محمد نعمان چشتی
آل انڈیا مسلم لیگ کا اکتیسواں سالانہ اجلاس ۲۲ تا ۲۴ مارچ ۱۹۴۰ء قائداعظم محمد علی جناح کی زیرِ صدارت لاہور میں منعقد ہوا، جس میں ۲۳ مارچ کو شہرہ آفاق قرارداد منظور کی گئی جسے قراردادِ پاکستان کہا جاتا ہے۔ اسی روز قرارداد پاس ہونے کے بعد قائداعظم نے مزارِ اقبال پر حاضری دی اور فرمایا کہ علامہ اقبال آج ہم میں نہیں، اگر وہ زندہ ہوتے تو یہ دیکھ کر خوش ہوتے کہ آج ہم نے بالکل وہی کیا جو وہ ہم سے چاہتے تھے۔ قائد اعظم کے اسی قیام لاہور میں ۲۵ مارچ ۱۹۴۰ء کو یوم اقبال منایا گیا۔ قائد اعظم نے اپنے خطبہ صدارت میں فرمایا کہ اگر ہندوستان میں مسلم ریاست کے قیام تک میں زندہ رہا اور مجھے علامہ اقبال کے کلام اور مسلم ریاست کی سربراہی میں ایک چیز کا چناؤ کرنا ہو تو میں پہلی چیز یعنی کلام اقبال پسند کروں گا۔
۲۳ مارچ ۱۹۴۰ء کو قراردادِ لاہور پر ختم ہونے والے سفر کا آغاز دس سال قبل ۲۹ دسمبر ۱۹۳۰ء کو مسلم لیگ کے اکیسویں سالانہ اجلاس سے ہوا، جس کی صدارت مصور پاکستان علامہ محمد اقبال نے کی۔ انھوں نے اپنے صدارتی خطبہ میں پاکستان کا تصور ان الفاظ میں پیش کیا: میری خواہش ہے کہ پنجاب، شمال مغربی سرحدی صوبہ [موجودہ خیبرپختونخواہ]، سندھ اور بلوچستان کو ملا کر ایک الگ ریاست بنا دی جائے۔ مجھے تو ایسا نظر آتا ہے کہ کم از کم ہندوستان کے شمال مغرب میں ایک مربوط ہندوستانی مسلم ریاست ، خواہ یہ ریاست سلطنت برطانیہ کے اندر حکومتِ خودمختاری حاصل کرے یا [سلطنتِ برطانیہ سے] باہر، کم از کم شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کا حتمی مقدر ہے۔
علامہ اقبال کے اس خطبہ میں ان جملوں کی اہمیت کے پیشِ نظر انھیں جلی حروف میں لکھا گیا تھا۔ اس طویل خطبہ میں علامہ اقبال نے شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کو مذہب، ثقافت، زبان اور مشترکہ معاشی مفادات کی بنیاد پر ایک قوم قرار دیا۔علامہ اقبال یہ خطبہ نا صرف انگریزی زبان میں چھپوا کر ساتھ لے کر گئے تھے، بلکہ اس کا اردو ترجمہ بھی انھیں دنوں میں دو اقساط میں روزنامہ انقلاب میں شائع کرویا گیا تھا۔
مسلم لیگ کا یہ اجلاس الٰہ آباد میں دروازہ منزل کے نام سے موسوم ایک حویلی میں ہوا جس میں لیگ کے صرف پچیس اراکین شریک ہوئے۔ حاضرین کی کل تعداد دو سے اڑھائی ہزار بیان کی جاتی ہے۔ یہ ایک سفر کی ابتداء تھی جس میں لوگ شامل ہوتے گئے اور قافلہ بنتا گیا۔
خطبہ الٰہ آباد سے دو سال قبل۱۹۲۸ء میں قائداعظم محمد علی جناح اپنے چودہ نکات کے تحت مسلمانوں کے مطالبات پیش کر چکے تھے۔ ان مطالبات میں ہندوستان کے نئے آئن میں ملک کو ایک وفاق قرار دے کر تمام صوبوں کو مساوی خودمختاری دینے کا مطالبہ شامل تھا۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ قائداعظم کے چودہ نکات میں صوبوں کو مساوی خودمختاری یعنی Autonomy دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اس کے برعکس خطبہ الٰہ آباد جسے ہم آزادی کے سفر کی ابتدا کہتے ہیں میں کلی خودمختار حکومت یعنی Self-Government اور شمال مغربی ہندوستان میں مربوط یعنی Consolidated مسلمان ریاست کو تقدیر قرار دیا گیا تھا۔
بعض لوگ اعتراض لگاتے ہیں کہ علامہ اقبال نے پروفیسر ایڈورڈ جان تھامپسن کو ۶ مارچ ۱۹۳۳ء سے ۲۶ جولائی ۱۹۳۴ء کے درمیان لکھے گئے خطوط میں الگ ریاست یا ملک کے تصور کو مسترد کیا تھا۔ تاہم علامہ اقبال کی دیگر تحریروں، تقاریر، بیانات اور مکتوبات میں اس طرح کی کوئی بات نہ ہے۔ خطبہ الٰہ آباد کے بغور مطالعہ بالخصوص اوپر بیان کی گئی سطور سے یہ بات واضح ہے کہ اس وقت علامہ اقبال شمال مغربی ہندوستان میں جس مضبوط مسلم ریاست کا تصور پیش کر رہے تھے۔ اس کے خد و خال کے سلسلے میں انھوں نے دو تجاویز پیش کی تھیں یعنی سلطنت برطانیہ کے اندر یا آزاد۔ہمسایہ ملک میں ۱۹۷۰ء کی دہائی میں پہلی مرتبہ چھپنے والے علامہ اقبال کے مبینہ مکتوبات کو اگر درست بھی تسلیم کر لیا جائے توبھی انھیں مکتوبات کے مطابق علامہ اقبال کی نظر میں ۱۹۳۳ء میں کوئی ایسی شخصیت موجود نہ تھی کہ جس میں مسلمانوں کی قیادت کی صلاحیت ہو۔ ۴ مارچ ۱۹۳۴ء کے مبینہ خط میں علامہ اقبال سے یہ جملہ منسوب ہے کہ اُن کا ’پاکستان سکیم‘ سے کوئی تعلق نہیں اور یہ سکیم برطانیہ میں موجود کچھ نوجوان مسلمانوں نے تیار کی ہے۔ تاریخی اعتبار سے یہ دونوں جملے بالکل درست ہیں۔
چوہدری رحمت علی کی سربراہی میں کیمبرج میں مقیم مسلمانوں نے ’اب نہیں تو کبھی نہیں‘Now or Neverکے نام سے ایک پمفلٹ شائع کیا تھا جس میں تقسیم ہند کے منصوبے کو پاکستان سکیم PAKSTAN Schemeکا نام دیا گیا تھا۔ علامہ اقبال نے خطبہ الٰہ آباد میں مسلمانوں کے لیے جس آزاد مملکت کی بات کی تھی اس کے لیے انھوں نے کوئی نام تجویز نہیں کیا تھا۔ پروفیسر تھامپسن کے نام ہی ۲۶ جولائی ۱۹۳۴ء کے اپنے خط میں علامہ اقبال نے یہ واضح کیا ہے کہ ذاتی طور پر اُن کا ہمیشہ سے یہ یقین رہا ہے کہ شمال مغربی ہندوستان کے صوبہ جات کا متحد ہونا انگلستان، ہندوستان اور اسلام کے لیے بے حد سودمند ہو گا۔
ہمسایہ ملک میں شائع ہونی والی اس کتاب کے مطابق ڈاکٹر تھامپسن کے نام ہر خط سے اگلے روز علامہ اقبال راغب احسن کو خط لکھ کر ہدایات دیتے ہیں کہ تقسیم ہند سے متعلق ان کا مؤقف جو کہ پروفیسر تھامپسن کو لکھے گئے خط میں بیان کیا گیا ہے کا اخبارات میں اشاعت کا بندوبست کیا جائے۔ اس کے برعکس ان خطوط پر نجی اور خفیہ بھی لکھا ہوا ہے۔ اسی طرح ہم جانتے ہیں کہ اخبارات میں علامہ اقبال کے بیانات مولانا غلام رسول مہر اور مولانا ظفر علی خان کے زریعے روزنامہ انقلاب اور روزنامہ زمیندار میں شائع ہوتے تھے۔
اس سفر کا ایک اور سنگ میل ۱۹۳۵ء کا دستور تھا جسے ’گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ ۱۹۳۵ء‘ کے نام سے جانتے ہیں۔ اس نئے دستور میں قائداعظم کے پیش کردہ چودہ نکات کے تحت مسلمانوں کے مطالبات کو یکسر نظرانداز کر دیا گیا تھا۔ ۱۹۳۶ء کے آخر اور ۱۹۳۷ء کے ابتدائی مہینوں میں اس آئین کے تحت صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہوئے۔ آل انڈیا مسلم لیگ خاطرخواہ نشستوں پر کامیاب نہ ہو سکی جس سے مسلمانوں میں بڑی مایوسی پھیل گئی۔ تاہم قائداعظم محمد علی جناح نے تجویز دی کہ اگر مسلمان صوبائی اسمبلیوں کا بائیکاٹ کر دیں تو برطانوی حکومت کو مسلمانوں کے مطالبات منظور کرنے کے لے مجبور کیا جا سکتا ہے۔ اس بائیکاٹ کے نتیجے میں مرکزی اسمبلی کے انتخابات منسوخ کر دیے گئے۔ عملاً یہ نیا آئین کلیتاً کبھی بھی نافذ نہ ہو سکا۔
آزادی کے سفر کا ایک اہم سنگ میل قائداعظم محمد علی جناح کے نام علامہ اقبال کے خطوط ہیں جنھیں قائداعظم نے ۱۹۴۵ء میں اپنے دیباچے کے ساتھ Letters of Iqbal to Jinnahکے نام سے خود شائع کروایا ۔ ۳۷-۱۹۳۶ء میں لکھے گئے یہ خطوط علامہ اقبال کے مؤقف کو بڑی وضاحت سے پیش کرتے ہیں۔ ۲۷ء مئی ۱۹۳۷ء کے مکتوب میں علامہ اقبال نے لکھا: شریعت اسلامیہ کے طویل و عمیق مطالعہ کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اسلامی قانون کے نفاذ سے ہر شخص کو کم ازکم معاش کی طرف سے اطمینان حاصل ہو سکتا ہے۔ لیکن کسی ایک آزاد اسلامی ریاست یا ایسی چند ریاستوں کی عدم موجودگی میں شریعت اسلامیہ کا نفاذ محال ہے۔ سال ہا سال سے یہی میرا عقیدہ رہا ہے اور میں اب بھی اسے ہی مسلمانوں کے افلاس اور ہندوستان کے امن کا بہترین حل سمجھتا ہوں۔۔۔اسلام کے لیے سماجی جمہوریت کی کسی موزوں شکل میں ترویج، جب اسے شریعت کی تائید و موافقت حاصل ہو، حقیقت میں کوئی انقلاب نہیں بلکہ اسلام کی حقیقی پاکیزگی کی طرف رجوع کرنا ہو گا۔
مسائل حاضرہ کا حل مسلمانوں کے لے ہندوئوں سے کہیں زیادہ آسان ہے جیسا کہ میں اوپر ذکر کر چکا ہوں، اسلامی ہندوستان میں ان مسائل کے حل باآسانی رائج کرنے کے لیے ملک کی تقسیم کے ذریعے ایک زائد اسلامی مملکتوں کا قیام اشد لازمی ہے۔ کیا آپ کی رائے میں اس مطالبے کا وقت نہیں آن پہنچا؟ یہ وہ وقت تھا جب قائداعظم محمد علی جناح حالات سے بد دل ہو کر برطانیہ ہجرت کر چکے تھے۔ ۲۱ جون ۱۹۳۷ء کو لکھے گئے خط میں علامہ اقبال نے لکھا: آپ کی بے پناہ مصروفیت سے آگاہی رکھنے کے باوجود آپ کو اکثر لکھتے رہنے کے لیے معذرت خواہ ہوں۔
اس وقت مسلمانوں کو اس طوفان بلا میں جو شمال مغربی ہندوستان اور شاید ملک کے گوشے گوشے سے اٹھنے والا ہے، صرف آپ ہی کی ذات گرامی سے رہنمائی کی توقع کرتا ہوں۔۔۔ ہندوئوں اور سکھوں کی طرف سے توہین رسولﷺ کی کم از کم چار وارداتیں پیش آ چکی ہیں۔ توہین رسولﷺ کی ان چاروں واردتوں میں مجرم کو فنا فی النار کر دیا گیا۔۔۔ موجودہ دستور ہندی مسلمانوں کے لیے زہر قاتل کا حکم رکھتا ہے۔ مزید برآں یہ دستور تو اس معاشی تنگدستی کا جو شدید تر ہوتی چلی آ رہی ہے کوئی علاج ہی نہیں۔۔۔ ہندوستان میں قیام امن اور مسلمانوں کو غیر مسلموں کے غلبہ و تسلط سے بچانے کی واحد ترکیب اس طریق پر ہے جس کا میں نے اوپر ذکر کیا۔ مسلم صوبوں کے ایک جداگانہ وفاق میں اسلامی قوانین کا نفاذ ہے۔ شمال مغربی ہندوستان اور بنگال کے مسلمانوں کو ہند اور بیرون ہند کی دوسری اقوام کی طرح حق خود اختیاری سے کیونکر محروم کیا جا سکتا ہے۔
علامہ اقبال کے ان خطوط کی پبلشر کو قائد اعظم کی طرف سے بھیجی گئی نکل اور اس سلسلے میں قائد اعظم کی شیخ محمد اشرف پبلشر سے کی گئی خط و کتابت کی نقل راقم الحروف کے پاس بھی محفوظ ہے۔
قائداعظم کے نام ان مکاتیب سے واضح ہے کہ ۱۹۳۷ء میں علامہ اقبال کو محمد علی جناح کی صورت میں وہ شخصیت مل گئی جومسلمانان ہند کی قیادت سنبھال سکے۔ جواس قوم کا بڑا لیڈر یعنی قائداعظم بنے۔ چنانچہ قائداعظم نے واپس آ کر آل انڈیا مسلم لیگ کی قیادت سنبھالی اور مسلمانان ہند نے مشترکہ طور پر انھیں اپنا واحد رہنما منتخب کیا۔
۱۹۳۰ء میں جس سفر کا آغاز صرف پچیس اراکین سے ہوا تھا دس سال بعد مارچ ۱۹۴۰ء میں اس قافلے میں ساٹھ ہزار سے زیادہ مسلمان شامل تھے۔دستیاب سرکاری ریکارڈ کے مطابق اس جلسلے میں ساٹھ ہزار لوگ موجود تھے، جب کہ آل انڈیا مسلم لیگ کے ریکارڈ کے مطابق دو لاکھ سے زیادہ افراد شریک ہوئے۔ یہ ساٹھ ہزار کا نمبر صرف پولیس کے خفیہ اداروں نے انگریز سرکار کو ہضم کرنے کے لیے بتایا تھا۔ سٹیج پر صرف ایک بینر آویزاں تھا جس پہ علامہ اقبال ہی کا شعر ’جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں ادھر ڈوبے ادھر نکلے ادھر ڈوبے ادھر نکلے‘۔ ۲۳ مارچ ۱۹۴۰ء کا دن وہ تاریخ ساز دن تھا جب شیر بنگال مولوی فضل حق نے قرارداد لاہور میں وضاحت کے ساتھ مسلمانان ہند کے لیے آزاد مسلم ملک کا مطالبہ پیش کیا جسے ہندوستان کے طول و عرض سے آئے ہوئے مسلم نمائندوں کی تائید حاصل تھی، پیش کی۔
قرارداد کی تائید میں چوہدری خلیق الزماں نے انھی بنیادوں پر مسلمانوں کو ہندوں سے الگ قوم قرار دیا جن کا احاطہ علامہ اقبال نے دس سال قبل کیا تھا۔ مولانا ظفر علی خاں نے شمال مغربی اور شمال مشرقی ہندوستان میں مسلمانوں کی مکمل آزادی کا مطالبہ کیا۔ اسی طرح نواب اسماعیل خان، سر شاہ نواز خان، نواب بہادر یار جنگ اور دیگر مقررین نے قرارداد کے حق میں تقاریر کیں۔ یہی قرارداد بعد میں قراردادِ پاکستان کہلائی اور ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے آزاد ملک کا وہ خواب جسے علامہ اقبال نے دیکھا تھا، پورا ہوا۔
یہ صرف ایک خواب نہ تھا، بلکہ یہ تقدیر میں لکھا تھا۔ اس کے حصول کے لیے مسلمانوں نے اسی شخص یعنی قائد اعظم کی قیادت میں عملی جدوجہد کی، جن کا انتخاب بھی علامہ اقبال نے ہی کیا تھا۔ تقدیر کے لیے اصول فطرت ہے کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ جد و جہد کرتا ہے۔ مسلمانان ہند نے قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں اسی طرح جدوجہد کی جس طرح علامہ اقبال نے تجویز کیا تھا۔ انھیں کی شاعری نے مسلمانوں میں وہ ولولہ پیدا کیا کہ ۱۴ اگست، ۱۹۴۷ء کو پاکستان معرض وجود میں آیا۔