اسلام آباد(ایجنسیاں)وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہاہے کہ بلوچستان میں امریکی ڈرون حملے میں افغان طالبان کے سربراہ ملا منصور کی ہلاکت کی تصدیق ڈی این اے ٹیسٹ کےبغیرممکن نہیں‘طالبان امیر امن میں رکاوٹ نہیں تھا‘ایساہوتاتووہ مری مذاکرات میں شرکت کیوں کرتا‘لیڈرکومارکرطالبان کو میزپرنہیں لایا جاسکتا‘ولی محمد افغانستان میں تھا تو امریکا کےلئے خطرہ نہیں تھا، پاکستان میں داخل ہوتے ہی وہ کیسے خطرہ بن گیا ‘حملہ پاکستان کے باہرسے ہوا‘ابھی اس ملک کا نام نہیں بتاسکتے جہاں سے گاڑی پر میزائل داغاگیا‘ مرنے والے کی لاش اس کا بھانجالے گیاہے‘ پاکستان کو اس واقعہ پر پیشگی اعتمادمیں نہیں لیاگیا‘حملے کے 7گھنٹے بعداطلاع گی گئی‘حملوں کیلئے امریکی جواز مانناجنگل کا قانون تسلیم کرنے کے مترادف ہوگا‘ ملا منصور کو مارکر امن مذاکرات کو سبوتاژکیاگیا‘پہلے یہ کام ملاعمرکی ہلاکت سے ہواتھا‘پاکستان کی خودمختاری کی سنگین خلاف ورزی کے نتیجہ میں پیدا شدہ صورتحال پر غور کے لیے قومی سلامتی کونسل کا اجلاس طلب کیا جا رہا ہے‘ آئندہ تین چار روز میں پاکستان اپنے لائحہ عمل کا اعلان کر دے گا‘اجلاس میں پاک امریکا تعلقات کا جائزہ لیا جائے گا‘ اس قسم کے واقعات سے دونوں ملکوں کے تعلقات پر سنگین اثرات مرتب ہو سکتے ہیں‘ مری مذاکرات سبوتاژ نہ ہوتے تو طالبان کی جانب سے کابل کو جنگ فری علاقہ تسلیم کیا جانے والا تھا‘ امریکا بھی یہ فیصلہ کرلے کہ اس خطے میں کونسی پالیسی موثر اور کارگر ہے ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے منگل کی شام پنجاب ہائوس اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ‘انہوں نے بتایا کہ ملا منصور کے حوالے سے جس شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کا ذکر کیا جا رہا ہے یہ پرویز مشرف کے دور میں جاری ہوئے اور پیپلز پارٹی کے دور میں پاسپورٹ کی تجدید ہوئی‘انہوں نے اس موقع پر امریکی ڈرون حملے کو پاکستان کی خودمختاری کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی‘وفاقی وزیر نے کہا کہ امریکی اقدام اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قانون کی مکمل خلاف ورزی کرتا ہے ‘پاکستان کا موقف وزیراعظم کی واپسی پر سامنے آئے گا جبکہ مشاورت کے بعد حکومت پاکستان کا نقطہ نظر قوم کے سامنے آئے گا‘چوہدری نثار نے واضح کیا کہ ولی محمد نامی شخص کو پہلی مرتبہ شناختی کارڈ 2001 میں جاری کیا گیا تھا اور اسے2002ءمیںکمپیوٹرائز کیا گیا‘2005ءمیں پاسپورٹ جاری ہوا تھا‘ 2011ء میں مذکورہ شخص کے پاسپورٹ کی تجدیدکی گئی تھی تاہم گزشتہ سال انٹیلی جنس کے ذرائع نے انہیں بتایا کہ یہ افغانوں کو پاکستان کے شناختی کارڈ جاری ہوئے ہیں 2015میں ہم نے اس فیملی کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کو منسوخ کر دیا‘سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملا منصور کو پاکستان میں ہی کیوں نشانہ بنایا گیا‘اس کے پاسپورٹ پر ایران، بحرین اور دبئی کے ویزے لگے ہوئے ہیں‘چوہدری نثار نے کہا کہ امریکا کی اس منطق کہجہاں امریکی مفادات کو خطرہ ہوگا حملے کیے جائیں گے، سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا‘ اگر اس منطق سے اتفاق کرلیا جائے تو پاکستان کے دشمن بھی دیگر ممالک میں موجود ہیں تاہم ہم دیگر ممالک کی خودمختاری کا احترام کرتے ہیں‘ اگر طالبان کے سربراہ کو پاکستانی انٹیلی جنس اداروں کی حمایت حاصل ہوتی تو کیا وہ ایک گاڑی میں صرف ڈرائیور کے ساتھ سفر کررہے ہوتے؟امریکا کیلئے خطرہ بننے والے لوگ صرف پاکستان میں نشانہ کیوں؟ سرحد پار دہشت گرد بیٹھے ہیں، پاکستان تو گولہ باری نہیں کرتا‘ ڈیڑھ لاکھ اتحادی فوجی افغان طالبان کو فتح نہیں کرسکے‘ افغان طالبان کو عسکری طاقت سے ختم نہیں کیا جاسکا‘ملا منصور کو ہلاک کرکے پاکستان کے لئے مشکل پیدا کردی گئی ہے‘واقعے کے دوران پاسپورٹ اور شناختی کو نقصان نہ پہنچنے سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ اطلاع ملنے کے بعد ان کا بھی یہی سوال تھا اور اس حوالے سے تحقیقات کی جارہی ہیں کہ پاسپورٹ گاڑی سے ملا یا گمراہ کرنے کے لیے وہاں پھینکاگیا ، تحقیقات کررہے ہیں کہ گاڑی تباہ ہونے کے باوجود پاسپورٹ اور شناختی کارڈ کیسے بچ گئے۔