• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لیجنڈری فن کارہ ملکہ ترنم طویل عرصہ سے علیل ہیں، دِل کے عارضہ کے علاوہ انہیں گردوں، شوگر اور بلڈ پریشر کے عوارض بھی ہیں، ان دِنوں وہ کراچی میں مقیم ہیں، جہاں پر ہر تیسرے روز ان کے گردوں کا ڈائیلسز ہو رہا ہے۔ مختلف طبی وجوہ کی بناء پرڈاکٹر انہیں لاہور جانے کی اجازت نہیں دے رہے۔ گزشتہ ہفتے کراچی میں ملکہ ترنم نور جہاں سے ملاقات کا موقع ملا، دوگھنٹہ سے زائد وقت پر محیط اس نشست کے دوران ملکہ ترنم نور جہاں کی علالت، فن ، شخصیت اور زندگی کے دیگر پہلوئوں پر ان سے گفتگو ہوئی۔ ذیل میں ملکہ ترنم کی زندگی کا یہ اہم اور خصوصی انٹرویو پیش کیا جا رہاہے۔

رسمی سلام دُعا اور خیروعافیت پر بات چیت کے بعد گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے علالت کے دوران اپنے معمولات کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے ملکہ ترنم نے کہا کہ گزشتہ چند برسوں سے تو میری زندگی کے معمولات ڈاکٹروں کے سپرد ہیں، پہلے امریکا اور لندن کے ڈاکٹر میرے معمولات کو کنٹرول کیے ہوئے تھے، میرا اُٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا ان کی ہدایات کے مطابق تھا، اب یہ کام کراچی کے میرے معالج انجام دے رہے ہیں۔ 

امریکا، لندن اورکراچی کے ان ڈاکٹروں کے مشکورو ممنون ہوں، جو میری ذات کے ساتھ ساتھ دل، گردوں، بلڈ پریشر اور شوگر کے ان عوارض کے ساتھ نبرد آزما ہیں، جو مجھے لاحق ہیں، ملکہ ترنم نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ میرے علاج کے حوالے سے سب سے تکلیف دہ مرحلہ گردوں کے ڈائیلسزکا ہے، ڈائیلسز کا سلسلہ امریکا سے شروع ہوا تھا اوراب تک جاری ہے۔ امریکا میں ڈاکٹر یعقوب اور لندن میں ڈاکٹر ہارون نے میرے ڈائیلسز کے سلسلہ میں بہت محنت کی۔ ڈاکٹر یعقوب کا تعلق سعودی عرب سے ہے اور ڈاکٹر ہارون پاکستانی ہیں۔ 

ان کے ساتھ امریکی اور برطانوی ڈاکٹر بھی شامل ہوتے تھے۔ ملکہ ترنم نے بتایا کہ ڈائیلسز کے لیے مجھے دس گیارہ گھنٹے تک اذیت ناک مراحل سے گزرنا پڑتا ہے اور یہ عمل ہر تیسرے روزہوتا ہے۔ ڈائیلسز کے بعد مجھے کوئی سدھ بدھ نہیں رہتی۔ اس دوران کھانا پینا بھی منع ہوتا ہے۔ ڈائیلسز کے بعد گھر آکر آٹھ دس گھنٹے آرام کے بعد طبیعت سنبھلتی ہے۔ ملکہ ترنم نور جہاں نے بتایا کہ خدا کا شکر ادا کرتی ہوں کہ میں اپنے قدموں پر چلتی ہوں۔ 

اسپتال میں بھی مجھے کسی سہارے کی ضرورت نہیں ہوتی، اسپتال میں ڈائیلسز کرانے والے مریضوں کی حالت دیکھ کر میری روح کانپ جاتی ہے اور میں گھر آکر اللہ کے حضور سجدہ شکر ادا کرتی ہوں کہ اس نے مجھے بیماریوں سے لڑنے کی ہمت اور طاقت عطا کررکھی ہے۔ ہسپتال میں ڈائیلسز اور دوسرے مریضوں کی حالت دیکھ کر مجھے یُوں محسوس ہو رہا ہوتا ہے، جیسے میں اسپتال کی سب سے صحت مند مریضہ ہوں۔ ملکہ ترنم نے مزید بتایا کہ میرا بلڈ پریشر کم رہتا ہے، اگر خون کا دبائو زیادہ کم ہو جائے، تو بے ہوشی کی سی کیفیت بھی پیدا ہو جاتی ہے۔

ایک سوال کے جواب میں ملکہ ترنم نے بتایا کہ یہ تصور بالکل غلط اور بے بنیاد ہے کہ میری آنکھوں کی بینائی ختم ہوگئی ہے۔ خدا کا فضل و کرم سے علالت کے باوجود میری قریب کی نظر بالکل ٹھیک ہے۔ میں روزانہ اخبار پڑھتی ہوں، اگر ضرورت پڑے تو سوئی میں دھاگہ تک ڈال لیتی ہوں۔ میں چشمہ بہت کم استعمال کرتی ہوں۔ دُور کی نظر البتہ تھوڑی کمزور ہے، جو چشمہ لگانے سے دُرست رہتی ہے۔ 

ایک سوال کے جواب میں ملکہ ترنم نے کہاکہ زندگی کے اس مرحلہ پر مجھے کسی قسم کا کوئی پچھتاوا نہیں ہے، میں نے ایک بھرپور اور فعال زندگی گزاری ہے۔ یہ سب کچھ میری محنت، جدوجہد اوراللہ کے فضل و کرم کا نتیجہ ہے۔ اللہ نے میری ہر خواہش کو پورا کیا، مجھے عزت، دولت اور شہرت سے نوازا۔ ہر دور میں میر ی تگ و دو رنگ لائی۔ اپنے علاج کے لیے مجھے کثیر سرمائے کی ضرورت تھی، گلوکاری سے جو رقم آئی تھی ، اس نے دو بچوں کی تعلیم و تربیت ، شادیوں پرخرچ ہوتی رہی۔

ایک سوال کے جواب میں ملکہ ترنم نے بتایا کہ میری اولاد میں سے بڑی بیٹی ظل ہما میں فنی صلاحیتیں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ ظل ہما ہی میری صحیح فنی وارث ہیں، جب اس نے گلوکاری شروع کی، تو میں علیل ہوگئی، مجھے اسے مؤثر انداز سے گلوکاری کی تعلیم و تربیت دینے کا بہت کم وقت ملاہے، بہرحال ظل ہما ایک باصلاحیت اور محنتی فن کارہ ہے اور موسیقی کی دُنیا میں اپنا مقام حاصل کر رہی ہے چھوٹی بیٹی نینا کی آواز بھی بہت اچھی ہے۔ نینا نے میرے استاد بابا جی سے سیکھا بھی ہے ، لیکن اسے گلوکاری کا اتنا شوق نہیں ہے۔‘‘

اس انٹرویو کے دوران ملکہ ترنم نے بتایا کہ میری یہ دیرینہ خواہش ہے کہ میں غریب اور حاجت مندوں کی فلاح و بہبود کے لیے ایک ویلفیئر ٹرسٹ قائم کروں۔ میرے رَب نے مجھےصحت مند اولا د عطا کی ہے۔ دُعا ہے کہ اللہ ہر ایک کو میرے جیسی سعادت مند اور ماں کی خدمت کرنے والی اولاد عطا کرے۔ میں نے اپنے بچوں کو بڑے ناز سے پروان چڑھایا ہے ، وہ اب میری جس طرح خدمت کر رہے ہیں ، میں انہیں سوائے دعائوں کے انہیں اس کا صلہ نہیں دے سکتی۔ خاص طور پر میری بیٹیاں ظل ہما، حنا، مینا اور نینا جس خلوص اور سعادت مندی سے میری تیمارداری اور خدمت کر رہی ہیں، اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ لڑکیاں واقع ہی خدا کی رحمت ہوتی ہیں۔ 

ملکہ ترنم نے کہا کہ ساری زندگی کی عزت وقار اور انا سے گزاری ہے، جب بھی مانگا ہے، خدا سے مانگا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ میرے علاج پر تین کروڑ سے زائد رقم خرچ ہو چکی ہے۔ اس ضمن میں میں کسی حکومت کی مرہون منت نہیں، یہ تمام اخراجات میں اپنے وسائل سے کر رہی ہوں۔ ملکہ ترنم نے کہاکہ اس موقع پر میری صرف ایک ہی تمنا ہے کہ وہ لمحات لوٹ آئیں، جب میں پھر سے گیت گا سکوں، میں راتوں کو اٹھ اٹھ کر گڑگڑاکر اللہ کے حضور دعائیں کرتی ہوں کہ وہ مجھے صحت عطا کرے اور مجھے ہمت، طاقت دے کہ میں پھر سے فن کے ذریعے ملک و قوم کی خدمت کرسکوں۔ 

رُو رُو کر یہ دُعا بھی کرتی ہوں کہ کسی طرح لاہور پہنچ جائوں۔ میں پانچ برس کی عمر میں داتا کی نگری میں آئی تھی، میرا فن لاہور میں ہی پروان چڑھا ہے۔ مجھے لاہور سے نکلے ہوئے ڈیڑھ برس کے قریب عرصہ گزر چکا ہے۔ میرا جی چاہتا ہے کہ میں اُڑ کر لاہور پہنچ جائوں۔ ڈاکٹر طبی وجوہ کی بناء پر مجھے لاہور جانے کی اجازت نہیں دے رہے ہیں، اگر میں لاہور جانے پر اصرار کروں، تو وہ کہتے ہیں اگر لاہور جانا ہے، تو اپنے رسک پر چلی جائو۔ 

ملکہ ترنم نے کہا کہ لاہور میں ڈائیلسز کی وہ سہولتیں میسر نہیں، جوکراچی اور اس کے بعد امریکا اور لندن میں میسر ہیں۔ ڈاکٹروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ میرا بلڈ پریشر لو ہوجاتا ہے، اگرجہازمیں بلند پریشر کم ہو گیا توکون سنبھالے گا۔ ملکہ ترنم نے کہا کہ میں ایک مذہبی عورت ہُوں، ہر وقت درود شریف کی تسبیح کرتی رہتی ہوں کہ اللہ اپنے نبی پاکؐ کے صدقے مجھ پر اپنے فضل و کرم کی بارش کرتا رہے۔

ایک سوال کے جواب میں ملکہ ترنم نورجہاں نے کہا کہ گانا تو میری زندگی ہے، علالت کی وجہ سے گزشتہ تین چار سال کے دوران اگرچہ میں کوئی نیا گانا ریکارڈ نہیں کروا سکی، لیکن طبیعت ذرا بھی سنبھلتی ہے، تو میں اپنے گانے گنگنانا شروع کر دیتی ہُوں۔ اس کے علاوہ سی ڈی اور ٹیپ پر بھی اپنے گانے سُنتی ہوں۔ ٹی وی پر میرے نغمات کا پروگرام نشر ہو تو اسے بھی دیکھتی ہوں، یُوں میری ریہرسل ہو جاتی ہے اورگلوکاری کا عمل بھی زندہ رہتا ہے۔

اس انٹرویو کے دوران ملکہ ترنم نے اپنی زندگی اور پروفیشن کے بعض ایسے پہلو بھی بیان کیے جن کا پہلے کسی کو علم نہیں تھا، انہوں نے بتایا کہ میرامعمول تھا کہ میں اپنے ہرگانے کے معاوضے پر زکوٰۃ ادا کرکے اسٹوڈیوز سے باہر نِکلا کرتی تھی۔ حاجت مند اسٹوڈیوز میں مجھ سے رابطے رکھتے تھے۔

ملکہ ترنم نے کہا کہ امریکا میں گیس کی وجہ سے میرا پیٹ پھول گیا، تو ڈاکٹروں نے تجویز کیا کہ گیس کے علاج کے لیے میں سگریٹ نوشی شروع کردوں۔ ڈاکٹروں نے کہا کہ مجھے روزانہ چار پانچ سگریٹ ضرور پینے چاہئیں۔ مجھے سگریٹ نوشی سے سخت نفرت ہے، لیکن علاج پر مجھے سگریٹ پینے پڑتے ہیں۔ سگریٹ پیتے ہوئے میں اکثر دھواں حلق ہی سے باہر نکال دیتی ہُوں، ملکہ ترنم نے بتایا کہ میں سگریٹ پیتی ہُوں، تو بچے ہنستے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں ملکہ ترنم نے بتایا کہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مجھے گھریلو اور ازدواجی سکون حاصل نہ ہو سکا، لیکن علالت کے دوران اعجاز دُرانی نے بہت اچھا رویہ اپنایا ہے۔ اعجاز تین مرتبہ میری تیمارداری کے لیے امریکا پہنچے۔ طبیعت کا پوچھنے کراچی بھی آتے رہتے ہیں۔ اسی طرح شوکت حسین رضوی بھی فون پر میری طبیعت کا پوچھتے رہتے تھے۔ مجھے شوکت صاحب کے انتقال کا بہت صدمہ ہے۔ خاص طور سے اس بات کا بہت دُکھ ہے کہ ان کے انتقال کے وقت میں امریکا میں زیر علاج تھی، جس کی بنا پر ان کی تیمارداری نہیں کر سکی۔ (یہ انٹرویو 25 مئی1999 کو جنگ میں شائع ہوا)