• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نیرو 37ء میں اٹلی میں پیدا ہوا۔ 17سال کی عمر میں سلطنت ِروم کا پانچواں بادشاہ بنااور14سال تک بادشاہت کا تاج اس کے سر پر رہا۔تاریخی شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ اپنے دور حکومت کے ابتدائی کچھ سال نیرو نے اپنی رعایا پر بہت اچھے نظم ونسق کے ساتھ حکومت کی۔ان ابتدائی برسوں میں اس نے عوام سے بھاری ٹیکسوں کا بوجھ ہلکا کرنے کی کوشش کی۔Indirectٹیکسز کم کرکے Directٹیکسز کو بڑھایا تاکہ ان ٹیکسز کا غریب عوام پر کم سے کم بوجھ پڑے۔اس کے علاوہ اپنی سلطنت میں بہت زیادہ ترقیاتی کام بھی کرائے۔عوام کو سیروتفریح کی سہولتیں بہم پہنچانے کے لئے تھیٹرز بنوائے۔ کھیلوں اور ثقافتی سرگرمیوں کے فروغ کے لئے کافی اقدامات کئے۔تجارت اور سفارت کاری پر بھی کافی توجہ دی مگر کچھ ہی عرصہ بعد نیرو نے ایسے رنگ پکڑنا شروع کیا جیسے سیاسی جماعتیں الیکشن میں کامیابی کے بعد رنگ پکڑتی ہیں۔ اب نیرو کی شخصیت اور حکمرانی کے حقیقی جوہر سامنے آنا شروع ہوگئے۔نیرو اپنی ذاتی شہرت کے نشہ میں مبتلا اور اخلاقی و جنسی بے راہ روی کا شکار ہو کر اچھی حکمرانی کے راستے سے بھٹک گیا۔اس کی جنسی بے راہ روی کے قصے زبان زدِعام ہونا شروع ہوگئے۔اپنی ماں اور حاملہ بیوی کو بچے سمیت قتل کردیا۔عوام پر بھی ظلم اور زیادتیاں کرنا شروع کردیں۔ اپنی شہرت بڑھانے (سلطنت کا بادشاہ تو تھا پتہ نہیں اور کیا مشہوری چاہئے تھی۔سچ ہے کہ خواہشات کی کوئی حد نہیں ہوتی)کے لئے نیرو نے اداکاری اور گلوکاری شروع کردی۔مختلف عوامی پروگرامز میں اس نے اداکاروں کا مخصوص لباس پہن کر باقاعدہ اسٹیج پر فارم کرنا شروع کردیا۔انہیں حالات میں64ء میں اچانک ایک خطرناک آگ نے پورے روم کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔مسلسل چھ دن تمام شہر آگ کے شعلوں کے رحم و کرم پر رہا۔اس دوران تقریباً دوتہائی شہر جل کر راکھ کا ڈھیر بن گیا ۔کچھ مورخین کے نزدیک اس عظیم سانحہ کے موقع پر نیرو اپنے محل کے اونچے برُج پر بیٹھ کر آگ کا نظارہ کرتا رہااور اداکاروں کا مخصوص لباس پہن کر اداکاری اور گلوکاری کرتا رہا اور بانسری بجاتا رہا۔ اس نے آگ بجھانے کے لئے کوئی تحرک نہ کیا۔یوں یہ روم کے جلنے اور نیرو کے بانسری بجانے کا محاورہ پوری دنیا میں زبان زدِ عام ہوا۔سچ پوچھئے تو نیرو واقعی ایک”شہزادہ “آدمی تھا۔شاید اس سانحہ کے موقع پر نیرو کے اس رویّے کی وجہ سے روم میں یہ قیاس آرائی زور پکڑنے لگی کہ یہ آگ نیرو نے خود لگوائی تاکہ آگ کے بعد شہر کے جل جانے پر اسے ایک شاندار محل تعمیر کرنے کے لئے ایک بڑا قطعہ زمین میسر ہوسکے اور واقعی ایسا ہی ہوا۔کچھ عرصہ بعد نیرو نے اس راکھ کے ڈھیر پر اپنے کے لئے کئی سو ایکڑ پر مشتمل ایک شاندار شاہی محل تعمیر کرایا۔ نیرو نے شہر میں ان قیاس آرائیوں، کہ یہ آگ اس نے خود لگوائی ہے، سے توجہ ہٹانے کیلئے شہر کے عیسائیوں پر آگ لگانے کا الزام عائد کر دیا۔اس پاداش میں کئی عیسائیوں کو گرفتارکرکے ان پر شدید تشدد کرایا گیا اور ہماری پولیس کی طرح تشدد کے ذریعے ان سے اقبال جرم بھی کروالیا گیا۔گرفتار شدہ عیسائیوں کی نشاندہی پر مزید لوگوں کی گرفتاریاں شروع ہوجاتیں اور پھر ان پر ظلم کے پہاڑ گرائے جاتے۔ان گرفتار شدہ عیسائیوں میں سے کچھ کو توجنگلی جانوروں کی کھالوں میں زندہ لپیٹ کر کتوں کے آگے ڈال دیا جاتا۔ حتیٰ کہ کچھ لوگوں کو جلا کر نیرو اپنے محل کے باغ کو روش کرنے کیلئے باقاعدہ Human Torchesکے طور پر استعمال کرتار ہا۔ امور سلطنت پر توجہ نہ دینے اور عیش و عشرت کی وجہ سے شاہی اخراجات بہت حد تک بڑھ جانے کی وجہ سے سرکاری خزانہ خالی ہوا تو نیرو نے مظلوم عوام پر ٹیکسوں کابوجھ بڑھانا شروع کردیا۔ہر طرف کرپشن اور رشوت کا دور دورہ شروع ہوگیا ۔پبلک آفسز اہل اور دیانتدار لوگوں کو دیئے جانے کے بجائے ان کی باقاعدہ نیلامی شروع ہو گئی اور سب سے زیادہ بولی دینے والے افراد ان پوزیشنز کے حق دار ٹھہرتے۔ نتیجتاً ان بدعنوانیوں کا سارا بوجھ پسی ہوئی عوام کو برداشت کرنا پڑتا۔ نیرو کی ”فنکاریاں“ یہاں ختم نہ ہوئیں۔ نیرو نے67ء کے اولمپکس میں بھی شرکت کی۔ مگر مقابلے کے دوران تھوڑی ہی دور جا کر گھوڑے سے گر کر زخمی ہو گئے۔یہاں پر بھی فنکاری دکھائی اور اولمپکس اہلکاروں کو رشوت دے کر کامیاب ٹھہرے۔ اولمپکس اہلکاروں نے اسے اس بنیاد پر جیت کا حقدار ٹھہرایا کہ اگر نیرو دوڑ مکمل کرتا تو سب سے آگے ہوتا۔
عوام کی فلاح کے بجائے ان پر ظلم کرنے، رشوت اور بدانتظامی کو فروغ دینے اور اپنی عیش و عشرت اور شہرت میں پڑ کر نیرو نے اپنی رعایا کے دل میں اپنا احترام اور اپنی ساکھ ختم کر دی۔ تنگ آمد بجنگ کے تحت مظلوم عوام آہستہ آہستہ بغاوت پر اتر آئے۔ سلطنت روم کے مختلف صوبوں میں نیرو کے خلاف بغاوت کی پُرزور تحریکیں شروع ہوگئیں۔ نیرو کو ” قوم کا دشمن“ قرار دیا گیا ۔ صورتحال یہاں تک گمبھیر ہو گئی کہ نیرو اپنی جان بچانے کے لئے محل سے بھاگ گیا۔ مختلف دوستوں اور ساتھیوں سے امداد کے لئے درخواست کی مگر کوئی بھی دوست کوئی بھی ساتھی ساتھ دینے کے لئے تیار نہ ہوا۔ جب کہیں چھپنے کے لئے جگہ نہ ملی تو واپس محل میں آگیا۔ اپنا ماتحت عملہ بھی ساتھ چھوڑ گیا۔اگرچہ تاریخ کا یہ سبق ہے کہ ایسے موقعوں پر ایسے ہی ہوتا ہے۔مگر دنیا کے ظالم حکمران اپنے عروج پر اپنی طاقت کے نشے میں سرشار ہو کر یہ بات قطعی طور پر نظر انداز کر بیٹھتے ہیں۔نیرو نے جب دیکھا کہ باغیوں نے گھیرا تنگ کر دیا ہے تو اپنے ایک ساتھی سے درخواست کی کہ اس کی پیٹھ میں خنجر گھونپ کر اس کا قصہ تمام کر دے تاکہ گرفتاری کی صورت میں باغیوں کے ظلم اور تشدد سے بچ جائے۔ مگرکوئی ساتھی اس کام پر بھی تیار نہ ہوا۔ ایسے حالات سے تنگ آ کر آخر کار 68ء میں نیرو نے 32سال کی عمر میں خودکشی کرلی۔مرتے وقت نیرو نے جو الفاظ کہے وہ یہ تھے کہ آج دنیا ایک اچھے فنکار سے محروم ہورہی ہے۔
نیرو کی موت کے بعد روم میں یہMythمشہور ہوگئی کہ نیرو مرا نہیں بلکہ زندہ اٹھا لیا گیا ہے اور یہ پھر کسی نہ کسی دن دنیا میں نمودار ضرور ہو گا۔مختلف نجومیوں اور آسٹرالوجرز نے بھی نیرو کی دوبارہ آمد کے حوالے سے اس قسم کی پیش گوئیاں شروع کردیں۔انہیں توہمات کی وجہ سے ان کی موت کے بعد تین لوگ سامنے آئے جو نیرو ہونے کے دعویدار تھے۔پہلا دعویدار تو نیرو کی موت کے ایک سال بعد ہی سامنے آگیا اس کی شکل نیرو سے ملتی تھی اور وہ بانسری بجانے میں بھی مہارت رکھتا تھا۔اداکاری اور گلوکاری بھی کرلیتا تھا۔آخرجھوٹا ثابت ہونے پر پکڑا گیا اور موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔نیرو ہونے کا دوسرا دعویدار کوئی دس سال بعد سامنے آیا۔یہ بھی بانسری کے فن میں ماہر تھا مگر جھوٹا ثابت ہوا اور مارا گیا۔کوئی بیس سال بعد تیسرا دعویدار سامنے آیا مگرExposeہونے پر اس کا بھی وہی انجام ہوا۔اب اندازہ نہیں کہ اصل نیرو گزرگیا ہے یا ابھی آنا باقی ہے۔کوئی تاریخی حوالہ بھی اس بارے میں کوئی آگاہی دینے سے قاصر نظر آتاہے۔
قارئین پچھلے کچھ عرصہ سے بعض اوقات بیٹھے بیٹھے میرے کانوں میں عجیب عجیب آوازیں آنا شروع ہوگئی ہیں۔پتہ نہیں میرے کانوں میں کوئی مسئلہ ہے یا صرف میرا وہم ہے۔یہ آوازیں بانسری کی آواز سے ملتی جلتی ہیں۔یقین کیجئے بعض اوقات تو میں ڈر ہی جاتا ہوں کہ خدا کرے۔ بدقسمتی سے پاکستان بھی اس وقت دہشت گردی،غربت،بیروزگاری اور ظلم کی آگ میں جل رہا ہے اور اوپر سے بانسری کی آوازیں۔پتہ نہیں یہ آوازیں کس کی آمد کا اعلان کر رہی ہیں۔آپ بھی کسی وقت تنہائی میں ضرور غور کیجئے اور دیکھئے کہ آپ کو بھی کہیں سے کوئی بانسری کی آواز تو نہیں آرہی؟
تازہ ترین