نجیب احسان نامی بینک مینیجر نے ریٹائرمنٹ کے بعد کسی واقف کار تاجر دوست کے جنرل اسٹور پر باقاعدگی سے بیٹھنا شروع کر دیا۔ ایک طرح کی اس ملازمت کو چند ماہ ہی ہوئے ہوں گے کہ اپنا ایک اسٹور کھولنے کا سودا سر میں سمایا۔ ریٹائرمنٹ پر اُنھیں خاصی رقم ملی تھی لیکن اس قدر بھی نہیں کہ کوئی بڑا اسٹور کھولا جا سکے۔ احباب کی رائے تھی، جس علاقے میں پہلے سے کئی اسٹور موجود ہوں، بہتر ہوگا، وہاں کے بجائے کسی نئی آبادی میں جگہ ڈھونڈی جائے، مشورہ معقول تھا لیکن صاحب بھی کچھ طے کر چکے تھے۔ اُنھوں نے ایسے مقام پر اسٹور کھولنے کی داغ بیل ڈال دی جو اچھی بڑی مارکیٹ تھی، گاہکوں کا تانتا بندھارہتا تھا۔
ابتدا میں کچھ وقت لگا۔ رفتہ رفتہ نجیب صاحب کے چھوٹے سے اسٹور پر لوگ متوجہ ہونے لگے۔ وجوہ اس کی صاف تھیں۔ موصوف کی شبانہ روز محنت، واجبی قیمتوں پر دُکان میں قرینے سے سجی ہوئی صاف ستھری اور اصلی چیزیں۔ نجیب صاحب ہر گاہک کو گویا اپنے کسی معزز مہمان، محسن کا درجہ دیتے تھے اور اُنھیں اچھی طرح معلوم تھا کہ دعویٰ زنی، خوش خلقی اس صورت میں مؤثر، کارگر بلکہ دو آتشہ ہوگی کہ اسٹور پر معیاری اشیا کی دست یابی یقینی ہو، دو نمبر کی کسی چیز کا گزر نہ ہو۔ قصّہ مختصر، کام بڑھتا رہا اور دیکھتے دیکھتے درمیانے درجے کی دُکان، ایک بڑے دو منزلہ اسٹور میں تبدیل ہوگئی۔
نوجوان میر خلیل الرحمان کو اخبار کاری کا تھوڑا بہت تجربہ تھا۔ تقسیم پاک و ہند، ہنگاموں کے دوران دِلّی سے کراچی ہجرت کرنی پڑی تو روزنامہ جنگ کے احیا کا اِرادہ کیا۔ نوزائیدہ ملک کے دارالحکومت کراچی کے حالات دِلّی سے مختلف تھے۔ میر صاحب کے پاس اتنا سرمایہ بھی نہیں تھا لیکن کچھ ایسا ضرور تھا جس کی اہمیت سرمایے سے زیادہ ہوتی ہے۔ نیّت، عزم، دیانت، محنت، تحمّل اور پیش اندیشی۔ اب اس بات کو پچھتّر برس ہو رہے ہیں۔ کوئی کلام نہیں کہ ایک زمانے سے اشاعتی اعتبار ہی سے نہیں، انفرادیت اور معیار میں جنگ کو اُردو صحافت کے سب سے بڑے اخبار کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ اس افتخار و اعزاز کا جنگ ہی کیوں سزاوار ہوا، اس کا ایک ہی جواب ہے، ایک شخص، جس کا نام میر خلیل الرحمان ہے۔
راقم الحروف کو فخر ہے کہ کسی حد تک اُس کا بھی میر صاحب سے نیازمندانہ تعلق رہا ہے۔ 1957ء میں کراچی آمد ہوئی تو والد مرحوم عادل ادیب کے یارِ غار و یارِ طرح دار جناب رئیس امروہوی سے شرف ملاقات کے لیے دفتر جنگ جانا ہوا۔ مشہورِ عالم بندر روڈ سے ملحق، برنس روڈ کے سرے پر دو منزلہ عمارت میں جنگ کا دفتر ہوا کرتا تھا۔ جنگ دلّی سے وابستہ سادات برادران، رئیس امروہوی اور سیّد محمد تقی کراچی میں بھی میر صاحب کے رفیق کار تھے، عرش تیموری، نازش پرتاپ گڑھی، شوکت تھانوی اور دیگر محترم حضرات بھی اِسی دفتر میں بیٹھتے تھے۔ میر صاحب تو صبح و شام وہیں موجود ہوتے۔ دفتر اُن کا پہلا گھر تھا، دُوسرے گھر سے واسطہ تو بس رسمی سا تھا۔
رئیس امروہوی کے توسط سے اس کم ترین کا میر صاحب سے تعارف ہوا جو بعد کو اُنسیت اور تعلق خاطر میں بدل گیا۔ طالب علمی کا دور تھا۔ شام کو کالج، سہ پہر تک جون ایلیا کی ادارت میں شائع ہونے والے علمی و اَدبی ماہ نامے انشا کے جملہ انتظامی، طباعتی اور ادارتی امور کا روزگاری سلسلہ۔ جب بھی جنگ کے قریب سے گزر ہوتا، ایک ڈیڑھ منٹ کے لیے سہی، میر صاحب کی خدمت میں حاضری ضرور دیتا۔ دیکھا تھا، وہ کتنے مصروف رہتے ہیں، کبھی فارغ ہوتے تو بیٹھنے کو کہتے اور سلام دُعا کے بعد پوچھتے۔ ’’پڑھائی کیسی چل رہی ہے برادرم‘‘ ہر بار تعلیم جاری رکھنے کی تاکید کرتے۔ کچھ یوں بھی اُن کے پاس جانے کو جی کرتا تھا کہ وہ جتنے خوش چہرہ، خوش لباس تھے، شگفتہ مزاج بھی اُتنے ہی۔ جب دیکھو، چمکتی آنکھیں، دھیمی دھیمی سی، من موہنی مسکراہٹ ہونٹوں پر رَچی رہتی تھی۔ اُن سے مل کے یہ بے حیثیت طالب علم کچھ عزت سمیٹ کے ہی واپس آتا۔
کچھ عرصے بعد جنگ کا دفتر چندری گر روڈ سے ملحق برنس روڈ کے دُوسرے سرے یا سنگم پر نوتعمیر چھے منزلہ عمارت میں منتقل ہو گیا تھا۔ فرشی منزل پر پریس، اُوپر کی تمام منزلوں پر کشادگی ہی کشادگی۔ اُس وقت تک مسلّمہ طور پر جنگ اُردو کا سب سے بڑا روزنامہ بن چکا تھا۔ بڑے سے مراد ہے، بڑی اشاعت، اور بڑی اشاعت سے مراد ہے، غیرمعمولی قبولیت۔
رئیس امروہوی جنگ کے دفتر میں بیٹھنا کب سے ترک کر چکے تھے۔ بندر روڈ کے میری ویدر ٹاور کے آس پاس نیو کلاتھ مارکیٹ کے دو کمروں پر مشتمل دفتر سے اُنھوں نے پہلے ہفت روزہ شیراز شروع کیا، پھر اسے شام کا روزنامہ کر دیا گیا۔ دونوں اُن کے قلندرانہ اطوار کی نذر ہوئے۔ سیاسی و سماجی موضوعات پر روز ایک قطعہ اور ہفت واری کالم کسی کارندے کے ہاتھ وہ جنگ کو بھجوا دیتے تھے۔ برسوں تک یہ خدمت یہ عاجز ہی انجام دیتا رہا۔ سو روز ہی دفتر جنگ آمد و رفت معمول بن گئی تھی اور کئی نام ور صحافیوں، ادیبوں سے رسم و راہ کے مواقع بھی نکل آئے تھے۔ میر صاحب سے بھی اکثر آمنا سامنا ہو جاتا۔ نئی عمارت میں میر صاحب نے ہفت روزہ، اخبارجہاں، جاری کیا اور ملک کے مختلف شہروں، یہاں تک کہ لندن سے بھی جنگ کی اشاعت ہونے لگی۔
خاک سار ہی نہیں، بہت سے دوست شاہد ہیں، کیا کچھ نہ ہوا۔ کئی بڑے اداروں نے جنگ کے مقابلے میں کثیر سرمائے سے روزنامے شروع کیے۔ پیسا پانی کی طرح بہایا گیا۔ ان میں ایک تو بڑے پیمانے پر سرکاری سرپرستی میں نکلنے والا اخبار بھی تھا۔ جنگ کے منتخب صحافیوں اور مقبول کالم نگاروں کو توڑا جاتا رہا۔ مہینوں تک مفت اخبار گھروں میں پھنکوائے گئے۔ جنگ کے کارکنوں میں پھوٹ ڈالنے، گروپ بنانے کی سازشیں کی جاتی رہیں۔ دفتر پہ مظاہرے، حملے بھی ہوئے، بڑی تعداد میں جنگ اخبار سرعام جلائے گئے۔
دیوان سنگھ مفتون نے لکھا ہے کہ وہ صحافی ہی کیا، جس پر روز مقدمے نہ بنائے جائیں۔ میر صاحب روز پیشیاں بھگتایا کیے۔ ذاتی نوعیت کے الزام، کردارکشی، دھمکیاں، جنگ سے برگشتہ بعض سرکاری عمّال کی طرف سے روز نئے احکام، ٹیکس چوری کے بہتان، کاغذ کے کوٹے کا خاتمہ، سرکاری اشتہارات کی بندش، تقسیم کار خردہ اور تھوک فروشوں کو اپنے اخباروں پر زیادہ سے زیادہ کمیشن دینے کی فیّاضیاں۔
اخبار کے مدیر کو اپنے ہاں چھپنے والی ہر سطر کا حساب دینا پڑتا ہے۔ میر صاحب حد درجے احتیاط کرتے تھے کہ کسی قسم کی متنازع تحریر شائع نہ ہو پائے۔ جنگ کو متوازن، غیرجانب دار اخبار سمجھا جاتا رہا ہے۔ ایک مرتبہ کسی ادارتی شذرے پر ایک عالم دین کو اعتراض ہوا۔ تقریر میں شدید برہمی ظاہر کی تو کچھ بعید نہیں تھا، لوگ مشتعل ہو جائیں اورہنگامے پھوٹ پڑیں۔ عقائد کے معاملوں میں سبھی حساس ہوتے ہیں۔ دلیل و منطق، رَدّ و قدح کے بجائے مناسب یہی تھا کہ معذرت کر لی جائے۔ میر صاحب نے دیر نہیں لگائی، دُوسرے تیسرے دن یہی کیا۔ شکر ہے، ممکنہ سنگین صورتِ حال سے شہر کو بہرحال نجات مل گئی۔
برداشت، استقامت مزاج کا خاصّہ تھی۔ بہت کچھ جھیلا کیے اور جنگ کو بہتر، سب سے بہتر بنانے کی جُست جو میں تاامکان، تازندگی منہمک رہے۔ سب سے پہلے جنگ نے فوٹو آفسیٹ طباعت کا آغاز کیا، ریڈیو فوٹو، رنگین طباعت، مختلف موضوعات پر ہفتہ وار ایڈی شن، چالیس پچاس کاتبوں کی جگہ نو ایجاد مشینی کتابت کی جرأت، نُوری نستعلیق کی تنصیب کا جہاد۔ شروع شروع میں یہ کمپیوٹرائزڈ کتابت آنکھوں کو کھٹکتی تھی۔ میر صاحب نے اصرار کیا۔ اَب اُردو کی قریباً تمام مطبوعات اِسی ذریعۂ کتابت سے شائع ہوتی ہیں۔
خبررسانی اخبار کا بنیادی وظیفہ ہے۔ دُنیا بھر کی تازہ ترین، مستند، معتبر، اندرون خانہ خبروں کی تلاش میں میر صاحب مضطرب رہتے تھے۔ مدیر جنگ سیّد محمد تقی نے یہ واقعہ سُنایا تھا۔ میر صاحب کو اپنے خاص ذرائع سے بھنک ملی کہ درپردہ امریکی حکومت کا کوئی اہم افسر رات گئے پاکستان آ رہا ہے۔ اُس کی آمد کے مقصد سے آگہی اور امریکی حکومت کی حکمت عملی میں کسی تبدیلی کی تفتیش کے لیے ضروری تھا کہ کسی طرح افسر سے ملاقات ہو جائے۔ اتفاق سے کوئی مشّاق نمائندہ اُس وقت مل نہیں پا رہا تھا۔ وقت بھی کم رہ گیا تھا۔ میر صاحب خود ایئرپورٹ پہنچ گئے۔ پرواز میں کچھ تاخیر ہوگئی۔ میر صاحب لاؤنج میں بیٹھے انتظار کرتے رہے، اور جیسے ہی امریکی افسر باہر آیا، میر صاحب نے جا لیا۔ افسر نے کھل کے بات کرنے سے گریز کیا مگر اشاروں کنایوں میں جتنا سُراغ مل سکا، میر صاحب کے لیے اتنا ہی بہت تھا۔ اگلی صبح سب سے پہلے جنگ نے پیش گوئیاں شائع کیں جو بعد کو اَسّی نوّے فی صد دُرست ثابت ہوئیں۔
اندرون اور بیرون ملک تیز و طرّار، مہم جُو، بال کی کھال نکالنے والے نمائندے میر صاحب نے جمع کر رکھے تھے، اور اہل قلم کا گل دستہ بھی اخبار میں سجا رکھا تھا۔ کس کس کا نام لیا جائے۔ جوش ملیح آبادی، فیض احمد فیض، نیاز فتح پوری، احمد ندیم قاسمی، رئیس امروہوی، سیّد محمد تقی، جمیل الدین عالی، ابن انشا، مجید لاہوری، ابراہیم جلیس، شوکت تھانوی، نصراللہ خاں، پیر علی محمد راشدی، ارشاد حقّانی، یوسف صدیقی، افضل صدیقی، منظور احمد، شفیع عقیل… نام یاد نہیں رہے، اور بہت سے ادیب صحافی، قلم کار خود بھی جنگ میں چھپنا اعزاز سمجھتے تھے۔
حسنِ انتظام نہ ہو تو بڑے بڑے ادارے ناکام ہو جاتے ہیں۔ اخبار کا ہر گوشہ ہر معاملہ میر صاحب کی منڈلاتی نظروں کی زَد پر رہتا تھا، کمروں کی صفائی ستھرائی، میزوں پر گرد و غبار تک۔
کسی دن ایسے کسی وقت کہ اخبار پریس جانے کو تیار ہو اور کوئی غیرمعمولی واقعہ رُونما ہو جائے تو خبر تو خیر چھپ ہی جائے گی لیکن مختصر سہی، اخبار کا مطمح نظر بھی شائع ہونے میں پہل ہو جائے تو کیا ہی اچھا ہو۔ ایسے مواقع پر اداریہ نگاروں کو کھٹ کھٹانے کے بجائے میر صاحب خود لکھنے بیٹھ جاتے۔ اُن کے نوشتہ اداریے، ادارتی نوٹ کسی درجے جنگ کے مستقل مدیرانِ سردبیر سے کم مؤثّر نہیں۔ اِن تحریروں کا انتخاب فرزند زادے میر ابراہیم نے محفوظ کر رکھا ہے۔ مجھ ناچیز کو بھی دکھایا تھا، ہر لحاظ سے کیا مدلّل، مکمّل تحریریں، زبان و بیان کی چستی و چابک دستی غمّازی کر رہی تھی کہ میر صاحب نے یقیناً کچھ اور بھی تحریر کیا ہوگا۔ وہ کہاں ہے؟
ابن انشا کا کہنا ہے، جنگ کے ابتدائی دور کی بات ہے۔ مجید لاہوری، رئیس امروہوی اور اپنے حال احوال میں مست دو ایک اور ادیب و شاعر سہ پہر کو بگھی میں سوار صدر کے کسی سینما میں میٹنی شو دیکھنے جا رہے تھے کہ دیکھا، میر صاحب سائیکل کے کیریئر پر اخباروں کا بنڈل باندھے کہیں جا رہے ہیں۔ صاحب سلامت ہوئی تو مجید لاہوی نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔ ’’میر صاحب، کہاں‘‘
میر صاحب نے بتایا کہ ریگل کے ایک اسٹال پر اخبار ختم ہوگیا ہے۔
مجید لاہوری نے کہا۔ ’’ارے چھوڑیے بھی صاحب، ہمارے ساتھ پکچر دیکھنے چلیے۔ سُنا ہے، بڑی زبردست فلم ہے، اور آج آخری روز ہے۔‘‘
میر صاحب نے شکریہ ادا کیا اور ہنستے ہوئے سائیکل دوڑا دی۔
تاعمر وہ کام ہی کرتے رہے۔ اے پی این ایس اور دیگر اخباری تنظیموں میں بھی وہ پوری طرح شامل رہے تھے۔ آخر میں جب بیماری کا حملہ ہوا اور کچھ افاقے کی مہلت ملی تو اُنھیں جیسے وقت کم رہ جانے کا احساس ہوگیا تھا۔ گھر پہ آرام کر سکتے تھے، کرنا چاہیے تھا۔ دفتر آتے رہے اور جانشینوں کے لیے اہم دستاویزات سمیٹتے اور ہدایات درج کرتے رہے۔
میر صاحب کو جدید اُردو صحافت کے بابا، میر ِصحافت اور بہت سے القاب و خطابات سے نوازا گیا ہے۔ کہتے ہیں، صدق نیّت، عزم و ارادے کی پختگی کا اَجر ضرور ملتا ہے۔ وہ مسلسل آزمائشوں سے دوچار، برسرِ پیکار رہے اور معرکے سر کرتے رہے۔ اُن کا سب سے بڑا معرکہ یا کارنامہ 75 سال سے اُردو کا سب سے بڑا روزنامہ ’’جنگ‘‘ ہے۔ کوئی اور ہو تو ازراہِ کرم علم میں اضافہ کیا جائے اور اُن کی سب سے بڑی خوش قسمتی اُن کی اولادیں تھیں، دو بیٹے میر جاوید، میر شکیل۔ ادارے کا بانی، مدارالمہام، ہمہ جاں متحرک، ہمہ دَم مستعد شخص چلا جائے تو سارا کچھ اُس کی جگہ سنبھالنے والوں پر منحصر ہے کہ وہ ادارے کی سُرخ روئی، تابندگی کا سبب بنتے ہیں یا جمود و انحطاط کا۔ ہو سکتا ہے، جانشین کا رُجحان طبع گزر جانے والے سربراہ سے مناسبت نہ رکھتا ہو، اور دولت تو یوں بھی مخمل و ریشم، رنگ، روشنی کی طرف مائل کرتی رہتی ہے۔
میر صاحب کے بیٹوں کی عمریں بھی سرشاری و سرمستی کی تھیں لیکن دونوں بہ صد شوق، بہ صد احترام اپنے محترم والد کی پے روی اختیار کر چکے، اُن کی زندگی ہی میں فعال ہو چکے تھے۔ پڑھنے لکھنے کی رغبت بچپن سے تھی۔ نصابی تعلیم کے علاوہ دیگر موضوعات سے دل چسپی کم نہیں تھی۔ یاد ہے، دفتر جنگ میں جب بھی میر جاوید سے ملاقات ہوتی تو اُردو نثر کی عمدہ کتابوں کے مطالعے کا اشتیاق ظاہر کرتے۔ اُس وقت اپنی بساط کے مطابق جتنا کچھ معلوم ہوتا، عرض کر دیتا۔ وہ کاغذ پر درج کر لیتے اور مطالعے کے بعد تبصرہ بھی کرتے۔ کچھ یہی حال میر شکیل کا بھی تھا۔
بڑے میر صاحب، میر خلیل الرحمان کی رُوح آسودگی اور شادمانی سے ہم کنار ہوگی کہ اُن کے عظیم الشّان ادارے پر جانشینوں نے کوئی آنچ نہیں آنے دی، ادارے کو اور سربلند، سرافراز کیا۔ اُردو اخبارات کے مرکز لاہور سے روزنامہ جنگ کے اجرا کے وقت میر شکیل نے لاہور میں ڈیرے ڈال دیے تھے، زیادہ دُور کی بات نہیں، ایک خلقت کا چشم دیدہ ہے کہ جنگ لاہور نے کتنی جلد کیا مقام حاصل کر لیا تھا۔ کراچی سے انگریزی روزنامہ ’’دی نیوز‘‘ بھی میر شکیل نے شروع کیا تھا۔
انگریزی ہفت روزہ ’’دی میگ، شام کے انگریزی اُردو اخبارات ڈیلی نیوز اور عوام کی اشاعت، ملک کے مزید شہروں میں نمائندوں کا تقرر، جنگ اور نیوز کے دفاتر اور اشاعتی مراکز کا قیام، ادارے کو اور منظّم، مستحکم کرنے کی مساعی میں میر جاوید اور میر شکیل سے نادانستہ ہی کوئی کسر رہ گئی ہو۔ میر جاوید نے جملہ انتظامی اُمور کے ساتھ بہ طورِ خاص اخبارِ جہاں تحویل میں لے لیا تھا۔ اس دعوے کی تکرار غیرضروری ہے کہ اُردو کا کوئی ہفت روزہ، اخبارجہاں کا ہم چشم نہ بن سکا، اور صرف یہی نہیں، جنگ سمیت ادارۂ جنگ کے تمام اخبار اور جریدے ملک کی ممتاز ترین مطبوعات میں شمار کیے جاتے ہیں۔
جیو نیوز کے ڈائریکٹر اظہر عباس کی زبانی منکشف ہوا کہ 61-1960ء میں میر خلیل الرحمان نے صدر پاکستان ایوب خان سے پرائیویٹ، ٹی وی چینل کھولنے کی درخواست کی تھی۔ خط کا جواب نہیں آیا تو میر صاحب بھی خاموش ہوگئے۔
اُن کے انتقال کے بعد میر شکیل نے بِیڑا اُٹھایا اور حکومتِ وقت کو قائل کرنے کی کوششیں جاری رکھیں اور نتیجہ یہ کہ کام یاب نہ ہو پائے۔ لیکن وہ بھی کچھ طے کر چکے تھے، حالاں کہ اندازہ ہو چکا تھا، بہ ظاہر کتنی ہی مماثلت ہو، پرنٹ (طباعتی، اشاعتی) میڈیا سے الیکٹرانک (برقی) میڈیا بہت مختلف معاملہ ہے۔ برقی میڈیا سے اُنھیں کوئی سابقہ نہیں رہا تھا۔ میر شکیل کے رفقا کا فرمودہ ہے کہ بنیادی طور پہ وہ ایک مہم جُو، خطروں سے کھیلنے کے جُویا، جرأت مند شخص ہیں۔ سرشت کوہ پیماؤں، تیشہ زنوں ایسی ہے، بے پناہ سیاسی شعور سے متّصف اور تجارتی ہنر و صلاحیت میں باکمال۔
اُنھوں نے ٹی وی ماہرین سے رابطے شروع کر دیے۔ کئی ملکوں کے دوروں میں چینلوں کے اداروں کا قریب سے جائزہ لیا اور تیکنیکی لوازم سے ممکن حد تک آگہی حاصل کرتے رہے۔ نئے نئے منصوبے اُن کے ذہن میں گردش کرتے رہتے ہیں اور کوئی نیا کام شروع کرنے سے پہلے ہر سطح سے تفتیش و تحقیق اُن کا وتیرہ ہے۔ عواقب و نتائج کی اس جُست جو میں کبھی وقت کچھ زیادہ ہی صرف ہو جاتا ہے۔ وہ دیکھتے رہ جاتے ہیں اور کوئی چست و چالاک، بدبین و بدخواہ فرد یا ادارہ اُن کا منصوبہ اُڑا لے جاتا ہے۔ خود اُنھوں نے بتایا کہ کسی بین الاقوامی فوڈ چین سے معاملت کی حیل حجت میں اُن کی طرف سے تاخیر کے باعث کچھ یہی ہوا۔ فوڈ چین کی فرنچائز ہاتھ سے نکل گئی۔
کہتے ہیں، بندشیں، مزاحمتیں جُنوں پیشگاں کے حوصلے فزوں کرتی ہیں۔ جلد ہی اُنھوں نے بہت سے ٹی وی آزمودہ کار جمع کر لیے۔ دی نیوز کے مدیر عمران اسلم تو پہلے ہی سے اُن کے پاس تھے۔ عمران صاحب کی تخلیقی جولانیوں، کرشمہ کاریوں کا کیا کہیے، نت نئے خیال اُن کے ہاں موجوں کی طرح رواں رہتے، خود رُو پھولوں کی طرح نمودار ہوتے ہیں۔ مستقلاً جیو سے وابستہ ہونے والے سرکردہ ناموں کی فہرست طویل ہے۔
جنگ بلڈنگ کی بالائی دو منزلوں پر ٹی وی اسٹیشن کے لیے لازم جدیدترین آلات سے لیس دفتر بنایا گیا جو دُنیا کے کسی بھی خوش نما ٹی وی چینل دفتر کی نظیر ہو سکتا ہے۔ ادھر امریکا سے سی این این کے منتخب ماہرین مدعو کیے گئے۔ ہوٹل آواری ٹاور کے وسیع ہال میں یہ صاحبان پانچ چھے مہینے جیو کے کارکنوں کو خبروں کی نشریات کی تربیت دیتے رہے۔
اس تحریر کے راقم کے لیے جیو ٹی وی کے آغاز اور اس سے پہلے بہت سے اُمور میں شرکت مسرّت کا باعث ہے۔ قصّہ طولانی ہے، مختصر یہ کہ کسی موقع پر برادر عزیز میر شکیل الرحمان نے ٹی وی چینل کھولنے کی خواہش ظاہر کی تو اس بے سرو ساماں نے کھلے دل سے ہرممکن تعاون کی پیش کش کی تھی۔ میر صاحب عزّت سے نوازتے رہے کہ ابتدائی دور کی ہر میٹنگ میں شرکت کی دعوت دیا کیے۔ آئے دن گھنٹوں، کبھی کبھی تو پہروں یہ میٹنگیں جاری رہتی تھیں اور ان کا ایک ہی موضوع اور مقصد ہوتا تھا، بہر اعتبار ایک مثالی ٹی وی اسٹیشن کی تشکیل، کیے جانے والے اقدامات میں رُکاوٹوں اور پیش رفت کا مواخذہ۔
تعلیم مکمل کر کے وطن واپس آ جانے پر میر صاحب کے فرزندِ اکبر میر ابراہیم بھی ان نشستوں کا حصہ بن گئے یہ نوجوان برقی میڈیا تک ادارۂ جنگ کا دائرہ بڑھانے میں اپنے والد سے کچھ زیادہ ہی متحرک، سرگرم اور پُرجوش نظر آتا تھا۔ بعد میں میٹنگوں کی نظامت/ باگ ڈور بھی میر ابراہیم نے ہاتھ میں لے لی تھی۔ اُن کا طریق کار نہایت سائنسی تھا۔ اُنھوں نے ہر محکمے کے گرافک چارٹ بنوا لیے تھے۔ مطلوبہ اہداف کے حصول، کام کی رفتار میں اُتار چڑھاؤ کے ان عددی اور تصویری پیمانوں سے حقائق کی قطعی صورت حال لمحوں میں سامنے آ جاتی تھی۔ اعداد ویسے بھی لفظوں سے معتبر سمجھے جاتے ہیں۔
میر شکیل کو صبح و شام ادارۂ جنگ کے بے حساب بکھیڑوں جھمیلوں سے بھی نمٹنا پڑتا تھا۔ میر ابراہیم نے بالکلیّہ خود کو جیو کے لیے وقف کر دیا تھا۔ بیٹے کی غیرمعمولی دل چسپی اور وابستگی والد کے لیے مہمیزِ شوق اور موجبِ توانائی ہوئی۔
بار بار ہر شعبے کی چھان بین کی جاتی رہی کہ کہیں کوئی جھول، سُقم تو نہیں رہ گیا ہے کہ خفّت اور معذرت کی نوبت آ جائے۔ پروگراموں کی بار بار عکس بندی، تجزیہ کاروں، خبریں پڑھنے والوں کے اِدھر سے اُدھر تبادلے، گرم خون والے کارکن مایوس ہونے لگ تھے کہ کب تک یہ چھان پھٹک ہوتی رہے گی۔ آخر تمام مراحل، ہر پہلو سے مطمئن ہوجانے پر میر شکیل الرحمان نے ایک مرتبہ پھر اہلِ اقتدار سے منّت گزاری اور بات نہ بن سکی۔
دبئی میں میڈیا سٹی کا قیام عمل میں آچکا تھا۔ یہی ایک تدبیر تھی کہ دبئی سے نشریات شروع کی جائیں۔ وہاں سے ممکن نہ ہوتا تو میر صاحب کی نظر میں کوئی اور جگہ ضرور ہوگی کہ انھوں نے کراچی میں ٹی وی اسٹیشن کی تکمیل میں یوں ہی رات دن ایک نہیں کردیے تھے، تن من دھن سبھی کچھ لگا دیا گیا تھا۔ کچھ عرصے کے لیے دبئی میں سکونت اختیار کرلی۔ میڈیا سٹی میں مختصر نشریاتی دفتر کھول لیا گیا۔ کراچی اسٹوڈیو میں تیار کیے گئے پروگرام دبئی سے نشر کیے جانے کا سلسلہ دقّت طلب تھا، مہنگا بھی خاصا، مگر کوئی اور چارہ بھی نہیں تھا۔
بالآخر، انتظارِ بسیار کے بعد 14 اگست 2002ء ٓکے تاریخی دن ہوٹل آواری ٹاور کے ہال میں بے قرار کارکنوں کے ہجوم کے درمیان میر ابراہیم نے جیو نیوز کی نشریات کا افتتاح کیا۔ یہ خاک نشیں بھی وہاں موجود تھا۔ کارکنوں کے جوش و خروش کا عالم دیدنی تھا۔ یہ یادگار شام دل پر نقش ہے۔ جیو کا لوگو اسکرین پر نمودار ہوا تو سبھی اچھلنے، رقص کرنے لگے تھے۔
اور سب نے دیکھا، اک جہان نے دیکھا۔ ہفتوں، مہینوں میں جیو نیوز نے مقبولیت کے ریکارڈ قائم کیے۔ پاکستان ہی میں نہیں، ساری دنیا میں، جہاں جہاں اردو بولی جاتی ہے۔ اب بیس سال ہو رہے ہیں، اس مدت میں جیو نیوز بلا شرکت غیرے ریٹنگ میں نمبر ون یعنی سب سے زیادہ دیکھے جانے والے چینل کے اعزاز سے مفتخر رہا ہے۔
ان بیس برسوں میں اسے کیسی کیسی آزمائشوں سے گزرنا پڑا ہے، اس کی بھی ایک داستان ہے، اور جیو کے لیے کوئی نئی بات نہیں۔ جنگ کا ادارہ حق گوئی و بے باکی، غیرجانب دار پالیسی کی سزا کاٹتا رہا ہے۔ ’’یہ نہیں‘‘، ’’یوں نہیں‘‘ کی ہدایات، روز نئے مطالبے، عدم تعمیل پر یہاں تک کہ چینل کی بندش، ایک بار تو چھے مہینے کی بندش۔ نصف برس ادارے کا جوں کا توں برقرار رہنا کسی امتحان سے کم نہیں تھا۔ جیو نے کسی کارکن کو مشاہرے سے محروم ہونے نہیں دیا۔
لُطف یہ کہ برسوں بعد حکومت نے پاکستان میں پرائیوٹ چینلوں کو نشریات کی آزادی عطا کردی۔ کچھ نہیں معلوم، انکار کی وجوہ کیا تھیں جو بعد کو ازخود دور ہوگئیں۔
اور واقعہ یہ ہے، دنیا بھر میں ناظرین کے ذوق و شوق، پسندیدگی میں جیو کا گراف بڑھتا ہی رہا۔
سوال کیا جاسکتا ہے جنگ اور جیو ہی کیوں؟
جواب نہایت سادہ ہے۔ یہ تحریر ریٹائرڈ بینک مینیجر نجیب احسان کے ذکر سے شروع ہوئی تھی۔ وہی ان معروضات کا اختتام بھی ہے۔
لوگ اسی سَمت کا رخ کرتے ہیں جہاں انھیں سچ اور اصل کی دست یابی کا یقین ہو۔
وما علینا الالبلاغ