اور مشائخ عظام میں ہوتا ہے۔ آپ کی عظیم المرتبت شخصیت کے فیضان سے وادی مہران کا چپہ چپہ سرمست و سرشار ہے۔
ایک روایت کے مطابق حضرت عثمان مروندی المعروف لعل شہباز قلندرؒ کے والد ماجد حضرت سید ابراہیم کبیر الدین ؒ نے خلیفۂ ثالث حضرت عثمان غنی ؓ سے والہانہ محبت کے باعث ان کا نام سید عثمان رکھا۔ایک روایت میں آپ کا نام شاہ حسین بھی ملتا ہے۔ سیرت حضرت لعل شہباز قلندرؒ میں آپ کے والد کے ایک تذکرے سے پتا چلتا ہے کہ "حضرت ابراہیم کبیرالدین ؒ کی جب شادی ہوئی تو ایک مرتبہ انہیں خواب میں حضرت علیؓ کا دیدار ہوا،آپؒ نے عرض کیا"یا امیر المومنین!آپ میرے لیے اللہ کے حضور فرزند صالح کی دعا فرمائیں "حضرت علی ؓ نے ارشاد فرمایا "اللہ تعالیٰ تمہیں ایک فرزند صالح سے نوازے گا،اس کی ولادت پراس کا نام محمد عثمان رکھنا۔
آپ نے علوم دینیہ اکثر اپنے والد اور اپنے عہد کے جید علماء و اکابرین سے حاصل کیے،سات سال کی عمر میں قرآن پاک حفظ کیا،علوم دینیہ اور عربی ادب پر آپ کی کئی کتابیں آج بھی جامعات اور مدارس میں پڑھائی جاتی ہیں۔ آپ نے اپنے عہد کے سلسلہ قادریہ کے مشہور بزرگ حضرت بابا ابراہیم قادریؒ سے بیعت و خلافت حاصل کی،جو دو واسطوں کے بعد حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ اور بارہ واسطوں کے بعد حضرت امام علی رضا ؒ اور اٹھارہ واسطوں کے بعد حضرت علیؓ اور انیس واسطوں کے بعد حضور ﷺ سے جا ملتا ہے۔ بعض تذکرہ نگاروں نے حضرت کو سہروردی بھی لکھا ہے۔
حضرت لعل شہباز قلندرؒ کو اپنے نام محمد عثمان کی نسبت سے بالخصوص حضرت سیدنا عثمان غنی ذوالنورین ؓ سے خصوصی محبت تھی، جس کے باعث آپ اکثر اپنے حلقے میں نہایت عقیدت و محبت کے ساتھ اس واقعے کا ذکر فرماتے تھے کہ "ایک موقع پرآپ ﷺاپنے حجرئہ انور میں تشریف فرما تھے اور لیٹے ہوئے تھے پنڈلی شریف سے معمولی سا کپڑا ہٹا ہوا تھا، صدیق اکبرؓ تشریف لائے، آپؐ بدستور لیٹے رہے، بعد اجازت حضرت عمر ؓ تشریف لائے آپﷺ بدستور لیٹے رہے اور اسی دوران حضرت عثمان غنیؓ تشریف لائے۔آپ کی آمد پرسرورکائناتﷺ نے اپنا کپڑا مبارک درست کرتے ہوئے اپنی پنڈلی و دیگر اعضاء مبارک کو مکمل ڈھانپ لیا، پھر آپؓ کو اجازت دی، حضرت عائشہؓ نے اس بابت دریافت کیا تو آپﷺ نے فرمایا: "اے عائشہؓ ! میں کیوں نہ اس شخص سے حیا کروں، جس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں"۔
تذکرہ نگاروں نے ذکر کیا ہے کہ حضرت لعل شہباز قلندرؒ جب بھی اس واقعے کو بیان کرتے ایک خاص طرح کا سرور و انبساط آپ کے چہرے کی تابانیوں سے جھلکتا ہوا دکھائی دیتا۔آپ نے حضرت عثمان غنیؓ کی الفت،محبت اور چاہت کے باعث اپنا تخلص بھی عثمان ہی رکھا۔قدرت نے آپ کی گھٹی میں پیدائش ہی سے شرم وحیا کا تریاق رکھا تھا۔ آپ سلطان ناصر الدین خان کے مقرر کردہ حاکم قتلغ خان کے دور حکومت میں سہون پہلی بار آئے۔ اس وقت سہون بڑے بڑے زمیں دار، امراء و روساء کی ظالمانہ سرپرستی کے باعث فحاشی وبدکاری اور عصمت فروشی یہاں تک کہ کفر و بت پرستی کا مرکز بنا ہوا تھا، مگر دعوت و عزیمت کے اس پیکر حضرت عثمان مروندی المعروف لعل شہباز قلندر ؒ نے اسلام کی شمع کو منور رکھا اور مسلمانوں کو خوفِ خدا ، عشق مصطفیﷺ، خلفائے راشدینؓ اوراہل بیتؓ کی تعلیمات سے آشنا کیا،بت پرستوں کو دردناک انجام سے آگاہ کیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے آپ کے صبر و استقامت اور تبلیغ کی برکت سے فاسق، فاجر، گمراہ اور بدکار لوگ عمل و کردار کے حامل ہو گئے۔
آپ کی دینی، روحانی اور ایمانی تعلیمات کی برکت سے فحاشی و بدکاری کے مراکز ویران ہوگئے۔ ہزاروں مرد و زن نے آپ کے دست حق پرست پر توبہ کی اور تقویٰ و پرہیز گاری کی زندگی بسر کرنا شروع کر دی جو آپ کی حیات و تعلیمات پر مشتمل آج بھی یاد گار کرامت ہے۔بے شک یہ آپ کی نبی پاکﷺ ، خلفائے راشدینؓ اور اہل بیتؓ سے وابستگی کی روشن دلیل ہے،اپنی ایک منقبت میں فرماتے ہیں: مجھے بہشت کی بھی لالچ نہیں، کیوںکہ میں تو عثمان ؓ کی درگاہ کا غلام ہوں، ہر وقت وہ میری حالت سے آگاہ ہیں۔ جب(ان کا فیضان) میرے ساتھ موجود ہے تو مجھے کس چیز کا ڈر ہے؟میں حیدری قلندری،علی مرتضیؓ کا ادنیٰ غلام ہوں۔ حضرت لعل شہباز قلندرؒ دن نیکی، صبر،شکر، محبت و اخوّت، رواداری، امن و اخوت، تبلیغ و ہدایت اور شریعت و سنّت میں گزارتے اور راتوں کو یادِ الٰہی اور عبادت میں مشغول رہتے۔ دکھی اور پریشان لوگوں کی مدد فرماتے۔
سب سے پیار و محبت سے پیش آتے اور ہر فردکو ایک دو ملاقاتوں میں اپنے اعلیٰ اخلاق سے متاثر کر کے تعلیماتِ اسلام کے مطابق زندگی بسر کرنے کی رغبت کا جذبہ دلوں میں پیدا فرماتے۔ آپ نے بھٹکے ہوئے لوگوں کا رشتہ کفرو شرک سے توڑ کر ان کے حقیقی خالق سے جوڑ دیا۔ انہیں راہِ حق پر گامزن کیا۔
اخلاقی قدروں سے روشناس کرایا اور نیکی و سچائی کی لگن سے دلوں کو معمور کردیا، پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس دور میں سندھ کا اسلامی مرکز سہون بن گیا۔ اس دوران حضرت لعل شہباز قلندرؒ کو جو شہرت و قبولیت حاصل ہوئی، وہ صدیاں گزر جانے کے باوجود بھی برقرار ہے، بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ ہورہا ہے۔